Wikipedia

Search results

Monday, June 1, 2020

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)


مسافر
قسط نمبر_24(آخری قسط)
از
خانزادی

بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟
حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔
نہی ایسا کچھ نہی ہے،میں نہی رو رہی۔
حبا اداس چہرہ لیے اس کے پاس بیٹھ گئی اور کندھے پر ہاتھ رکھا۔
سارہ مسکرا دی مگر آنکھوں سے بہتے آنسو نا روک پائی۔
میں جانتی ہوں آپ اس رشتے سے خوش نہی ہیں۔
کتنا سمجھایا تھا بھائی نے آپ کو مگر آپ اپنی ضد پر اٹکی رہیں۔
اب دیکھیں کیا ہو گیا،،،،
اب ہم چاہ کر بھی کچھ نہی کر سکتے آپ کے لیے۔۔نکاح ہو چکا ہے اور کل بارات ہے۔
ولیمے کا فنکشن بھی طے ہو چکا ہے۔
اب کچھ نہی ہو سکتا۔
حبا مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔۔۔۔سارہ اس کے گلے لگ کر آنسو بہانے لگ گئی۔
یہ سب اتنا مشکل ہو گا میں کبھی سوچ نہی بھی نہی سکتی تھی۔
دانیال کیسے کر سکتے ہیں ایسا؟
وہ مہوش کے ساتھ ایسے کیسے بیٹھ گئے؟
بھابی ابھی تو آپ سے ان دونوں کا ساتھ بیٹھنا نہی برداشت ہو رہا تو ان کو زندگی بھر ساتھ کیسے دیکھ پائیں گی آپ؟
خود کو سنبھالیں۔۔۔۔
سب بدل چکا ہے اور یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے آپ کی مرضی کے مطابق ہی تو ہو رہا ہے۔
اب رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہی ہے،بہتر ہے خود کو مظبوط بنائیں۔
نہی کر سکتی میں خود کو مظبوط!
میں ہار چکی ہوں۔۔۔
کچھ نہی بچا میرے پاس۔۔۔۔
کھو چکی ہو میں اپنا سب کچھ۔۔۔۔
"ایک سچا دوست اور محبت کرنے والا شوہر"
کچھ بھی تو نہی بچا میرے پاس۔۔۔۔
میری ہر مشکل کو حل کرنے والا میرا دوست اور میری آنکھ سے آنسو گرنے سے پہلے ہی اسے پونچھنے والا میرا شوہر مجھ سے دور ہو گیا۔
صرف اور صرف میری وجہ سے۔۔۔۔مگر میں دکھی نہی ہوں کیونکہ اسی میں سب کی خوشی ہے۔
سب کی خوشی؟؟؟
نہی بھابی۔۔۔۔اس میں سب کی نہی بس آپ کی خوشی شامل تھی۔
مجھے نہی پتہ کیوں آپ نے اتنا بڑا فیصلہ لیا۔
اور اب آپ پچھتا رہی ہیں؟
ہاں یہ سچ ہے کہ میں بہت پچھتا رہی ہوں مگر میں ایک بیٹے کو اس کی ماں سے دور نہی کر سکتی تھی۔
کس نے کہہ دیا آپ سے کہ بھائی کو ماما سے چھین رہی ہیں آپ؟
آپ کا حق ہے بھائی پر۔۔۔۔شوہر ہیں وہ آپ کے۔
ماما تو شروع سے ایسی ہیں مگر آپ اتنی بڑی بے وقوفی کیسے کر سکتی ہیں؟
میرے خیال سے آپ کو بھائی سے معافی مانگ لینی چاہیے۔
ان سب میں وہ بھی بہت پریشان ہیں۔
مہوش سے نکاح ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہی ہے کہ آپ کا ان سے کوئی تعلق نہی رہا،آپ کا حق ہے بھائی پر اور ہمیشہ رہے گا۔
لیکن مجھے معاف نہی کریں گے۔۔۔۔۔
ایسا کس نے کہہ دیا آپ سے؟
آپ ابھی جائیں بھائی کے پاس۔۔۔۔۔چلیں میرے ساتھ۔
اگر آج نہی تو کبھی نہی۔۔۔
کہی ایسا نا ہو کہ آپ بھائی کو ہمیشہ کے لیے کھو دیں۔
بتائیں ان کو کہ ان کی کیا اہمیت ہے آپ کی زندگی میں۔
حبا اسے دانیال کے کمرے کے سامنے چھوڑ کر وہاں سے چلی گئی۔
سارہ نے ہاتھ بڑھا کر دروازہ ناک کیا۔
yes'come in....
دانیال کے جواب پر وہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی۔
کیا ہوا کوئی کام تھا؟
دانیال اسے یوں اچانک سامنے دیکھ کر ٹاول کرسی پر رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
وہ ابھی ابھی نہا کر واش روم سے باہر آیا تھا۔
اور تم نے چینج کیوں نہی کیا ابھی تک؟
وہ میں کہنا چاہتی تھی کہ۔۔۔۔سارہ مزید نا بول پائی۔
کیا؟؟؟
دانیال اس کے قریب آ رکا اور دونوں بازو سینے پر فولڈ کیے اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
سارہ نے جواب تو نہی دیا مگر اس کی پلکوں سے گرتے آنسو دیکھ کر دانیال خود کو روک نا پایا اور اسے سینے سے لگائے اس کے دھڑکن کو سننے لگا۔
I am sorry.....
مجھے لگا تھا میرا فیصلہ سہی ہے مگر درحقیقت میں غلط تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ ناں تو میں آپ کے بغیر رہ سکتی ہوں اور ناں ہی آپ کے ساتھ کسی اور کو برداشت کر سکتی ہوں۔
دانیال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
بڑی جلدی احساس نہی ہو گیا تمہیں؟
اب جب سب کچھ ہو چکا ہے تو تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے؟
سارہ کے آنسووں میں مزید روانی آ گئی اور اب تو وہ ہچکیاں بھر بھر کر آنسو بہا رہی تھی۔
سارہ پلیز یہ رونا بند کرو۔۔۔۔دانیال اس کے بال سہلاتے ہوئے بولا۔
اچھا سنو میری بات یہاں بیٹھو۔۔۔۔وہ اسے صوفے تک لے آیا اور پانی کا گلاس لے کر اسے پانی پلایا۔
شکر ہے تمہیں احساس تو ہوا۔۔۔
اب میری بات سنو،،،،،
جیسا تم سمجھ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہی ہے۔
مہوش کا نکاح مجھ سے نہی اسفند سے ہوا ہے۔
یہ سارا گیم تمہیں احساس دلانے کے لیے تھا۔
مطلب؟؟؟
سارہ نے نظریں اٹھا کر بے یقینی سے دانیال کی طرف دیکھا۔
وہ مسکرا دیا۔
مطلب یہ کہ میری زندگی بس تم ہو۔۔۔۔۔
کسی اور کو زندگی میں شامل کرنا تو دور کی بات ہے٫کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی میرے لیے گناہ ہے۔
مطلب وہ سب جھوٹ تھا؟؟؟
ہاں سب جھوٹ تھا۔۔۔۔یقین نہی آ رہا تو آو دکھاتا ہوں۔
وہ سارہ کو کھڑکی کے پاس لے گیا جہاں سے پورا گارڈن نظر آ رہا تھا اور چند مہمان بیٹھے تھے۔
وہ دیکھو زرا سٹیج پر کون ہے مسٹر اینڈ مسز اسفند۔
سارہ کی نظر مہوش اور اسفند پے پڑی تو حیران رہ گئی۔
کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں؟
میرے سر پے ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں۔
دانیال نے افسردگی سے سر ہلایا۔
ہاں ہاں میں سچ کہہ رہا ہوں میری جان تمہاری قسم۔۔۔۔
دانیال نے اس کے سر پے ہاتھ رکھ کر قسم کھائی تو سارہ کو یقین آیا۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور خوشی کے مارے آنسو بھی نکل رہے تھے۔
بس اب رونا نہی۔۔۔دانیال نے اسے خود میں بھینچ لیا۔
اب اپنے کمرے میں جانا چاہیے آپ کو جناب۔۔۔کل پورے رسم و رواج کے ساتھ دلہن بن کر اس کمرے میں آنا ہے تمہیں۔
مطلب؟
یارررر سارہ ایک تو تم سوال بہت پوچھتی ہوں۔
مطلب یہ کہ کل ہماری شادی ہے۔
آج مہندی کی رسم تو ہماری تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اسفی کا نکاح بھی۔
میرے کہنے پر ہی یہ نکاح یہاں ہوا اور شادی تین ماہ بعد ہے۔
تب تک اسفی ترکی سے واپس آ جائے گا۔
مگر ہماری شادی کل ہے۔
لیکن بڑی ماما؟؟؟؟
میں ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی کی فکر کرنے کی ضرورت نہی ہے۔
مام کو ڈیڈ سمجھا چکے ہیں۔
چلو کمرے میں چھوڑ دیتا ہوں تمہیں چینج کر کے سو جاو۔
سارہ مسکراتی ہوئی دانیال کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
دروازہ لاک کر لینا۔۔۔۔دانیال اس کے مہندی سے بھرے ہاتھ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ تیزی سے دروازہ بند کرتی ہوئی اپنی بے قابو ہوتی دھڑکن کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی۔
چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے مسکرا دی۔
صبح نماز پڑھ کر بیٹھی تھی کہ دروازہ ناک ہوا۔
دروازے پر زلیخا بیگم تھیں۔
بڑی ماما آپ۔۔۔۔۔
خبردار!
جو مجھے ماما کہا۔۔۔۔۔
میرے ساتھ کوئی رشتہ نہی ہے تمہارا۔
تمہاری وجہ سے میرا بیٹا مجھ سے دور ہو گیا اور شوہر نے طلاق کی دھمکی دی ہے۔
لیکن ایک بات میں تمہیں بتا دوں۔۔۔۔تم اس گھر میں کبھی خوش نہی رہ سکو گی۔
میں تمہیں خوش رہنے ہی نہی دوں گی۔
اچھا ہوتا کہ میں اس دن تمہارے باپ کے ہاتھ میں طلاق نامہ تھما دیتی۔
لیکن مجھ سے ایک غلطی ہو گئی تھی کہ میں نے پہلے ہی تمہارے باپ کو بتا دیا اور وہ ہارٹ اٹیک سے مر گیا۔
سارے پلان پر پانی پھیر گیا اور تمہاری ماں تمہیں یہاں سے لے کر رفو چکر ہو گئی۔
مطلب بابا آپ کی وجہ سے مر گئے۔۔۔۔۔؟؟؟
نہی میری وجہ سے نہی۔۔۔۔۔۔میں نے نہی مارا تمہارے باپ کو۔
تم نے مارا ہے۔۔۔۔تمہاری طلاق کی ٹینشن لے کر اسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
تم ہو ہی منحوس۔۔۔۔
بڑی ماما آپ قاتل ہیں میرے بابا کی۔
نہی۔۔۔میں نہی ہوں قاتل تمہارے باپ کی تم خود ہو۔
میں سب کو بتاوں گی۔۔۔۔۔۔میرے بابا کی قاتل ہیں آپ،،،سارہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور زلیخا بیگم کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔
غصے غصے میں وہ اپنا راز خود ہی کھول گئیں۔
خبردار اگر تم نے کسی سے اس بات کا ذکر بھی کیا۔۔میں تمہاری جان لے لوں گی وہ سارہ کا گلہ دباتے ہوئے بولیں۔
سارہ کو اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
بڑی ماما چھوڑیں مجھے۔۔۔۔
دانیال۔۔۔۔۔بچائیں مجھے۔
وہ بہ مشکل بول رہی تھی۔
اپنے آپ کو بچانے کے لیے سارہ ہاتھ پاوں مار رہی تھی مگر زلیخا بیگم پر تو جیسے کوئی جنون طاری تھا۔
مام۔۔۔۔یہ کیا کر دہی ہیں آپ؟؟؟؟
دانیال کمرے میں داخل ہوا اور تیزی سے سارہ کی طرف بڑھا اسے ماں کے چنگل سے آزاد کیا۔
سارہ کھانسنے لگی اس کا سانس بحال نہی ہو رہا تھا۔
مام اگر اسے کچھ ہوا تو سمجھ لیجئیے گا آپ کا بیٹا بھی مر گیا۔
نہی۔۔۔۔زلیخا بیگم نے سر نفی میں ہلایا۔
خود غرضی کے عالم میں وہ سمجھ ہی نہ پائی کہ وہ کیا غلطی کر رہی ہیں۔
آخر بگاڑا کیا ہے سارہ نے آپ کا؟؟؟؟
سارہ سنبھالو خود کو میں ہوں تمہارے پاس۔۔۔۔۔وہ سارہ کو سینے سے لگائے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔
دانیال اتنے غصے سے چلایا کے سارے گھر والے یہاں آ گئے۔
حبا نے دروازہ بند کر دیا کیونکہ گھر میں اتنے سارے مہمان تھے۔
کیا ہو رہا ہے یہاں؟؟؟؟
دانیال کے ڈیڈ بیگم کو غصے سے دیکھتے ہوئے بولے۔
سارہ کی حالت دیکھ کر سب پریشان ہو چکے تھے۔
کیا ہو گیا میری بچی کو یہ سانس کیسے لے رہی ہے؟؟؟؟؟
دانی کچھ بتاتے کیوں نہی۔۔۔؟
دادی جان فکر مندی سے بولیں۔
پانی پلاو اسے۔۔۔۔
حبا جلدی سے پانی لے کر اور دانیال کی طرف بڑھایا۔
سارہ کی طبیعت سنبھلی تو دانیال کی جان میں جان آئی۔
آج اگر میں وقت پر نہ پہنچتا تو شاید مام سارہ کی جان لے چکی ہوتیں۔
کیا؟؟؟؟؟
زلیخا تمہاری اتنی جرات!
دادی جی شدید غصے میں بہو کی طرف بڑھیں۔
کیوں کیا تم نے ایسا زلیخا؟؟؟؟؟
تم اس قدر گر جاو گی میں سوچ نہی سکتی تھی۔
سارہ بتاو بیٹا کیا ہوا؟
دانیال کے بابا سارہ کی طرف بڑھے۔
سارہ نے پریشانی سے دانیال کی طرف دیکھا۔
ہاں سارہ بتاو کیا ہوا تھا؟
دانیال نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تو سارہ نے ساری بات بتا دی۔
تم قاتل ہو میرے بیٹے کی؟؟؟؟
دادی جی آنسو بہانے لگیں۔
میں نے کوئی قتل نہی کیا میں نے تو بس اتنا ہی کہا تھا۔۔۔۔چٹاخ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتیں ایک زور دار تھپڑ ان کے چہرے پے پڑا۔
شرم آنی چاہیے تمہیں زلیخا بیگم۔۔۔۔اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی تمہیں یہ لگتا ہے کہ تمہاری کوئی غطی نہی؟
شرمندہ ہونے کی بجائے اپنی بات پر ڈٹی ہو۔
دور ہو جاو میری نظروں سے۔۔۔۔۔
زلیخا بیگم نے ایک نظر سارہ کو دیکھا اور گال پر ہاتھ رکھے کمرے سے باہر چلی گئیں۔
حبا اور کامران بھی ان کے پیچھے کمرے سے باہر چل دیے۔
بیٹا ہمیں معاف کر دو ہم تمہیں تحفظ نہی دے سکے۔
دادی جی سارہ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولیں۔
نہی دادو جان ایسا مت بولیں۔
اس میں آپ سب کی کوئی غلطی نہی ہے اور مجھے بڑی ماما سے بھی کوئی گلا نہی ہے وہ غصے میں تھیں۔
یہ تو تمہارا ظرف ہے بیٹا۔۔۔۔۔دانی خیال رکھو اس کا اور اسے اکیلی مت چھوڑنا۔
جی دادو میں یہی ہوں۔
دادا جی اور دادی جی دونوں کمرے سے باہر نکل گئے اور دانیال کے بابا بھی سارہ کے سر پے ہاتھ رکھ کر دکھی دل کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئے۔
اب گھبرانے کی ضرورت نہی ہے سارہ میں ہوں تمہارے پاس۔
سارہ نے فقط مسکرانے پر اکتفا کیا۔
نہی میں ٹھیک ہوں آپ اپنے کمرے میں چلے جائیں۔
نہی میں کوئی رسک نہی لے سکتا٫جو آج ہوا دوبارہ نہی ہونا چاہیے۔
میں ناشتہ منگواتا ہوں۔
مام۔۔۔۔۔بات تو سنیں۔۔۔۔حبا اور کامران دونوں ماں کے پیچھے کمرے میں گئے۔
دفع ہو جاو تم دونوں یہاں سے۔۔۔۔۔تم سب کے سب ملے ہوئے ہو اس لڑکی کے ساتھ۔
مام سارہ بھابھی ایسی نہی ہیں،آپ ان سے اتنی بدگمان کیوں ہیں؟
ہاں ہاں تم بن جاو اب بھابھی کے دیور۔۔۔دو اسی کا ساتھ۔
ماں تو دشمن ہے تم سب کی۔
مام ایسا نہی ہے۔۔۔۔حبا آگے بڑھی۔
خبردار جو میرے پاس آئی تم۔۔۔۔جاو اپنی لاڈلی بھابھی کے پاس اب وہی تم دونوں کی ماں ہے۔
مام اب ایسا تو نہ بولیں آپ۔۔۔۔آج بھائی کی شادی ہے اور آپ غصہ کر رہی ہیں۔
ہاں ہاں میں ہی غصہ کر رہی ہوں۔۔۔۔تم ایسا کرو جاو تم بھی اپنے بھائی کے پاس اور اس سے کہو تمہارے لیے بھی ایسی ہی لڑکی ڈھونڈ دے۔
میں غلط ہوں یہ تو نظر آتا ہے سب کو مگر جو تمہارے باپ نے اور بھائی نے کیا ہے میرے ساتھ اس کا کیا؟
میں نے جو کیا بہت اچھا کیا بلکہ بہت پہلے کرنا چاہیے تھا مجھے یہ۔
ڈیڈ کو کمرے میں آتے دیکھ کر حبا اور کامران چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گئے۔
اتنا سب کچھ کرنے کے بعد تمہیں زرا شرمندگی نہی ہے بلکہ الٹا بچوں سے الجھ رہی ہو؟
کس بات کی شرمندگی؟؟؟؟
تمہارے بھائی کا مرنا ہارٹ اٹیک سے لکھا تھا تو اس میں میرا کیا قصور؟؟؟
اور رہی بات اس لڑکی کی تو اسے میں ہرگز برداشت نہی کروں گی اور نہ ہی اس شادی میں شرکت کروں گی۔
اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو ٹھیک ہے مگر میری ایک بات بھی کان کھول کر سن لو۔
تم اپنے بیٹے کی خوشیوں میں شامل نہ ہو کر اپنے پاوں پے خود ہی کلہاڑی مارو گی۔
اپنے بیٹے کو خود سے دور کرنے والی تم خود ہو گی۔
دیکھنا پھر وہ دن بھی دور نہی ہو گا جب وہ تمہارے اس سلوک کی وجہ سے یہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا۔
پھر کچھ نہی کر سکو گی تم۔۔۔۔سمجھانا میرا فرض تھا باقی جیسے تمہاری مرضی۔
تمہارے نہ آنے سے یہ شادی رکے گی نہی۔
وہ غصے میں کمرے سے باہر نکل گئے۔
زلیخا بیگم سوچ میں پڑ گئیں،ایسا تو وہ کبھی سوچ بھی نہی سکتی تھیں۔
کچھ دیر بعد حبا ناشتہ لے آئی۔
حبا تم بھی بیٹھو ہمارے ساتھ ناشتہ کرو۔
دانیال نے کہا تو حبا نے انکار کر دیا۔
نہی بھائی آپ لوگ کریں مجھے باقی سب کو بھی ناشتہ پہچانا ہے۔
شکر ہے آپ دونوں کے درمیان سب ٹھیک ہو گیا ورنہ آپ دونوں نے تو ٹینشن ہی ڈالی ہوئی تھی۔
اور ہاں بھابھی رئیلی سوری آپ سے وہ نکاح والا جھوٹ بولنے کے لیے۔
نہی میں ناراض نہی ہوں حبا۔
ہونا بھی نہی چاہیے ویسے آپ لکی ہیں جو آپ کو بھائی مل گئے۔
اوہو میں چلتی ہوں۔۔۔۔۔باتیں تو پھر بھی ہوتی رہیں گی۔
شروع کریں۔۔۔۔حبا کے جاتے ہی دانیال نے ناشتے کی پلیٹ سارہ کی طرف بڑھائی۔
میں بڑی ماما سے بات کرنا چاہتی ہوں ایک بار...
اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی؟؟؟؟
دانیال کو حیرت ہوئی۔
جی۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے ناشتہ کر کے چلتے ہیں۔
ناشتہ کرنے کے بعد وہ دونوں زلیخا بیگم کے کمرے کی طرف چل دیے۔
دروازہ ناک کیا تو وہ صوفے پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں۔
ان دونوں کو سامنے دیکھ کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
بڑی ماما پلیز مجھے معاف کر دیں۔
زلیخا بیگم سارہ کی آواز پر اس کی طرف دیکھنے لگیں وہ زمین پر بیٹھی ان کے پاوں تھامے معافی مانگ رہی تھی۔
زلیخا بیگم پر تو جیسے حیرتوں کے پہاڑ آ گرے۔
حالانکہ غلطی ان کی اپنی تھی معافی انہیں مانگنی چاہیے تھی سارہ سے مگر یہاں تو سب الٹ تھا۔
دانیال بھی حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔
میں نہی چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کے اور ان کے درمیان دوریاں پیدا ہو۔
میرے پاس کچھ نہی بچا آپ لوگوں کے سوا۔
میں اپن قیمتی رشتے کھونا نہی چاہتی۔۔۔۔آپ کو مجھ سے جو بھی اختلافات ہیں اس کی سزا مجھے دیں مگر ان سے کبھی ناراض مت ہونا آپ۔
زلیخا بیگم کا دل نرم پڑنے لگا اور وہ تیزی سے اٹھی اور سارہ کو اپنے سامنے کھڑا کیا۔
بیٹیوں کی جگہ ماں کے قدموں میں نہی دل میں ہوتی ہے اتنا بول کر سارہ کو گلے سے لگا لیا۔
معافی تو مجھے مانگنی چاہیے تم سے۔۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دو۔
نہی بڑی ماما آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت نہی ہے۔
میری دعا ہے اللہ تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔
دانیال کے ہاتھ میں سارہ کا ہاتھ تھما کر دونوں کو گلے لگا لیا۔
دانیال کے بابا اسی وقت کمرے میں داخل ہوئے اور سامنے کا منظر دیکھ کر انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔
آپ بھی مجھے معاف کر دیں۔دیں۔۔اب وہ ہاتھ جوڑے شوہر کی طرف بڑھیں۔
معافی مجھ سے نہی اللہ سے مانگو۔
وہ شرمندگی سے آنسو بہانے لگیں۔
چلو بھئی تم دونوں کی شادی ہے آج تیاری نہی کرنی۔
جی ڈیڈ۔۔۔۔دانیال مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا اور سارہ بھی۔
نہی نہی نہی۔۔۔۔۔اب آپ اپنے کمرے میں جائیں بھابھی کو اکیلا چھوڑ دیں۔
دانیال سارہ کے ساتھ اس کے کمرے میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ حبا نے ٹوک دیا۔
اب رخصتی سے پہلے آپ بھابھی سے نہی مل سکتے۔
یہ کیسی رسم ہے حبا ہٹو راستے سے،مجھے ضروری بات کرنی ہے سارہ سے۔
اب یہ ساری ضروری باتیں آپ رخصتی کے بعد کرئیے گا۔
اس سے پہلے آپ بھابھی کو دیکھ بھی نہی سکتے۔
حبا کمرے کا دروازہ بند کر چکی تھی۔
بھائی آپ کا روم ڈیکوریٹ ہو رہا آپ دیکھ لیں اگر کوئی سیٹنگ کرنی ہے تو کامران کی آواز پر وہ پلٹ گیا۔
دانیال مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
بھابی کچھ دیر تک ہمیں پارلر کے لیے نکلنا ہے تب تک آپ اپنا ڈریس دیکھ لیں۔
حبا نے بیڈ پر پھیلائے لہنگے کی طرف اشارہ کیا۔
یہ ڈریس تو۔۔۔۔
جی بھابھی یہ وہی ڈریس ہے جو آپ کو پسند آیا تھا۔
بھائی نے پیک کروا لیا تھا۔
آپ پہن کر دیکھیں گی؟
نہی تیار ہوتے وقت ہی پہنوں گی مگر آج ڈوپٹہ سر پر رکھنا ہو گا ورنہ میں نہی پہن سکتی۔
سارہ کی بات پر حبا کی ہنسی ہی نہی رک رہی تھی۔
Dont worry
آج آپ ڈوپٹہ سر پر ہی رکھیں گی۔
یہ جیولری بھی دیکھ لیں اور بیگلز۔۔۔۔یہ سب میں نے پسند کیا ہے آپ کے لیے۔
ہممم سب کچھ بہت اچھا ہے۔۔۔۔میں کبھی سوچ بھی نہی سکتی تھی کہ مجھے اتنا پیار کرنے والی فیملی ملے گی۔
وہ اس لیے بھابھی کیونکہ آپ خود بھی بہت پیاری ہیں اسی لیے ہم سب آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔
چلیں میں یہ سب پیک کر کے گاڑی میں رکھوا دیتی ہوں اور بھائی کی شیروانی بھی نکال دوں۔
وہ ڈھونڈتے ہی نہ رہ جائیں۔
ماشا اللہ۔۔۔۔۔بھائی کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔
شکریہ۔۔۔۔دانیال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
میں آپ کی بات تو نہی کر رہی ان پھولوں کی بات کر رہی ہوں۔
حبا شرارتا بولی۔
اوہ اچھا مجھے لگا میری تعریف کر رہی ہو۔
آپ کسی تعریف کے محتاج نہی ہیں البتہ کامی کو ضرورت ہے خود کو امپروو کرنے کی۔
کیا مجھے کیا ہوا ہے؟
کامی نے جلدی سے خود کو شیشے میں دیکھا۔
ہونے کیا ہے کچھ ہے ہی نہی تم میں۔۔۔۔یہ موٹی ناک بنٹے جیسی آنکھیں اور اتنی خطرناک مونچھیں۔
مونچھیں۔۔۔۔کہاں ہیں؟
یہ ہیں تو کاکروچ جیسی مونچھیں۔۔۔حبا اپنی بات مکمل کرتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی اور کامی اس کے پیچھے بھاگا۔
حبا کی بچی آج تمہیں نہی چھوڑوں گا۔
ارے یہ دونوں بھی ناں۔۔۔۔۔دانیال کی ماما کمرے میں داخل ہوئیں۔
یہ رہی تمہاری شیروانی۔۔۔حبا سے کہا تھا تمہیں د آئے اور یہ وہی چھوڑ آئی۔
Thanks mom....
سارہ کو ایکسیپٹ کر کے آپ نے مجھے بہت بڑی خوشی دی ہے۔
تمہیں شکریہ کہنے کی ضرورت نہی ہے دانی۔
٫٫جو لڑکی اپنے شوہر کی خاطر اپنی غلطی نا ہوتے ہوئے بھی جھک جائے ایسی بیوی قسمت والوں کا نصیب بنتی ہے،،
مجھے فخر ہے کہ سارہ میری بہو ہے۔
اب تم تیار ہو جانا ٹائم پر سات بچے بارات ہال پہنچنی ہے۔
میں سارہ کو بھی دیکھ لوں اسے پارلر بھیجنا ہے۔
حبا تو اپنے کاموں میں مگن ہے۔
جی مام۔۔۔۔
ٹھیک سات بجے بارات ہال پہنچ گئی۔
سب دلہن کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
حبا سارہ کو ساتھ لیے ہال میں داخل ہوئی مگر یہ کیا؟
سب کے چہرے پر حیرت تھی۔
سارہ نے گھونگھٹ اوڑھ رکھا تھا۔
دانیال کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی وہ سٹیج سے نیچے اترا اور سارہ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
سارہ نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ دانیال کے ہاتھ پر رکھا اور سٹیج کے زینے طے کرتی ہوئی اوپر آ گئی۔
سب کے چہروں پر حیرانگی آ گئی کہ آج کے دور میں گھونگٹ کون اوڑھتا ہے۔
وہ کیا ہے ناں کہ بھابھی بہت گھبرا رہی تھیں اتنے لوگوں کے درمیان آنے میں اسی لیے مجھے ایسا کرنا پڑا بھائی۔
اٹس اوکے۔۔۔۔دانیال نے گہری سانس لی۔
ارے یہ کیا ہمیں دلہن کا چہرہ تو دکھاو بھئی۔۔۔ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں۔
سارہ میں گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں۔۔۔۔گھبرانے کی ضرورت نہی ہے میں ہوں تمہارے ساتھ۔
دانیال کی تسلی پر سارہ نے سر ہاں میں ہلایا۔
دانیال نے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے اور سارہ کے چہرے سے گھونگھٹ ہٹا۔
یہ خوبصورت منظر کیمرے میں ریکارڈ ہو گیا۔
ہر طرف سے ماشا اللہ۔۔۔کی آوازیں آ رہی تھی جبکہ دانیال کی نظریں سارہ کے چہرے پر ہی جمی تھیں۔
اففف بھائی سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔حبا نے کہنی ماری تو دانیال ہوش میں آیا۔
سارہ نظریں جھکائے کھڑی رہی حبا نے اسے صوفے پر بٹھا دیا تو دانیال بھی بیٹھ گیا۔
اسی پل اسفند مہوش کے ساتھ وہاں آ گیا۔
Congractulations......
دونوں دوست گلے ملے۔
تمہیں بھی مبارک ہو آخر وہ وقت بھی آ ہی گیا جب تم بھی جورو کے غلام بن گئے۔۔۔۔دانیال نے اسفند کی کھچائی کی۔
پورے تیس منٹ لیٹ ہو تم اسفی۔۔۔
ارے کیا بتاوں یار مہوش تیار ہونے میں اتنا ٹائم لگاتی ہے کہ کیا بتاوں تمہیں۔
ہاں یہ تو ہونا ہی تھا۔۔۔۔دانیال کی بات پر دونوں نے قہقہ لگایا۔
زلیخا بیگم سٹیج پر آئیں اور سارہ کے ہاتھوں میں خوبصورت کنگھن پہنائے۔
اسی طرح سب باری باری آئے اور دونوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوتے گئے۔
رخصتی کا وقت آیا تو دانیال کے بابا نے سارہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر رخصت کیا۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہر بیٹی کو ماں باپ کی اشد ضرورت ہوتی ہے،سارہ پھوٹ پھوٹ کر آنسو بہاتی رہی۔
خیر یہ وقت بھی گزر گیا۔
سارہ رخصت ہو کر دانیال کے کمرے میں آ گئی۔گئی
گلاب کے پھولوں سے سجی اس سیج میں وہ خود بھی گلاب کا پھول لگ رہی تھی۔
سب گھر والے دعائیں دے کر کمرے سے رخصت ہوئے تو دانیال اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
مگر یہ کیا؟؟؟؟
حبا راستہ روکے دروازے میں کھڑی تھی۔
کیا؟؟؟؟
دانیال نے کندھے اچکائے۔
پیسے۔۔۔۔۔حبا نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
اس وقت تو نہی ہیں میرے پاس صبح لے لینا۔
تو پھر ٹھیک ہے بھائی جب آپ کے پاس کیش ہو تب کمرے میں چلے جائیے گا۔
کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ میں آپ کی اکلوتی بہن ہوں اور آپ کا راستہ روکنا میرا حق ہے۔
what??
جی۔۔۔
دیکھو ابھی تو میرے پاس کیش نہی ہے صبح لے لینا۔
promise???
ہاں ہاں وعدہ۔۔۔۔
تو ٹھیک ہے جائیں اب آپ کمرے میں جا سکتے ہیں۔
Thanks alot mam....
دانیال نے اس کا کان کھینچا۔
حبا مسکراتی ہوئی وہاں سے چل دی۔
دانیال کمرے میں آیا تو سارہ گھونگھٹ اوڑھے بیٹھی تھی۔
دروازہ لاک کرتے ہوئے سارہ کی طرف بڑھا۔
جیسے ہی اس نے گھونگٹ اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا سارہ نے منہ دوسری طرف موڑ لیا اور ہاتھ آگے بڑھایا۔
پہلے منہ دکھائی۔۔۔۔۔
منہ دکھائی؟
یہ کس نے سکھایا تمہیں؟
حبا نے کہا تھا جب تک آپ مجھے گفٹ نہ دیں۔میں آپ کو چہرہ نا دکھاوں۔
اوہ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بنا گفٹ کے چہرہ نہی دیکھ سکتا میں؟
جی۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔اس نے سارہ کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگایا۔
سارہ نے تیزی سے اپنا ہاتھ واپس کھینچا۔
دانیال کا قہقہ کمرے میں گونجا۔۔۔۔کیا ہوا گفٹ ہی تو دے رہا تھا۔تھا
بہت برے ہیں آپ٫پیچھے ہٹیں مجھے چینج کرنے جانا ہے۔
ایسے کیسے۔۔۔۔دانیال نے ہاتھ بڑھا کر گھونگھٹ اٹھایا۔
ابھی جی بھر کر دیکھ تو لوں تمہیں آخر کار اتنا خرچہ کیا ہے پارلر کا بار بار تھوڑی نا اتنی پیاری لگو گی تم۔
آپ کا مطلب میں ویسے پیاری نہی ہوں؟
مجھے نہی بات کرنی آپ سے جا رہی ہوں چینج کرنے۔
سارہ اٹھنے ہی والی تھی کہ دانیال نے اس کے گرد بازو پھیلا کر فرار کی راہیں بند کر دیں۔
پہلے نماز پڑھ لیں خدا کا شکر ادا کر لیں پھر چینج کر لینا۔
جی۔۔۔۔سارہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
دونوں نے شکرانے کے دو نفل ادا کیے اور اپنی نئی زندگی کے لیے دعا مانگی۔
اب چینج کر سکتی ہو۔۔۔۔
سارہ ڈریسنگ کی طرف بڑھی اور جیولری اتارنے لگی۔
i can help....
دانیال مدد کے لیے سارہ کے پاس آ رکا۔
سارہ مسکرا دی اور دانیال کے سینے پر سر رکھے خود میں سکون اترتا محسوس کرنے لگی،دانیال بھی سکون سے آنکھیں موندے ان لمحوں کو محسوس کرنے لگا۔
راستہ چاہے جتنا بھی کٹھن ہو مسافر کو منزل مل ہی جاتی ہے بس ارادے مظبوط اور خدا پر بھروسہ ہونا چاہیے۔

ختم شدہ

4 comments:

  1. Sooooo niceend maza agya long epi .
    Mgr ek bat nai clear hui k danyal.ki.maa sara sa is qadar badzan ku the..kya kia tha is k.maa baap.na jo usy achi.nai.lgti the sara

    ReplyDelete
  2. Wooow bahot hi khubsorat Ending

    ReplyDelete

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...