Wikipedia

Search results

Thursday, May 21, 2020

مسافر قسط نمبر_22


مسافر
قسط نمبر_22
از
خانزادی

شام کو سارہ کمرے سے باہر آئی تو ہر طرف شور تھا٫پورے گھر کو پھولوں اور لائیٹوں سے سجایا جا رہا تھا۔
وہ چلتی ہوئی باہر لان میں چلی گئی۔
وہاں بھی ہر طرف سجاوٹ کا شور تھا۔
وہ بے دلی سے واک کرنے چلی گئی۔
واپس آئی تو حبا سے ٹکرا گئی۔
بھابی آپ وہاں باہر کیا کر رہی تھی؟
سب خیریت؟
ہاں بس تھوڑی گھبراہٹ ہو رہی تھی کمرے میں تو سوچا واک کر لوں۔
آپ اپنے کمرے میں چلیں اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیں۔
باہر کام ہو رہا ہے اس لیے آج کھانا سب کو اپنے اپنے کمرے میں ہی کھانا پڑے گا۔
آپ چلیں میں بھجواتی ہوں۔
نہی حبا مجھے ابھی بھوک نہی ہے٫تم کھا لو۔۔بس اتنا بول کر وہ تیزی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
کیا ہوا؟
ابھی سارہ وہاں سے گئی ہی تھی کہ دانیال حبا کے پاس آ رکا۔
بھائی مجھے لگتا ہے بھابی کی طبیعت ٹھیک نہی ہے۔
آپ ڈاکٹر کے پاس لے جائیں انہیں۔
ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں۔۔۔دانیال اس کے کمرے کی طرف چل دیا۔
سارہ کمرے میں گئی اور پانی کا گلاس بھرا دراز سے ایک گولی نکالی اور نگل لی۔
صوفے پر سر گرائے آنکھیں بند کیے بیٹھ گئی۔
میں پاگل ہو جاوں گی اگر مزید یہ سب دیکھا تو٫اب میں اپنے کمرے سے باہر نہی جاوں گی۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ کسی نے اس کا ماتھے کو چھوا۔
اس کی آنکھیں کھلیں تو سامنے دانیال تھا۔
کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے؟
یہ پسینہ کیوں آ رہا ہے تمہیں؟
کتنی بار بولا ہے اے سی آن رکھا کرو مگر تم سنتی ہی کہاں ہو۔۔۔دانیال کی نظر بند اے سی پر پڑی تو غصے سے بولا۔
اے سی آن کرتے ہوئے سارہ کے پاس آ بیٹھا۔
آخر کس بات کی سزا دے رہی ہو خود کو؟
کسی بات کی نہی۔۔۔۔بس مجھے اے سی میں رہنے کی عادت نہی ہے۔
آپ جائیں مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔سارہ ماتھے پر ہاتھ رکھے بولی۔
یہ کوئی ٹائم ہے سونے کا سارہ؟
بس ایسے ہی نیند آ رہی ہے٫آپ پلیز جائیں یہاں سے۔
سچ کیوں نہی کہہ دیتی سارہ؟
کہہ دو کہ تمہیں یہ سب اچھا نہی لگ رہا۔۔۔خوش نہی ہو تم اس شادی سے۔
ایسا کچھ نہی ہے میں بہت خوش ہوں۔
بس کچھ دیر سکون سے سونا چاہتی ہوں۔۔۔۔آپ جائیں میرے کمرے سے۔
میرے سر میں بہت درد ہے۔
اگر سر میں درد زیادہ ہے تو ڈاکٹر پاس چلتے ہیں۔
نہی۔۔۔کہی نہی جانا مجھے میں کچھ دیر آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاوں گی۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔میں دوبارہ آوں گا کچھ دیر تک اگر طبیعت ٹھیک نا ہوئی تو ہم ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔
وہ بے بس سا کمرے سے باہر آ گیا۔
اتنا عجیب رویہ کیوں ہے سارہ کا؟
دانیال کو اس کی حالت کچھ ٹھیک نہی لگی۔
وہ دس منٹ بعد دوبارہ کمرے میں آیا تو وہ سو رہی تھی۔
اسے پرسکون سوتے دیکھ کمرے سے باہر آ گیا۔
کامی یار کہاں تھے تم؟
کیسے بھائی ہو تم؟
گھر میں بڑے بھائی کی شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں اور تم غائب ہو۔
جی بھائی میں بس اکیڈمی تھا۔۔۔ٹیسٹ تھا تو جانا ضروری تھا۔
اب سب سنبھال لوں گا میں۔۔۔۔
ٹھیک ہے پہلے فریش ہو جاو۔۔۔کھانا کھاو اور پھر آ جاو۔
ٹھیک ہے بھائی بس دس منٹ میں آیا۔
وہ آگے بڑھا اور سجاوٹ والوں کو کچھ سمجھانے لگا۔
تب ہی فون بجنے لگا۔
اسفند کی کال تھی۔
اے بڈی کیسے ہو؟
اسفند کی پرجوش آواز فون میں گونجی۔
کیسا ہو سکتا ہوں یار۔۔۔۔؟
پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا دانی۔
کچھ فرق پڑا؟
نہی اسفی۔۔۔۔وہ اپنی ضد پر قائم ہے اور میں ہار مان چکا ہوں۔
نہی تم ہار نہی مان سکتے دانی۔
اگر وہ ضد پر ہے تو تم بھی اپنی ضد پر قائم رہو۔
مجھے لگتا ہے میں مزید یہ نہی کر پاوں گا۔۔۔۔میرا دل نہی مان رہا۔
کچھ نہی ہو گا یار دانی ہمت مت ہار۔
میں آ رہا ہوں کل شام تمہارے سامنے موجود ہو گا۔
اپنے فیصلے سے پیچھے نہی ہٹ سکتے تم۔
اب جو ہو رہا ہے اسے ہونے دو۔
ہمممم۔۔۔جلدی آ جاو میں انتظار کر رہا ہوں۔
اوکے انتظار کرو بڈی۔
اسفند نے کال کاٹ دی۔
دس بج رہے ہیں اور بھابی سو بھی گئی۔۔۔حبا کھانے کی ٹرے اٹھائے سارہ کے کمرے سے باہر آ رہی تھی۔
دانیال اور کامران ابھی ابھی فری ہوئے تھے سجاوٹ کا کام ختم کروا کر۔
کیا ہوا؟
دانیال کی نظر حبا پے پڑی۔
کھانا لے کر گئی تھی بھابھی کے لیے مگر وہ سو رہی ہیں۔
میں نے جگانے کی کوشش بھی کی مگر وہ اٹھی ہی نہیں۔
میں دیکھتا ہوں۔۔۔دانیال پریشانی سے کمرے میں گیا۔
سارہ سب سے بے فکر آرام سے سو رہی تھی۔
سارہ۔۔۔۔دانیال اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
اسے آواز دی مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نا ہوئی۔
ایسے تو کبھی نہی سوئی یہ پہلے کبھی۔۔۔کل بھی ایسے ہی سو رہی تھی۔
دانیال کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
اس نے وین چیک کی تو بہت مدھم چل رہی تھی۔
سارہ۔۔۔۔اس نے پھر سے آواز دی مگر سارہ ویسے ہی پڑی رہی۔
Ohhh shittttt......
یہ تو بے ہوش ہے۔
حبا۔۔۔۔کامی۔۔۔۔وہ پریشانی سے دونوں کو آواز دینے لگا۔
دونوں بھاگے بھاگے کمرے میں آئے۔
کامی گاڑی نکالو جلدی سے۔۔چابی میرے کمرے میں ہے۔
بھائی ہوا کیا ہے۔۔۔حبا پریشانی سے بولی۔
سارہ بے ہوش ہے اسے ہاسپٹل لیجانا پڑے گا۔
وہ سارہ کو بازوں میں اٹھائے باہر کی طرف بھاگا۔
کامی گاڑی باہر نکال چکا تھا۔
سارہ کو پچھلی سیٹ پر لٹا کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
بھائی ہم بھی ساتھ چلتے ہیں۔۔۔کامی نے آفر کی۔
نہی تم دونوں گھر جاو اور کسی کو بتانے کی ضرورت نہی ہے سب پریشان ہو جائیں گے۔
ٹھیک ہے بھائی۔۔۔۔وہ دونوں گھر واپس چلے گئے۔
Dont worry she is fine....
ڈاکٹر سارہ کی وین چیک کرتے ہوئے بولا۔
لیکن یہ بے ہوش کیوں ہے؟
یہ ابھی کچھ دیر میں پتہ چل جائے گا۔
ان کے کچھ ٹیسٹ کرنے ہو گے۔
ان کا کیا رشتہ ہے آپ سے؟
She is my wife....
ہممم دیکھئیے مسٹر دانیال ایسا دو صورتوں میں ہوتا ہے یا تو پیشنٹ کا نروس بریک ڈاون ہو یا پھر بلڈ پریشر لو ہو۔
اور ایک تیسری وجہ بھی ہے۔۔۔۔پیشنٹ ڈرگز لیتا ہو۔
کیا آپ کی مسز نشہ کرتی ہیں؟
Excuse me!
یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ؟
یہ ایسا کچھ نہی کرتیں۔
ہمممم کچھ دیر میں رپورٹ آ جائے تو آپ خود دیکھ لینا۔
ابھی یہ ہوش میں نہی آ سکتی۔۔۔آپ چاہیں تو انہیں گھر لے جا سکتے ہیں اور چاہیں تو ان کے ہوش میں آنے کا انتظار کر سکتے ہیں۔
آپ کیا کہہ رہے ہیں میری سمجھ میں کچھ نہی آ رہا۔
kindly explain.....
ٹھیک ہے۔۔۔۔
ایسا اکثر ان پیشنٹس کے ساتھ ہوتا ہے جو پریشانیوں میں گھرے ہو یا پھر یوں کہہ لیں ہر وقت ڈپریشن میں رہتے ہو۔
تو ایسے پیشنٹس خود کو اس ڈپریشن سے نجات دلانے کے لیے یا ڈرگز کا استعمال کرتے ہیں یا پھر ایسی میڈیسنز استعمال کرتے ہیں جن میں ڈرگز ہو۔
جیسے ہم عام زبان میں ایسی میڈیسنز کو نیند کی دوائی کہتے ہیں۔
ہو سکتا ہے یہ ڈرگز نا لیتی ہو مگر انہوں نے کوئی نیند کی میڈیسن ضرور کھائی ہے۔
آپ گھر جا کر ان کی الماری وغیرہ کی تلاشی ضرور کریں٫آپ کو ثبوت مل جائے گا۔
دانیال پریشانی سے سارہ کو دیکھ رہا تھا۔
i am sorry ani....
آپ سے کیا وعدہ ٹھیک سے نہی نبھا سکا میں۔
کچھ دیر بعد رپورٹ آئی تو دانیال فکر مندی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھا۔
دیکھا۔۔۔میں نے کہا تھا ناں آپ سے۔۔۔یہ رہا ثبوت۔
آپ کی مسز بہت عرصے سے ڈرگز والی میڈیسنز یوز کر رہی ہیں۔
اس کا کوئی حل؟
اس کا حل یہی ہے کہ انہیں پریشانیوں سے دور رکھا جائے اور ان کا بہت سارا خیال رکھا جائے۔
ایسے پیشنٹس تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔
آپ انہیں وقت دیں اور اس ڈپریشن سے باہر لائیں ورنہ بہت نقصان ہو سکتا ہے۔
کیسا نقصان؟
بہت کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔مثلاََ برین ہیمرج ہو سکتا ہے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کبھی ماں نا بن سکیں۔
اب آپ پر ہیں آپ کیسے انہیں زندگی کی طرف واپس لاتے ہیں۔
ہمممم۔۔۔۔۔تھینکس ڈاکٹر۔
میں انہیں گھر لے جانا چاہتا ہوں۔
Ok sure...
واپس گھر لا کر سارہ کو پھر سے بیڈ پر واپس لٹا دیا اور خود بھی وہی اس کے پاس لیٹ گیا۔
اب میں تمہیں خود سے مزید دور نہی جانے دوں گا۔
رات کے تین بجے سارہ کی آنکھ کھلی تو اس کا سر دانیال کے بازو پر تھا۔
وہ چونک کر پیچھے ہٹی اور سر تھام کر اٹھ بیٹھی۔
گلاس میں پانی ڈالا اور پی لیا۔
دانیال کی نظر سارہ پر پڑی تو اٹھ کر بیٹھ گیا۔
تمہیں بھوک لگی ہو گی۔۔۔۔میں کھانا لے کر آ رہا ہوں۔
نہی میں خود۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ سارہ کچھ بولتی دانیال کی نظروں نے اس خاموش رہنے پر مجبور کر دیا۔
وہ کھانا لے کر آیا اور اپنے ہاتھوں سے سارہ کو کھلایا۔
وہ آنسو بھی بہا رہی تھی کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ۔
آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟
کیوں میری عادتیں بیگاڑ رہے ہیں آپ؟
میں آپ سے جتنا دور جانے کی کوشش کرتی ہوں آپ میرے اتنے ہی زیادہ قریب آ جاتے ہیں۔
آپ مجھے اکیلا کیوں نہی چھوڑ دیتے؟؟؟
کیا کبھی دل دھڑکن سے جدا ہوا ہے؟
دانیال کے سوال پر سارہ دھنگ رہ گئی۔
نہی ناں؟؟؟
تو پھر تم کیوں خود کو مجھ سے دور کرنا چاہتی ہو سارہ؟
آخر کیوں؟؟؟؟
میرا قصور کیا ہے؟
کیا میں آج تک اپنی زمہ داریوں سے پیچھے ہٹا؟
تمہارے معاملے میں کبھی لاپرواہی کی؟
سارہ نے سر نفی میں ہلایا۔
تو پھر کیوں سارہ؟
کس بات کی سزا دے رہی ہو مجھے؟
روک کیوں نہی لیتی مجھے؟
ایک بار سارہ۔۔۔۔بس ایک بار۔۔۔مجھے روک کر تو دیکھو۔
میں تمہارے لیے سب چھوڑ دوں گا۔
تمہاری خوشی میں ہی میری خوشی ہے آخر تم سمجھ کیوں نہی لیتی؟
وہ سارہ کے ہاتھ تھامے اس کی آخری جواب کا انتظار کر رہا تھا سوچ رہا تھا کہ شاید اب اس کا دل پھگل جائے گا۔
مگر نہی وہ غلط تھا۔۔۔۔
سارہ نے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے۔
آپ یہاں سے چلے جائیں پلیز۔۔۔۔اور اب میرے کمرے میں مت آئیے گا۔
آپ کی نئی زندگی شروع ہونے والی ہے اپنی نئی زندگی کے آغاز کی تیاری کریں۔
تم بہت بے رحم ہو سارہ۔۔۔۔۔
میرے سر میں درد ہے پلیز مجھے میڈیسن لا دو گی؟
جی۔۔۔۔سارہ کمرے سے باہر جانے کے لیے اٹھی ہی تھی کہ دانیال نے اس کا بازو تھام لیا۔
باہر سے نہی۔۔۔۔باہر جانے کی کیا ضرورت ہے جب دوائی کمرے میں ہی موجود ہے۔
رکو میں لے کر کر آتا ہوں شاید تمہیں نہی پتہ ہو گا کہاں پڑی ہے۔
وہ آگے بڑھا اور سائیڈ ٹیبل کے دراز سے وہی میڈیسن نکالی جو سارہ نے کھائی تھی۔
اس میں سے چار گولیاں نکال کر منہ میں رکھیں اور پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔تو کیسی لگی آج کی قسط؟؟؟؟


4 comments:

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...