Wikipedia

Search results

Thursday, May 14, 2020

مسافر قسط نمبر_20


مسافر
قسط نمبر_20
از
خانزادی

بھائی یہ لیں مل گئی چابی۔۔۔حبا گھبرائی ہوئی پھولتے ہوئے سانس کو بحال کرتے ہوئے بولی اور چابی دانیال کی طرف بڑھائی۔
اس کی ضرورت نہی ہے اب۔
بھابی ٹھیک تو ہیں؟
حبا کمرے میں جانے ہی لگی تھی کہ دانیال نے اسے روک دیا۔
اسے کچھ دیر اکیلا چھوڑ دو۔
میرا مطلب ہے اسے آرام کی ضرورت ہے سفر سے تھک گئی ہے۔
ہممم اچھا ٹھیک ہے بھائی۔
آپ بھی تھک گئے ہو گے آپ بھی آرام کر لیں۔
ہاں میں جا ہی رہا تھا اپنے کمرے میں۔
ویسے بھائی مام اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں بھابی سے؟
i mean....
وہ تو پہلے کبھی ملی بھی نہی ایک دوسرے سے تو پھر اتنی نفرت۔
اس سوال کا جواب تو میں بھی جاننا چاہتا ہوں کہ آخر ایسا کیا ہے جو مام کا رویہ سارہ کے ساتھ اس قدر نفرت بھرا ہے۔
خیر اس بارے میں مام سے بات کرتا ہوں آج۔
ٹھیک ہے بھائی آپ جائیں اپنے کمرے میں مجھے بھی اسائنمنٹ بنانی ہے میں زرا کامی کا سر کھا لوں۔
ٹھیک ہے دانیال نے ایک نظر سارہ کے کمرے پر ڈالی اور پھیکی سی مسکراہٹ لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
رات کو کھانے کی میز پر سب موجود تھے۔
ڈیڈ مجھے آپ سے۔۔۔۔بلکہ آپ سب سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
دانیال کی آواز پر سب اس کی طرف متوجہ ہوئے سوائے سارہ کے وہ پلیٹ سامنے رکھنے بس اسی کو گھورنے میں مصروف تھی۔
ہاں کہو کیا کہنا چاہتے دادا جی نے بات شروع کی۔
دراصل بات یہ ہے کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔
دانیال کی نظریں سارہ پر ہی جمی تھیں اسی پل سارہ نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
ہاں بھئی ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے نکاح ہو چکا ہے شادی بھی کر دیتے ہیں۔
دانیال کے بابا مسکراتے ہوئے بولے۔
نہی ڈیڈ۔۔۔۔۔مجھے سارہ سے نہی کسی اور سے شادی کرنی ہے۔۔۔۔وہ سارہ پر جمی نظریں ہٹائے ڈیڈ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
اس رشتے کو نکاح تک محدود رکھنے میں بھلائی ہے۔
مجھے دوسری شادی کرنی ہے۔۔۔۔اب اس کی نظریں پھر سے سارہ کے چہرے پے آ رکیں جو نظریں جھکائے چپ چاپ بیٹھی تھی۔
اگر یہ مزاق ہے تو بہت ہی گھٹیا مزاق ہے دانی۔۔۔دادی جان نے اسے ٹوکا۔
نہی دادو یہ مزاق نہی حقیقت ہے۔
مجھے کوئی اور پسند ہے۔۔۔۔اب تک میں جو کچھ کر رہا تھا آپ سب کی خوشی کی خاطر ہی کر رہا تھا۔
میری اپنی زندگی بھی ہے٫کچھ خواہشات ہیں اور یہ فیصلہ میں سارہ کی مرضی سے کر رہا ہوں۔
اسے میرے فیصلے پر کوئی اعتراض نہی ہے۔
آپ لوگ اگر چاہیں تو سارہ سے خود پوچھ سکتے ہیں۔
سب سارہ کی طرف متوجہ ہوئے۔
بیٹا کیا یہ سچ ہے؟
تمہیں کوئی اعتراض نہی دانیال کے اس فیصلے پر؟
سارہ نے سب کو اپنی طرف متوجہ دیکھا تو اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہوا ایسا لگا جیسے سانس گلے میں ہی اٹک گیا ہو۔
ججججی۔۔۔۔جی بڑے پاپا مجھے کوئی اعتراض نہی۔
سارہ کے الفاظ اس کا ساتھ نہی دے پا رہے تھے۔
دانیال کی غصے سے بھری نگاہوں کی تپش اس کا چہرہ جھلسا رہی تھی۔
وہ تیزی سے وہاں سے اٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
یہ سب کیا ہے دانیال؟
ڈیڈ غصے سے چلائے۔
چاہے سارہ جو بھی کہے مجھے تم سے یہ امید ہرگز نہی تھی۔
وہ بچی ہے ابھی مگر تم تو میچور ہو۔
اسے سمجھانے کی بجائے اس کا ساتھ دے رہے ہو۔
ڈیڈ اب وہ بچی نہی ہے بیس سال کی ہے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق رکھتی ہے۔
جو بھی ہو ہم تمہیں یہ نا انصافی نہی کرنے دیں گے سارہ کے ساتھ۔۔۔۔دادی جان بھی غصے میں بولیں۔
مگر یہ میرے بیٹے کے ساتھ نا انصافی ہے۔۔۔زلیخا بیگم جو اب تک بے یقینی سے اس سارے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں چلا اٹھیں۔
دانی تم فکر مت کرو جیسا تم چاہو گے ویسا ہی ہو گا٫تمہاری ماں ہے تمہارے ساتھ۔
تھینکس مام۔۔۔وہ بے دلی سے مسکرا دیا۔
جو دل میں آتا ہے کرو مگر ہم میں سے کوئی بھی اس فیصلے میں تمہارا ساتھ نہی دے گا۔
دادا جی غصے سے بولے تو سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
چھوڑو ان سب کو تم فکر مت کرو۔
مجھے بتاو کون ہے وہ میں خود جاوں گی تمہارا پرپوزل لے کر۔
اس کی ضرورت نہی پڑے گی مام!
میرا پرپوزل ایکسیپٹ ہو چکا ہے آپ بس شادی کی تیاریاں کریں۔
میں آپ کی بات مان رہا اس لیے آپ کو بھی میری ایک بات ماننی پڑے گی۔
کیا؟
تم جو کہو گے میں مانوں گی٫میں آج بہت خوش ہوں۔
مام آپ کو سارہ کے ساتھ اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔۔۔
ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی۔
تمہاری خالہ کو یہ خوشخبری سنا کر آتی ہوں۔۔۔وہ خوشی خوشی وہاں سے چلی گئیں۔
دانیال اٹھ کر دادی کے کمرے میں چلا گیا۔
حسب توقع سب وہی موجود تھے۔
ڈیڈ آپ سب سمجھنے کی کوشش کریں۔
میں نے آج تک کسی بات کے لیے ضد نہی کی آپ سے۔
میری بات ماننے میں برائی ہی کیا ہے آخر؟
دوسری شادی کرنا کوئی گناہ تو نہی ہے۔
ٹھیک ہے اماں جان مان لیتے ہیں اس کی بات۔۔۔باقی اس کی اپنی زندگی ہے جو چاہے فیصلہ کر سکتا ہے۔
Thanks dad....
وہ وہاں سے سارہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔
وہ کھڑکی کے پاس کھڑی آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
قدموں کی آہٹ پر جلدی سے اپنے آنسو پونچھ دیے۔
خوش ہو تم؟
دانیال کی آواز پر اس نے سر ہاں میں ہلایا۔
دانیال نے غصے سے اسے اپنی طرف کھینچا۔
یہ بات میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول سکو گی؟
سارہ نے نظریں جھکا لیں۔
میں نے کہا ناں میں خوش ہوں۔۔۔۔
مگر تمہارے الفاظ تمہارا ساتھ کیوں نہی دے رہے؟
تمہاری آنکھیں تو کچھ اور ہی کہہ رہی ہیں سارہ۔
ایسا کچھ نہی ہے میں بہت خوش ہوں آپ کے اس فیصلے پر٫آپ نے میری بات مان کر میرا مان بڑھا دیا۔
جھوٹ،،،،،!
بلکل جھوٹ۔۔۔۔!
جھوٹ بول رہی ہو تم۔۔۔۔دانیال اسے چھوڑتے ہوئے پیچھے ہٹا۔
اپنی اس جھوٹی خوشی کی وجہ سے بہت پچھتانے والی ہو تم سارہ۔
وہ غصے میں کمرے سے باہر نکل گیا۔
میں پچھتانے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔مگر اپنے مرے ہوئے ماں باپ کی توہین برداشت کرنے کی ہمت نہی ہے میرے اندر۔
دانیال اسفی کا نمبر ڈائل کر رہا تھا مگر وہ کال پک نہی کر رہا تھا۔
آخر کار آدھے گھنٹے بعد اس نے خود کال کی۔
کب سے کال کر رہا ہوں کہاں بزی تھے تم؟
یار میں آفس تھا ابھی گھر پہنچا ہوں٫خیریت؟
ہاں خیریت ہی ہے٫میں اس ہفتے شادی کر رہا ہے تم پاکستان پہنچو جلدی۔
او بھائی کیا ہو گیا اتنی جلدی؟
بھابی مان گئیں؟
اور توں یہ بتا یہ ترکی ہے آنے میں دو دن تو لگیں گے مجھے۔
چھٹی لینی پڑے گی۔
جو بھی کرنا ہے جلدی کرو اور میں سارہ سے نہی مہوش سے شادی کر رہا ہوں۔
باقی تفصیل جب پاکستان آو گے تب ہی بتاوں گا۔
اسفند کے سر پر بم پھوڑتے ہوئے اس نے فون بند کر دیا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔





3 comments:

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...