Wikipedia

Search results

Wednesday, May 6, 2020

مسافر قسط نمبر_17


مسافر 
قسط نمبر_17
از
خانزادی

جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا!
اسفند بھی پریشان ہو چکا تھا۔
اب کیا کرو گے تم؟
کرنا کیا ہے؟
ظاہری سی بات ہے سارہ کو ڈھونڈوں گا۔
اتنے بڑے شہر میں کہاں ڈھونڈو گے اسے؟
یہ کسی فلم یا ڈرامے کا سین نہی چل رہا٫اسفی تپ گیا۔
آخر تم سمجھ کیوں نہی رہے یار؟
وہ تمہارے ساتھ نہی رہنا چاہتی،،،تم زبردستی اس رشتے کو نہی نبھا سکتے۔
بس کر دو یہ لڑائی اور چھوڑ دو اسے اس کے حال پر۔
نہی چھوڑ سکتا!
بیوی ہے وہ میری اور اگر وہ ضد پر قائم ہے تو وہ یہ بھول رہی ہے کہ میں اس کی سوچ سے بڑھ کر ضدی ہوں۔
وہ جہاں کہی بھی چھپ جائے میں اسے ڈھونڈ نکالوں گا۔
کیسے ڈھونڈ لو گے یار؟
اتنے بڑے شہر میں ایک انسان کو ڈھونڈنے ایسے ہے جیسے شہد کی مکھی کا چھتہ۔
what?
دانیال نے اسفی کی اس مثال پر اسے گھورا۔
مثال تو ڈھنگ کی دیا کرو۔
تم تو جانتے ہی ہو دانی میری اردو زرا کمزور ہے۔
میری بات مان پاکستان واپس چلا جا۔
یہاں تجھے کچھ حاصل نہی ہونے والا
دیکھ یار "عورت جب تک خود نا چاہے وہ کسی کو دل میں نہی بسا سکتی٫اس کے جسم تک زبردستی رسائی ممکن ہے مگر اس کے دل پر نہی"
اب ایسی بات بھی نہی ہے اسفی تم نے پڑھا نہی؟
وہ یہ سب اس لیے کر رہی ہے کیونکہ مام اسے پسند نہی کرتیں۔
اس نے لکھ دیا اور تو نے مان لیا!
ٹاپ قسم کے بے وقوف مرد ہو تم۔
"عورت اگر کسی کو دل سے اپنا لے تو اسے بیچ راہ تنہا نہی چھوڑتی بلکہ اپنی آخری سانس تک اس تعلق کو نبھاتی ہے"
سچ تو یہ ہے کہ وہ تمہیں دل سے قبول ہی نہی کر پائی اسی لیے اس نے نشانہ بنایا آنٹی کو اس نے تمہیں بے وقوف بنایا ہے کیونکہ وہ جانتی تھی تم اس کی یہ بات آسانی سے مان جاو گے۔
اور دیکھو!
تم مان بھی گئے۔
سمجھنے کی کوشش کر میرے بھائی۔۔۔۔۔
زبردستی مت کر اسے کچھ وقت دے اگر اسے واپس آنا ہوا تو ضرور آئے گی مگر زبردستی وہ کبھی نہی آئے گی۔
تو پھر ٹھیک ہے تم طلاق کے پیپرز تیار کرواو کسی وکیل سے بات کر کے اگر وہ زبردستی یہ تعلق نہی نبھا سکتی تو اس تعلق کا ختم ہو جانا ہی بہتر ہے۔
دانی یہ کیا کہہ رہے ہو؟
اسفند حیران رہ گیا دانیال کے جواب پر۔
اتنی جلدی اتنا بڑا فیصلہ نہی لے سکتے تم۔۔۔۔
اسے ایک آخری موقع دو۔
بس!
بہت مواقع دے چکا ہوں میں سارہ کو مگر اسے میرے خلوص پر یقین ہی نہی ہے۔
سہی کہہ رہے ہو تم٫اتنے بڑے شہر میں کہاں کہاں ڈھونڈو گا میں اسے۔
جب اسے اپنے رشتے کی قدر نہی تو میں پرواہ کیوں کروں۔۔۔۔
کل تک یہ کام فائینل کرو۔
یہ کام ہو جائے پھر میری ٹکٹ کنفرم کر دو۔
اب مزید یہاں رہ کر کسی امید میں نہی جینا چاہتا میں۔
مگر دانی؟
بس اسفی!
تمہیں ہماری دوستی کی قسم۔۔۔۔جو کہا ہے وہی کرو۔
As you wish....
اسفند بے بسی سے دونوں سرنڈر کرتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا۔
اسفند نے تانیہ کا نمبر ڈائل کیا۔
تانیہ تم سے ایک چھوٹا سا کام ہے۔۔۔۔کل تم مل سکتی ہو؟
اوکے۔۔۔۔کل تمہیں کچھ ڈاکومنٹس دوں گا وہ تمہیں سارہ کو میل کرنے ہیں۔
خدا حافظ
اب یہی ایک راستہ بچا ہے میرے پاس سارہ۔۔۔۔تم نے مجھے مجبور کر دیا یہ قدم اٹھانے پر۔
وہ انہی سوچو میں گم تھا کہ گھر سے کال آ گئی۔
جی مام۔۔۔۔
جی مام کے بچے کہاں ہو تم؟
مام گھر پے ہوں٫ڈونٹ وری۔
کیوں فکر نا کروں؟
ماں ہوں میں تمہاری۔۔۔۔کیوں کر رہے ہو یہ سب؟
چھوڑ دو اس لڑکی کا پیچھا اور واپس آ جاو۔
یہاں تمہاری فکر میں میری سانس اٹکی ہوئی ہے اور تم کہتے ہو کہ فکر نہ کروں۔
مام میں نے کہا ناں میں ٹھیک ہوں اب بس چھوٹی سی غلط فہمی ہو گئی تھی۔
سارہ کے کچھ رشتہ دار تھے ان کو میرے یہاں رکنے پر اعتراض تھا۔
بس یہی وجہ تھی جو پولیس لے گئی تھی مجھے لیکن اب میں گھر ہوں۔
آپ فکر نا کریں۔
دیکھو دانیال اس لڑکی نے تمہیں جیل کی ہوا بھی کھلا دی ہے اب اور کیا کیا دیکھنا باقی ہے۔
میری بات مان لو دفعہ کرو اسے اور واپس آ جاو۔
ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لڑکی کا رشتہ لاوں گی تمہارے لیے یا پھر اگر تمہیں کوئی اور پسند ہو تو بتا دینا۔
تم جس لڑکی سے کہو گے تمہاری شادی کروا دوں گی مگر سارہ کو چھوڑ دو۔
گھر والوں کے دباو میں مت آو میں ہوں تمہارے ساتھ۔
ٹھیک ہے مام میں دو دن بعد واپس آ رہا ہوں پھر جیسے آپ کہیں گی ویسا ہی ہو گا۔
تم سچ کہہ رہے ہو دانی؟
بیٹے کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ماں خوشی سے نڈھال ہو گئی۔
جی مام۔۔۔۔دانیال دبی دبی سی آواز میں بولا۔
ٹھیک ہے خیریت سے آو۔۔۔۔خدا حافظ
اب دیکھنا کیسے ان سب کے ہوش ٹھکانے لگاتی میں٫زلیخا بیگم دل ہی دل میں پلاننگ کرنے لگیں۔
رشتے والی کو فون کرتی ہوں۔۔۔۔فون پر کسی کا نمبر ڈائل کیا اور باتیں کرنے میں مصروف ہو گئیں۔
________________________________________

دو دن بعد۔۔۔
سارہ ممانی کے گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں سر کھڑکی سے لگائے آسمان پر ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کچھ تلاش کر رہی ہو۔
لیپ ٹاپ بیڈ پر آن چھوڑ کر وہ یہاں آ رکی۔
ای_میل کی وجہ سے مدھم سی ٹون بجی تو اس کا تسلسل ٹوٹا اور بے بس سی لیپ ٹاپ گود میں رکھے چیک کرنے لگی۔
سارہ کہاں ہو تم؟
یہ میل تانیہ کی تھی۔
یہی ہوں کوئی کام تھا کیا؟
سارہ نے جواب دیا۔
یہی تو نہی ہو تم۔۔۔۔۔میں گھر گئی تھی مگر تم گھر پے ہی نہی تھی۔
کیوں کوئی ضروری کام تھا تانیہ؟
ہاں وہ کچھ ڈاکومنٹس تھے جو اسفی نے مجھے دیے تھے کہہ رہا تھا کہ تمہیں دے دوں مگر تم گھر ہی نہی تھی۔پکچرز تمہیں واٹس ایپ کر دی تھیں اور ڈاکومنٹس انباکس میں ڈال آئی تھی جب تم گھر جاو یاد سے دیکھ لینا۔
اسفی نے؟؟؟؟
سارہ سوچ میں پڑ گئی۔
ہاں اسفی نے۔۔۔۔اچھا سنو ایک بات بتاو یہ دانیال کون ہے؟؟؟ انویلپ پر اس کا نام لکھا تھا ڈائیوورس پیپر تھے شاید۔۔۔۔
ڈائیوورس پیپر؟؟؟
تم نے ٹھیک سے دیکھا تھا ناں؟
کہی تمہیں کوئی غلط فہمی تو نہی ہوئی تانیہ؟
ڈائیوورس کا نام سن کر سارہ کے ہاتھ پیر کانپنے لگے۔
ہاں یار میں نے اچھی طرح دیکھا تھا اور تم واٹس ایپ چیک کر لو ناں اور ہاں اسفی آج صبح پاکستان چلا گیا۔
کہہ رہا تھا اب واپس نہی آئے گا کبھی بھی۔
بہت غلط کر رہا ہے تمہارے ساتھ ان حالات میں جب تمہیں اس کی ضرورت تھی۔
وہ کہہ رہا تھا تم سے رابطہ نہی ہو پا رہا۔
نمبر کیوں بند کیا ہوا ہے تم نے؟
سارہ کی آنکھوں سے خود بخود آنسو بہنے لگے۔وہ تانیہ کے میسیج کا جواب ہی نہ دے سکی۔
نہہییی ایسا نہی ہو سکتا،،،،آپ ایسا نہی کر سکتے میرے ساتھ۔
میں نے تو صرف یہاں سے جانے کو کہا تھا آپ کو مگر آپ نے مجھے طلاق۔۔۔۔نہی سارہ نے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
واٹس ایپ دیکھتی ہوں ہو سکتا ہے تانیہ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔
جیسے ہی واٹس ایپ آن کیا اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی انویلپ پر ڈائیوورس لکھا تھا اور دانیال کا نام بھی۔
آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ؟
آپ تو کہتے تھے کچھ بھی ہو جائے تمہارا ساتھ نہی چھوڑوں گا۔
مجھے گھر جانا ہو گا میں یہاں نہی رہ سکتی۔۔۔اس نے تیزی سے اپنا بیگ پیک کیا اور ہینڈ بیگ کندھے سے لٹکائے باہر چل دی۔
باہر عنہب ٹی وی لاونج کے صوفے پر گرا ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھا۔
اے بے بی گرل کہاں جا رہی ہو؟
عنہب کی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی۔
سارہ کی نظر میز پر پڑی شراب کی بوتل پے پڑی۔
وہ مممانی کہاں ہیں؟
سارہ ڈرتی ڈرتی بولی۔
مممجھے اپنے گھر جانا ہے ابھی۔۔۔۔
کیا کہا اپنے گھر جانا چاہتی ہو اپنے اس عاشق کے پاس۔۔۔۔عنہب لڑکھڑاتا ہوا سارہ کی طرف بڑھا۔
ایسا کیا ہے اس میں جو مجھ میں نہی ہے؟
جی۔۔۔۔سارہ کے دماغ نے خطرے کی گھنٹی بجائی۔
ممانی کہاں ہیں۔۔۔۔وہ کچن کی طرف جانے ہی لگی تھی کہ عنہب نے اسے بازو سے کھینچ کر اپنی طرف کھینچا۔
یہ کیا کر رہے ہیں آپ عنہب بھائی؟
سارہ اپنا بازو واپس کھینچنے لگی مگر ناکام رہی۔
ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہی بے بی گرل۔۔۔۔مگر فکر مت کرو وہ سب کروں گا جو تم چاہو گی۔
اس نے بے باقی سے آنکھ دبائی۔
مممانی جان۔۔۔۔سارہ چلانے لگی۔
ششششششش۔۔۔۔۔مام گھر پے نہی ہیں۔۔۔۔
ڈونٹ وری بے بی گرل تمہیں بور نہی ہونے دوں گا۔
Come On....
وہ سارہ کو کھینچتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
سارہ بے بسی میں اس کے ساتھ کھینچتی چلی گئی۔
آج یہ حجاب بھی اتار ہی دو آج بہت اچھی طرح تمہاری خوبصورتی کا جائزہ لوں گا میں وہ سارہ کو بیڈ پر دھکیلتے ہوئے خود اس پر جھک گیا۔
نہی۔۔۔۔یہ گناہ مت کریں عنہب بھائی۔۔۔وہ چلا رہی تھی مگر وہ اس کی ایک نہ سن رہا تھا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔۔

Follow my blog

8 comments:

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...