Wikipedia

Search results

Monday, May 18, 2020

مسافر قسط نمبر_21


مسافر
قسط نمبر_21
از
خانزادی

سارہ میں تھک چکا ہوں تمہیں سمجھا سمجھا کر مگر تم مجھ پر اعتبار ہی نہی کرتی۔
تو ٹھیک ہے اگر یہی تمہاری مرضی ہے تو جیسے تمہاری مرضی۔
اب میں وہی کروں گا جو تم چاہو گی۔
دانیال بے بسی سے اس کے کمرے پر نظر دوڑائے تیزی سے وہاں سے چل دیا۔
سارہ فجر کی نماز پڑھ کر گارڈن میں واک کے لیے چل دی۔
وہ اپنے ہی دھیان میں مگن چلتی جا رہی تھی کہ اچانک کسی سے ٹکرائی اور گرتے گرتے بچی۔
دانیال اسے گرنے سے بچا چکا تھا۔
ابھی سے قدم لڑکھڑانے لگے تمہارے؟
ابھی تو شروات ہے سارہ۔
ضروری نہی کہ ہر بار میں تمہیں بچانے آوں گا۔
اب اپنے پاوں پے چلنا سیکھنا شروع کر دو،آگے بہت کام آئے گا۔
کیونکہ اب میں کسی اور کا سہارا بننے والا ہوں۔
سارہ گم سم سی چپ چاپ دانیال کی باتوں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
مہوش سے تو مل چکی ہو تم،
اسی ہفتے شادی کر رہا ہوں مہوش سے!
اپنی مرضی سے نہی بس تمہاری ضد کی وجہ سے۔۔۔۔۔
آپ جانتے تو ہیں سب یہ میری ضد نہی ہے بلکہ سمجھوتہ ہے۔
سارہ کو چپ توڑنی ہی پڑی۔
سمجھوتہ؟
"عورت ہر چیز پر سمجھوتہ کر سکتی ہے مگر اپنے شوہر کے معاملے میں وہ بہت کمزور ہوتی ہے اس کے معاملے میں وہ کوئی سمجھوتہ نہی چاہتی"
"عورت ہر چیز بانٹ سکتی مگر اپنا شوہر نہی"
لیکن کوئی فائدہ نہی تمہیں سمجھانے کا کیونکہ تمہاری نظر میں میری کوئی اہمیت نہی ہے اگر تمہاری زندگی میں کسی کی اہمیت ہے تو وہ ہے تمہاری ضد۔۔۔
جب تک تمہیں ان باتوں کی سمجھ آئے گی تم سب کچھ ہار چکی ہو گی۔
تب تمہارے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہی بچے گا۔
تم اپنی ضد پر قائم رہو اور میں تمہاری ضد نبھانے کی کوشش کروں گا۔
کوشش کروں گا کہ میرے قدم تمہاری طرح لڑکھڑائیں ناں۔
وہ اپنی بات مکمل کرتے ہی وہاں سے چلا گیا۔
کیسے سمجھاوں آپ کو یہ میری ضد نہی ہے بڑی ماما کی ضد ہے اور میں ماں اور بیٹے میں جدائی کا سبب نہی بننا چاہتی۔
وہ آنسو پونچھتی ہوئی واک کرنے میں مصروف ہو گئی۔
سارے گھر میں شور سا پھیلا ہوا تھا کہی جانے کی تیاری میں تھے سب۔۔۔ظہر کی نماز پڑھ کر سارہ کمرے سے باہر آئی تو سب تیار تھے کہی جانے کے لیے۔
دادو آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں سب؟
وہ ہچکچاتے ہوئے بولی۔
تمہارے شوہر کی منگنی پر!
دادو نے کھرا جواب سنایا۔
اب اگر یہی تمہاری مرضی ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
اگر ساتھ چلنا چاہتی ہو تو آ جاو۔
نہی آپ لوگ جائیں میں یہی ٹھیک ہوں۔
وہ اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔
ابھی کمرے میں واپس آئی ہی تھی کہ دروازہ ناک ہوا اور دانیال کمرے میں داخل ہوا۔
کیسا لگ رہا ہوں؟
وہ وائٹ شلوار قمیض پر ڈارک براون واسکٹ پہنے تیار سارہ کا ظبط آمانے کو تیار تھا۔
اااچھے لگ رہے ہیں۔۔۔۔وہ مختصر جواب دے کر کمرے سے باہر جانے ہی لگی تھی کہ دانیال نے اسے بازو سے کھیچ کر اپنے قریب کیا۔
اگر اچھا لگ رہا ہوں تو مجھ سے دور کیوں بھاگ رہی ہو؟
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولو کہ تم بہت خوش ہو۔
سارہ نے ظبط سے آنکھیں زور سے بند کیں اور مسکرا کر دانیال کی طرف دیکھا۔
میں بہت خوش ہوں۔۔۔۔
دانیال کے ہاتھ کی گرفت اس کے بازو پر ڈھیلی پڑی اور اس کی آنکھوں میں نفرت ابھرنے لگی۔
مگر اگلے ہی پل وہ مسکرا دیا۔
میں بھی بہت خوش ہوں آج بہت خوش۔۔۔۔۔
اپنے درد کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ کمرے سے باہر چل دیا۔
سب گھر سے چلے گئے تو سارہ نے ملازمہ کو ایک پیپر دیا۔
مجھے یہ میڈیسن منگوا دیں۔
جی میڈم میں ابھی کسی کو بھیج کر منگوا دیتی ہوں۔
کچھ دیر بعد ملازمہ نے اس کے کمرے کا دروازہ ناک کیا اور میڈیسن دے کر چلی گئی۔
سارہ نے ایک گولی نکالی اور پانی کے ساتھ نگل لی۔
یہ کوئی عام دوائی نہی تھی نیند کی گولی تھی باقی اس نے سنبھال کر دراز میں چھپا دیں۔
وہ تھک چکی تھی اور کچھ دیر آرام چاہتی تھی۔
کمرے کی لائیٹس آف کی اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔
سارہ کی آنکھ کھلی تو کمرے میں ہر طرف اندھیرا تھا۔
اس نے جیسے ہی فون اٹھانے کے لیے سائیڈ ٹیبل کی طرف ہاتھ بڑھایا کسی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
سارہ نے ایک زور دار چیخ مارنے کی کوشش کی مگر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس چیخ کو دبا دیا گیا۔
فون کی روشنی جلی اور سارہ نے سکھ کا سانس لیا۔
وہ دانیال تھا ایک ہاتھ میں فون تھامے اور دوسرا ہاتھ سارہ کے ہونٹوں پر رکھے اس کی طرف جھکے ہوئے۔
آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔
سارہ نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی مگر دانیال نے اس کی یہ کوشش ناکام کر دی۔
اتنی گہری نیند میں سو رہی تھی تم کہ میری موجودگی کا احساس ہی نہی ہوا تمہیں۔۔۔کب سے تمہارے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔
وہ سارہ کے چہرے پر آئے بال کان کے پیچھے سمیٹتے ہوئے بولا۔
اور اتنا اندھیرا کیوں کمرے میں؟
وہ بول رہا تھا مگر سارہ اس کے دل کی دھڑکن تک محسوس کر رہی تھی۔
اتنی قربت پر اس کا چہرہ پسینے سے تر ہونے لگا۔
آپ یہ کیا۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ سارہ کچھ اور بولتی دانیال نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کر دیا۔
شششش۔۔۔۔آج میں بولوں گا اور تم سنو گی۔
وہ فون کی ٹارچ لائٹ بند کرتے ہوئے سارہ کے ہونٹوں پر جھک گیا۔
سارہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہی تھی اور بچنے کی ساری امیدیں دم توڑ چکی تھیں اس نے اپنا آپ دانیال کو سونپ دیا۔
سارہ پڑھ کر صوفے پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔
یہ کیسا امتحان ہے میرے اللہ۔۔۔۔میں جتنا ان سے دور جانے کی کوشش کرتی ہوں یہ میرے اتنے ہی زیادہ قریب آ جاتے ہیں۔
دانیال کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر سارہ پر پڑی۔
وہ صوفے پر بیٹھی سر گھٹنوں پے گرائے آنسو بہا رہی تھی۔
وہ مسکراتے ہوئے اس کے پاس آ بیٹھا۔
کیا ہوا سارہ رو کیوں رہی ہو؟
سارہ نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
آپ نے جو کیا وہ سب سہی نہی ہے۔
کیا سہی نہی ہے سارہ؟
میرا تمہارے پاس آنا٫تمہیں چھونا سب غلط نہی ہے۔۔۔۔۔بلکہ میرا حق ہے اور جتنا حق میرا تم پر ہے اتنا ہی حق مہوش۔۔۔۔باقی تم خود سمجھدار ہو۔
مجھے سمجھانے کی ضرورت نہی پڑے گی۔
وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ کو سوچ کے سمندر میں دھکیل کر وہ وہاں سے جا چکا تھا۔
Ohhh shitt.....
اتنا بے وقوف کیسے ہو سکتا ہوں میں؟
اتنی بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے۔۔۔یہ سب ایسے نہی ہونا چاہیے تھا۔
میں خود پر کنٹرول نہی کر سکا۔۔۔اپنے کمرے میں آتے ہی دانیال احساس شرمندگی میں سر تھامے بیٹھ گیا۔
نہی۔۔کچھ غلط نہی کیا میں نے سارہ بیوی ہے میری اور حق رکھتا ہوں میں اس پر۔۔۔۔لیکن اس کی مرضی کے بغیر ایسا قدم نہی اٹھانا چاہیے تھا مجھے۔
گیا تو تھا اسے اپنی اور مہوش کی پکچرز دکھانے اور یہ سب ہو گیا۔
خیر۔۔۔۔۔کوئی بات نہی جو بھی ہوتا ہے ہمارے اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے۔
شاید میری قربت سارہ کو مجھے خود سے دور جانے سے روک دے اور اسے احساس ہو جائے کہ میاں بیوی کا رشتہ بس نام کا نہی ہوتا احساس جڑتے ہیں ایک دوسرے سے۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد سارہ کمرے میں آئی ہی تھی کہ حبا وہاں آ گئی۔
بھابی جلدی تیار ہو جائیں ہمیں شاپنگ پر جانا ہے۔
شاپنگ پر؟
جی بھابی شادی کی شاپنگ پر۔۔۔۔بھائی نے کہا ہے آپ بھی ساتھ چلیں۔
مگر میں کیسے۔۔۔۔۔
حبا تم تم جاو جاو تیار ہو کر گاڑی میں بیٹھو ہم آ رہے ہیں۔
جی بھائی۔۔۔۔حبا مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
سارہ نظریں چراتی ہوئی کمرے سے باہر جانے ہی لگی تھی کہ دانیال کی آواز پر رک گئی۔
لگتا ہے تمہیں جلن ہو رہی ہے مہوش سے اور تم خوش نہی لگ رہی اس شادی سے۔
ایسا کچھ نہی ہے۔۔۔۔وہ دانیال کی طرف دیکھے بنا بولی۔
تو پھر ٹھیک ہے اگر ایسا کچھ نہی ہے تو ثابت کرو۔
میں گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں جلدی آ جانا۔۔۔پانچ منٹ سے زیادہ انتظار نہی کروں گا۔
ok...i am coming....
سارہ غصے سے الماری کی طرف بڑھی اپنی شال اوڑھی اور ہینڈ بیگ اٹھائے کمرے سے باہر چل دی۔
دانیال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔وہ بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
جیسے ہی شاپنگ مال میں داخل ہوئے سارہ کی نظریں آج بھی اس برائیڈل ڈریس پر جم سی گئیں۔
بھابی چلیں۔۔۔۔حبا کی آواز پر وہ چونک گئی۔
یہ تو برائیڈل ڈریسز ہیں سارے ہمیں پارٹی ڈریسز چاہیے۔
ہممم۔۔۔۔سارہ مسکرا دی۔
ہاں چلو چلتے ہیں۔
وہ دونوں آگے چلی گئیں جبکہ دانیال وہی فون کان سے لگائے کسی سے باتیں کرنے میں مصروف کھڑا رہا۔
ٹھیک دو گھنٹے بعد وہ دونوں ڈھیر سارے شاپنگ بیگز اٹھائے واپس آئیں۔
اتنی دیر لگا دی؟
میں کب سے انتظار کر رہا ہوں۔
بھائی اب تو آپ کو عادت ڈال لینی چاہیے کیونکہ مہوش شاپنگ کی شوقین ہے اور مجھے امید ہے کہ ہفتے میں چار دن تو آپ کو شاپنگ مالز میں ہی گزارنے پڑیں گے۔
Ofcource.....
میں تیار ہوں۔۔۔اب اتنا پیار کرنے والی بیوی کی بات کوئی پاگل شوہر ہی ہو گا جو جھٹلائے گا۔
لاو یہ شاپنک بیگز مجھے دو اور باہر انتظار کرو میں گاڑی لے کر آتا ہوں۔
اس نے حبا کے ہاتھ سے بیگز تھام لیے مگر سارہ کے بیگز اٹھانے کے لیے جگہ ہی نہی تھی۔
I will manage.....
نہی بھابی آپ ایسا کریں بھائی کے ساتھ چلی جائیں میں باہر انتظار کرتی ہوں آپ دونوں کا۔
دانیال وہاں سے چل دیا اور مجبورا سارہ کو اس کے پیچھے چلنا پڑا۔
پوری سیٹ پر تو شاپنگ بیگز بھر چکے ہیں تم دونوں پیچھے نہی بیٹھ سکتی۔
تم فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جاو۔۔۔
سارہ چپ چاپ دانیال کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
حبا کو پک کرتے ہوئے وہ گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
بھائی ویٹ۔ویٹ۔۔۔۔یہ روڈ پر جو پارلر ہے وہاں گاڑی روک دیں۔
پارلر کے لیے بکنک کروانی تو یاد ہی نہی رہی۔۔۔
اوکے جاو۔۔۔۔دانیال نے پارلر کے باہر گاڑی پارک کر دی۔
میں بس پانچ منٹ میں آئی۔۔۔۔
سارہ۔۔۔۔۔
جی۔۔۔۔دانیال کی آواز پر سارہ ایک دم چونک اٹھی۔
سارہ ابھی بھی وقت ہے سوچ لو۔۔۔وہ سارہ کا ہاتھ تھامے بولا۔
سارہ نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
میں کوئی بھی فیصلہ بنا سوچے نہی کرتی۔
ہمممم ٹھیک ہے اب دوبارہ تم سے نہی پوچھوں گا آج ایک آخری موقع تھا تمہارے لیے جو تم نے گنوا دیا۔
اب آنے والی مشکلات کے لیے مجھے زمہ دار مت ٹہرانا۔
ہو گئی بکنگ۔۔۔۔چلیں بھائی۔
حبا آئی تو دانیال نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔

________________________________________

کیسی لگی آج کی قسط؟








3 comments:

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...