Wikipedia

Search results

Thursday, May 28, 2020

مسافر قسط نمبر_23


مسافر
قسط نمبر_23
از
خانزادی

دانیال۔۔۔۔۔یہ کیا کر دیا آپ نے یہ میڈیسن۔۔۔۔؟
کیا کر دیا میں نے سارہ؟
یہ سر درد کی دوائی ہے ناں؟
وہ انجان بنتے ہوئے بولا۔
نہی یہ سر درد کی دوائی نہی تھی بلکہ نیند کی گولیاں تھیں۔
نیند کی گولیاں!
اس کا مطلب اب میں مرنے والا ہوں؟
نہی۔۔۔۔اللہ نا کرے۔
میں آپ کو کچھ نہی ہونے دوں گی۔
وہ ابھی اتنا ہی بولی تھی کہ دانیال سر تھامے بیڈ پے گر گیا۔
سارہ کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔
نہی۔۔۔۔دانیال آنکھیں کھولیں پلیز۔
میں ابھی کامران کو بلاتی ہوں۔
وہ جانے ہی لگی تھی کہ دانیال نے اس کا بازو تھام لیا اور تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
نہی تم کہی نہی جاو گی۔۔۔۔
آج جو ہو گا دیکھا جائے گا۔۔۔ویسے تم بھی تو کھاتی رہتی ہو یہ گولی تو جب تمہیں کچھ نہی ہوا تو مجھے کیوں ہو گا؟
میں تو بس ایک کھاتی ہوں روز۔۔۔۔اپنی غلطی اور دانیال کی غصے بھری نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو سارہ شرمندگی سے نظریں جھکا گئی۔
اور تمہارے خیال میں روز ایک کھانے سے اس کا کوئی نقصان نہی ہوتا؟
یہ سب ہم بعد میں دیکھ لیں گے ناں ابھی آپ میرے ساتھ ہاسپٹل چلیں ورنہ آپ کو کچھ۔۔۔۔
کچھ نہی ہو گا مجھے!
سارہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی دانیال نے اسے بولنے سے روک دیا اور ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔
چاروں گولیاں اس کے ہاتھ میں ہی تھیں۔
سارہ کی جان میں جان آئی۔
آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔
بلکل ویسے ہی جیسے تم نے مجھے ڈرا دیا آج۔۔۔سارہ تم جانتی ہو تمہاری اس غلطی کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟
آج تمہیں ہاسپٹل لے کر گیا تھا میں یہ سمجھ کر کہ تم بے ہوش ہو۔
مگر وہاں جا کر جو حقیت سامنے آئی مجھے بہت دکھ ہوا۔
کب سے چل رہا ہے یہ سب؟
کیا پوچھ سکتا ہوں میں؟
جب سے ماما کی دیتھ ہوئی۔۔۔سارہ شرمندگی سے بولی۔
ماما کی دیتھ کے بعد آنی مجھے پاکستان بھیجنے کے لیے فورس کرنا شروع کر دیا۔
دن بدن میں ڈپریشن میں جانے لگی۔۔۔آخر کار مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔
میں سکون چاہتی تھی۔۔۔دور بھاگنا چاہتی تھی پریشانیوں سے اور مجھے یہی واحد حل ملا۔
جب جب سٹریس میں ہوتی ہوں یہ ٹیبلیٹ کھا کر کر سکون محسوس ہوتا ہے۔
چند گھنٹوں کے لیے ہی سہی مگر میں سٹریس کو ہرانے میں کامیاب رہتی ہوں۔
انجام کی پرواہ کیے بغیر تم نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا سارہ؟
تم جانتی ہو اس کا انجام؟
میں بتاتا ہوں۔۔۔۔اس کا انجام یہ ہو سکتا ہے کہ شاید تم کبھی ماں نا بن سکو گی یا پھر کچھ اور جو اس سے بھی خطرناک ہے برین ہیمبرج۔
اگر تمہیں اپنی پرواہ نہی تو کم ازکم خود سے جڑے رشتوں کا ہی خیال کر لو۔
کبھی سوچا ہے میرا کیا بنے گا؟
مگر نہی تمہیں کسی کی پرواہ نہی تمہیں بس اپنے سکون کی پرواہ ہے۔
دراصل یہ ڈپریشن تمہارا اپنا بنایا ہوا ہے۔۔۔۔تم خوش رہنا ہی نہی چاہتی سارہ۔۔۔
ابھی بھی وقت ہے ایک آخری موقع دے رہا ہوں تمہں٫روک لو مجھے۔
میں ابھی کہ ابھی یہ سب روک دوں گا۔
وہ سارہ کے جواب کا منتظر تھا مگر جب سارہ نے کوئی جواب نہی دیا تو کمرے سے باہر چل دیا۔
مگر پھر رک کر پلٹا۔
کل مہوش سے نکاح ہے میرا۔۔۔۔آنا ضرور۔
سارہ نے ظبط سے آنکھیں بند کیں اور آنکھوں میں بھرتے پانی کو روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔
اب رونا کس بات پر؟
یہ راستہ تم نے خود چنا ہے اپنے لیے۔۔۔یہ ضمیر کی آواز تھی۔
اب جو ہونے جا رہا ہے بھگتنے کے لیے تیار ہو جاو۔
اگلی صبح گھر میں مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی۔
سارہ اپنے کمرے سے باہر ہی نہی آئی۔
حبا اس کے لیے ناشتہ کمرے میں ہی لے آئی۔
بھابی آپ کمرے سے باہر کیوں نہی آ رہی؟
دادو بار بار آپ کا پوچھ رہی ہیں۔
حبا میں کیسے آ سکتی ہوں۔۔۔باہر اتنے زیادہ مہمان ہیں اور میں کسی کو بھی نہی جانتی۔
ہممم ٹھیک ہے مگر ہمیں کچھ دیر تک پارلر جانا ہے۔
آپ کو پھر تو جانا ہی ہو گا۔
میرا جانا ضروری نہی ہے حبا،،،،
کیوں ضروری نہی ہے بھابی؟
میں ہم دونوں کی بکنگ کروا چکی ہوں۔
آپ جلدی سے ناشتہ کر کے تیار ہو جائیں میں آ رہی ہوں آپ کو لینے۔
سارہ نے نا چاہتے ہوئے بھی ناشتہ ختم کیا اور جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
دروازہ ناک ہوا تو وہ دروازے کی طرف پلٹی ہی تھی کہ نظر دانیال پے پڑی۔
اس کے چہرے اور ہاتھوں پر کچھ لگا تھا۔
ارے بھائی آپ یہاں۔۔۔۔وہ سارہ کو دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک حبا وہاں آ گئی۔
ہلدی کی رسم چل رہی تھی اور آپ اٹھ کر آ گئے۔
اور بھابی آپ تیار ہیں؟
ہممم سارہ نے سر ہلایا۔
میں بیگ لے کر آ رہی ہوں۔
سارہ الماری کی طرف بڑھی اپنی شال نکالنے کے لیے مگر جیسے ہی الماری بند کر کے واپس پلٹی دانیال اس کے پیچھے کھڑا تھا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے سارہ کا چہرہ تھام لیا اور بے بسی سے اسے دیکھنے لگا۔
پھر اچانک بے بسی کی جگہ غصے نے لے لی۔۔۔اس نے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے اور بنا کچھ بولے کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ نے سکھ کا سانس لیا مگر جیسے ہی اس کی نظر شیشے پے پڑی حیران رہ گئی۔
دانیال کے ہاتھوں پے لگی ہلدی اس کے چہرے پر بھی لگ گئی۔
وہ تیزی سے واش روم گئی اور چہرہ دھو کر باہر آ گئی۔
حبا اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی۔۔۔وہ شال لپیٹ کر چہرہ چھپائے گاڑی میں بیٹھ گئی۔
کامران ان دونوں کو پارلر چھوڑ آیا۔
واپسی پر سارہ بہت اداس تھی۔
زندگی میں پہلی بار پارلر آئی ہوں میں حبا۔
And it was bad experience....
حبا مسکرا دی۔
Dont worry bhabi
آہستہ آہستہ عادت ہو جائے گی۔
نہی مجھے نہی ڈالنی یہ عادت۔۔سارہ نا چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔
پورا دن ضائع ہو گیا۔
اور پورا دن ضائع ہونے کے بعد نتیجہ یہ نکلا ہے کہ۔۔۔
Now your are looking so pretty 
گھر جا کر آپ کی نظر اتاروں گی۔
لیکن میں ڈوپٹہ ایسے کندھے پے نہی رکھ سکتی حبا۔۔۔مجھے عادت نہی ہے۔
کچھ نہی ہو گا بھابھی۔
نکاح تو کب کا ہو گیا ہو گا٫پانچ بجے کا ٹائم تھا اب نو بج رہے ہیں۔
اب تو مہندی کا فنکشن شروع ہو گیا ہو گا۔
نکاح کے نام پھر سے سارہ کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔
گیراج میں سناٹا چھا رہا تھا سب مہمان گارڈن میں جا چکے تھے۔
سارہ نے پھر بھی شال چہرے کے گرد لپیٹ لی۔
بھابھی ادھر جانا ہے حبا نے اسے ٹوکا مگر وہ اندر کی طرف بڑھ گئی۔
حبا بھی ڈھیٹ تھی۔۔۔اس نے سارہ کی شال اتار کر رکھ دی اور اسے زبردستی گارڈن میں سجے ہال کی طرف لے گئی۔
وہ اس وقت لائٹ براون اور گولڈن لہنگے میں بال کھلے چھوڑے ماتھے پے بندیا لگائے سوفٹ میک کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
وہ زندگی میں پہلی بار ایسے تیار ہوئی تھی اور اتنے سارے لوگوں کے درمیان جانا میں اسے ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔
وہ جیسے ہی اینٹرس پے پہنچی حبا کو اس کی کزن لے گئی اور وہ تنہا وہاں کھڑی رہ گئی۔
سب کی نظریں سٹیج پے بیٹھی جوڑی پے جمی تھیں کسی نے اس کی طرف نہی دیکھا۔
جیسے ہی اس کی نظر دانیال اور مہوش پے پڑی اس کا ظبط جواب دے گیا اور وہ آنکھوں میں آنسو لیے وہاں سے بھاگ آئی۔
دانیال اور مہوش کے چہرے پر مسکراہٹ اور دونوں کا محبت بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنا سارہ برداشت نا کر سکی۔
کمرے میں آئی اور دروازہ لاک کر دیا۔
یہ سب جتنا آسان لگ رہا تھا اتنا آسان تھا نہی۔۔۔
کئی گھنٹے یونہی آنسو بہاتے گزر گئے۔
وہ ڈریسنگ کی طرف بڑھی۔
بندیا اتارنے ہی لگی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز پر واپس پلٹی۔
دروازے پر دانیال تھا کھانے کی ٹرے اٹھائے۔
اس نے ٹرے میز پر رکھی اور سارہ کی طرف بڑھا۔
اس کا بازو تھام کر صوفے تک لایا۔
سارہ نے آج اپنا ہاتھ واپس نہی کھینچا۔
دانیال اسے کھانا کھلا رہا تھا اور وہ چپ چاپ کھا رہی تھی۔
یہ آخری بار تھا۔۔۔اب سے تمہیں اپنا خیال خود رکھنا پڑے گا۔
سارہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
اسی میں تمہاری خوشی تھی ناں؟
سارہ نے سر نفی میں ہلایا۔
چلتا ہوں۔۔۔۔بہت تھک گیا ہوں۔
وہ جیسے ہی جانے کے لیے اٹھا سارہ اس کا بازو تھام چکی تھی۔
دانیال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اس نے پلٹ کر سارہ کی طرف دیکھا۔
واپس صوفے پر بیٹھا اور دونوں ہاتھوں میں سارہ کا چہرہ تھام کر اس کے ماتھے پر ہونٹ رکھے اور تیزی سے باہر چل دیا۔
دانیال پلیز رک جائیں۔۔۔میں غلط تھی۔
بہت بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے۔۔۔۔وہ رو رہی تھی اپنی غلطی پے پچھتا رہی تھی مگر اب سننے والا کوئی نہی تھا۔

________________________________________

کیسی لگی آج کی ایپیسوڈ۔؟
اگلی قسط آخری ہو گی۔۔۔۔



5 comments:

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...