Wikipedia

Search results

Tuesday, May 12, 2020

مسافر قسط نمبر_19


مسافر
قسط نمبر_19
از
خانزادی

ٹھیک دو بجے اسفند گیٹ پر موجود تھا اور ہارن پے ہارن دے رہا تھا۔
دانیال نے بیگز گاڑی میں رکھے اور سارہ کو ساتھ لیے باہر چل دیا۔
دروازہ اچھی طرح لاک کیا اور گاڑی کی طرف بڑھا۔
یہ اسفند ہے۔۔۔دانیال نے سارہ سے اسفند تعارف کروایا۔
اسلام و علیکم بھابھی۔۔۔۔اسفی نے گال پر ہاتھ رکھا ڈر تھا کہی پھر سے تھپڑ نا پڑ جائے۔
وعلیکم اسلام۔۔۔۔سارہ نے مختصر جواب دیا۔
اسفی نے شکر ادا کیا۔
دانیال نے سارہ کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا۔
Ooooo what a romantic moment....
اسفی نے داد دی۔
دانیال نے اس کی داد سن لی اور بدلے میں اسفی کو گھورا۔
سارہ گاڑی میں بیٹھ گئی تو دانیال نے سکھ کا سانس لیا اور فرنٹ سیٹ پر اسفی کے ساتھ والی خالی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
اسفی نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔
تمہیں نہی لگتا تمہیں بھابی کے ساتھ بیٹھنا چاہیے تھا؟
اسفی کے سوال پر دانیال کے اسے چونک کر دیکھا کیونکہ اس کی نظریں فون پر تھیں۔
ہاں لگتا تو یہی ہے مگر کیا کروں پھر اپنے اکلوتے دوست کے تنہا ہونے کا خیال آ گیا۔
سوچا کیوں ناں دوست کی ساتھ والی خالی سیٹ میں ہی بھر دوں کیونکہ یہ سیٹ تم نے خالی ہی رکھنی ہے۔
دانیال کے جواب پر اسفند نے قہقہ لگایا۔
فکر مت کرو بہت جلد یہ سیٹ بھرنے والی ہے۔
Really?
دانیال کو اس کی بات مزاق لگی۔
ہاں ہے ایک۔۔۔۔پھر کبھی بتاوں گا٫اسفی نے آنکھ دبائی۔
ہممم ٹھیک ہے مسٹر چھپے رستم۔۔۔۔دانیال بھی مسکرا دیا۔
پاکستان کب آنا ہے واپس تم نے؟
یا پھر یہی بسنے کے ارادے ہیں؟
نہی جب سے وہ ملی ہے ناں تب سے یہاں دل نہی لگ رہا۔
ہمم مطلب میری ہونے والی بھابی پاکستانی ہے۔۔۔واہ کیا کہنے جناب کے۔
دانیال نے خوب داد دی۔
ہاں بس یہ بزنس وائینڈ اپ کر لوں پھر آ رہا ہوں پاکستان۔
دو ماہ ہیں کنٹریکٹ ختم ہونے میں پھر واپسی کی تیاریاں۔
اچھی پلاننگ ہے۔۔۔دانیال بیک مرر سے سارہ پر نظر ڈالتے ہوئے بولا۔
سارہ سو رہی تھی۔
دانیال کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
تم کب کر رہے ہو شادی؟
اسفی کے سوال پر وہ چونک گیا۔
شادی کا فلحال کوئی پلان نہی ہے میرا بڑی مشکل سے مسز گھر جانے کے لیے تیار ہوئی ہے پھر سے واپس بھگانے کا کوئی ارادہ نہی ہے میرا۔
مطلب نکاح شدہ رہنا چاہتے ہو؟
افففف میں ترس گیا ہوں تمہیں شادی شدہ بولنے کے لیے پتہ نہی کب وہ وقت آئے گا جب میں فخر سے یہ کہہ سکوں گا کہ میرا دوست شادی شدہ ہے۔
باز نہ آنا تم۔۔۔۔دانیال نے اس کے سر پر ہلکی سی تھپکی دی۔
تو اور کیا میرا دل نہی کرتا تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہو جو مجھے انکل انکل بلائیں؟
اسفی۔۔۔۔دانیال نے اسے ٹوکا۔
سن لے گی۔۔۔۔اس نے سارہ کی موجودگی کا احساس دلایا۔
وہ سو رہی ہے۔۔۔اسفی نے سر ناں میں ہلایا۔
تم تو ابھی سے ڈرنے لگے۔
اسفی کی بات پر دانیال نے اسے گھورا۔
اس کی نیند خراب نہ ہو اس لیے کہہ رہا ہوں۔۔اس نے بات پلٹ دی۔
Oooooo.....
جورو کا غلام۔۔۔۔۔اسفی نے داد دی۔
تم پاگل ہو بس۔۔۔۔دانیال اس کے جملے پر ہنس دیا۔
ہاں ہاں اپنی دفعہ میں پاگل۔
بیٹے تمہارا بھی پتہ چل جائے گا جب تمہیں لگام ڈالنے والی تمہاری زندگی میں آئے گی۔
سہی کہہ رہے ہو ویسے مجھے ابھی سے ڈر لگ رہا ہے پتہ نہی وہ میرا پرپوزل بھی قبول کرے گی یا نہی؟
دونوں نے ایک ساتھ قہقہ لگایا۔
دیکھ لو تم ابھی سے ڈرنے لگے۔۔۔دانیال نے بھی پورا بدلہ لیا۔
ہاں بھئی ڈرنا پڑتا ہے اسی میں ہم مرد ذات کی بھلائی ہے۔
لیں جناب آ گیا ائیرپورٹ۔۔۔۔اسفی نے گاڑی کو بریک لگائی۔
تم لوگ چلو اندر میں گاڑی پارک کر کے آتا ہوں۔
نہی اٹس اوکے۔۔۔۔ابھی فلائٹ میں دو گھنٹے ہیں۔
تم کیا کرو گے یہاں بیٹھ کر۔
جا کر آرام کرو۔
Thanks for yor time....
دانیال گاڑی سے بیگز باہر نکالتے ہوئے بولا۔
اسفی بھی اس کی مدد کرنے لگا۔
مطلب تم چاہتے ہو کہ میں کباب میں ہڈی نا بنوں....
دانیال بس مسکرا دیا۔
سارہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ گاڑی سے باہر آ گئی۔
میں چاہتا ہوں تم گھر جا کر آرام کرو تھک گئے ہو گے بہت۔
گھر پہنچ کر مجھے میسیج ضرور کر دینا۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔دانیال نے اسے گلے لگایا اور سارہ کو ساتھ لیے اندر کی طرف چل دیا۔
بس کر پگلے رلائے گا کیا۔۔۔اسفی آنکھوں سے آنسو پونچھنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے دونوں کو ایک ساتھ جاتے دیکھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔
جیسے ہی دونوں اپنی سیٹ پر بیٹھے اسفی کا میسیج موصول ہوا۔
دانیال نے اسے رپلائے دیا اور فون بند کر دیا۔
لمبے سفر کے بعد آخر وہ دونوں پاکستان پہنچ ہی گئے۔
دوپہر کے چار بجے وہ گھر کے باہر تھے۔
دانیال نے بیگز گاڑی سے باہر نکالے پیمنٹ کی اور ڈور بیل بجائی۔
گیٹ کیپر نے گیٹ کھولا۔
سلام سر۔۔۔۔
وعلیکم اسلام کیسے ہو عمران؟
میں ٹھیک ہوں آپ کیسے دانی بھائی۔
میں بھی ٹھیک ہوں الحمدللہ۔۔۔۔یہ بیگز اندر رکھو دیں پلیز۔۔۔
دانیال مسکراتے ہوئے گھر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا جبکہ سارہ وہی کھڑی تھی۔
دانیال واپس پلٹا۔
سارہ؟
جی۔۔۔۔سارہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
چلیں اندر۔۔۔۔؟
جی سارہ بھی اس کے ساتھ قدم سے قدم ملاتی اندر چل دی۔
ٹی وی لاونج میں سب موجود تھے۔
دونوں کو اندر آتے دیکھ کر سب کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔
دانی بھائی۔۔۔۔سب سے پہلے کامران آگے بڑھا۔
آپ مجھے انفارم کر دیتے میں ائیرپورٹ آ جاتا رسیو کرنے۔
دونوں بھائی گلے ملے۔
اگر تم ائیر پورٹ آ جاتے تو یہ خوشی جو اب نظر آ رہی ہے سب کے چہروں پر یہ دیکھنے کو نہی ملتی۔
میں نے سوچا کیوں ناں سرپرائز دوں۔
سارہ دادو کے ساتھ لپٹ کر آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
دانیال سب سے مل کر اس کی طرف بڑھا ہی تھا کہ کچن سے زلیخا بیگم باہر آ گئیں۔
 آ گیا میرا بیٹا واپس۔۔وہ تیزی سے بیٹے کی طرف بڑھیں۔
کیسی ہیں آپ مام؟
دانیال ماں کا ماتھا چومتے ہوئے بولا۔
تمہیں دیکھ لیا اب ٹھیک ہوں میں۔۔۔وہ ابھی اتنا ہی بولی تھیں کہ نظر سارہ پر پڑی۔
یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟
ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے مام ابھی نہی۔
وہ ماں کو کچن کی طرف لے گیا۔
بہت بھوک لگی ہے کھانے کو ملے گا کچھ؟
ہاں تم فریش ہو جاو کھانا لگاتی ہوں میں وہ خوشی خوشی بولیں۔
دانیال کچن سے باہر نکل گیا۔
بھابی پلیز سنبھالیں خود کو ہم سب ہیں ناں آپ کے ساتھ حبا اسے تسلی دے رہی تھی۔
ہاں بیٹا ہم سب ہیں تمہارے ساتھ دادا جی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
حبا۔۔۔۔دانیال نے حبا کا نام پکارا۔
جی بھائی۔۔۔حبا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
تم سارہ کو اس کے کمرے میں لے جاو۔
جی بھائی۔۔۔۔حبا اسے ساتھ لیے اس کے کمرے کی طرف بڑھی۔
ابھی آج ہی سیٹنگ کروائی ہے میں نے آپ کے کمرے کی مگر مجھے نہی پتہ تھا آپ واپس آ رہی ہیں۔
آپ فریش ہو جائیں میں آپ کے کپڑے نکال دیتی ہوں۔
حبا الماری کی طرف بڑھی۔
آپ یہ سارے ڈریسز یہی چھوڑ گئی تھیں لیکن اب آپ کو یہ پہننے ہو گے۔
سارہ مسکرا دی۔
حبا نے اس کی طرف گرے ڈریس بڑھایا۔
سارہ فریش ہونے چلی گئی۔
سارہ فریش ہو کر باہر آئی تو حبا کمرے سے جا چکی تھی۔
وہ شیشے کے سامنے آ رکی اور بال ڈرائی کرنے لگی۔
تب ہی دانیال کمرے میں آیا سفید شلوار قمیض پہے وہ جاذب دید لگ رہا تھا۔
سارہ پہلی مرتبہ اسے شلوار قمیض پہنے دیکھ رہی تھی۔
وہ نظر لگ جانے کی حد تک ہینڈسم لگ رہا تھا۔
سارہ نے نظریں دوسری طرف پھیر لیں۔
اتنی گرمی ہے اور تم نے اے سی بھی آن نہی کیا۔
دانیال بول رہا تھا مگر وہ سن ہی کہاں رہی تھی وہ تو بس اسے دیکھنے میں مصروف تھی۔
وہ اے سی آن کرتے ہوئے کھڑکیاں بند کرنے لگ گیا۔
جب تم تیار ہو جاو تو بتا دینا حبا کھانا دے جائے گی کمرے میں۔
وہ مجھے بھوک نہی ہے۔۔۔۔سارہ نے بے تکا بہانا بنایا۔
بھوک ہو یا نہ ہو کھانا تو کھانا پڑے گا۔۔۔وہ جواب دے کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
حبا تم ایسا کرو سارہ کو کھانا دے آو کمرے میں۔
جی بھائی میں جاتی ہوں۔۔۔حبا کچن کی طرف بڑھ گئی۔
دادا جی اور دادی جان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی دانیال کی سارہ کے لیے فکر مندی دیکھ کر۔
شکر ہے خدا کا۔۔دادی جان نے خدا کا شکر ادا کیا۔
دانیال اسفی کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
ہاں ہاں خیریت سے پہنچ گیا ہوں۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے جواب دے رہا تھا جبکہ دوسری طرف اسفی کچھ اور ہی بول رہا تھا۔
جاتے ہی بھول گئے دوست کو۔۔۔۔کب سے انتظار کر رہا تھا تمہاری کال کا۔
اب فرصت ملی ہے جناب کو۔۔۔
ایسی بات نہی ہے یار بس ابھی ابھی گھر پہنچا ہوں۔
وہ ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ کھانے کی ٹرے واپس لا رہی حبا پر نظر پڑی۔
میں کھانا کھا کر بات کرتا ہوں وہ کال بند کرتے ہوئے حبا کی طرف بڑھا۔
کیا ہوا؟
بھابی کہہ رہی ہیں کہ انہیں بھوک نہی ہے۔
لاو مجھے دو۔
دانیال کھانے کی ٹرے اٹھائے سارہ کے کمرے کی طرف بڑھا۔
سارہ بال باندھ رہی تھی۔
منع کیا تھا میں نے مگر تم سنتی ہی کہاں ہو۔
وہ کھانے کی ٹرے میز پر رکھتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا دروازہ لاک کیا اور سارہ کا بازو تھامے صوفے تک لے آیا۔
بیٹھو یہاں اور ختم کرو ورنہ میں زبردستی کھلاوں گا۔
جی۔۔۔۔سارہ چپ چاپ پلاو کھانے لگ گئی۔
یہ کباب بھی کھاو۔۔۔اس نے چکن چپلی کباب والی پلیٹ سارہ کی طرف بڑھائی۔
سارہ نے پلیٹ تھام لی۔
دروازہ ناک ہوا۔
سارہ نےگھبرا کر دانیال کی طرف دیکھا۔
تم کھاو میں دیکھتا ہوں۔
وہ دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھولا تو باہر حبا تھی کھانے کی ٹرے اٹھائے۔
آپ یہاں ہیں تو میں نے سوچا آپ کا کھانا بھی یہی لے آوں۔
ہاں اچھا کیا لیکن مام نے کچھ کہا تو نہی؟
نہی تو۔۔۔۔مام نے کیا کہنا ہے،،،حبا جھوٹ بول رہی تھی۔
آو تم بھی بیٹھو ہمارے ساتھ کھانا کھاو۔
نہی بھائی میں نے ابھی لنچ کیا ہے آپ لوگ کھا لیں۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔وہ کھانے کی ٹرے لیے کمرے میں آ گیا اور خود بھی کھانا کھانے لگا۔
سارہ نے نا چاہتے ہوئے بھی پلاو کی پوری پلیٹ ختم کی اور برتن اٹھائے کمرے سے باہر نکل گئی۔
دانیال مسکرا دیا۔
پیار سے بات ماننے والی نہی یہ۔۔۔۔
سارہ کو برتن اٹھائے کمرے سے باہر آتے دیکھا تو حبا تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔
بھابی آپ جائیں کمرے میں یہ برتن مجھے دیں۔
میں لے جاوں گی کچن میں۔۔۔
حبا کو ڈر تھا کہی وہ کچن میں نہ چلی جائے کیونکہ وہاں زلیخا بیگم تھیں۔
آپ جائیں اپنے کمرے میں آرام کریں۔
سارہ مسکر کر اپنے کمرے کی طرف پلٹ گئی۔
ملازمہ بن جاو اس کی۔۔۔۔جیسا ہی حبا کچن میں داخل ہوئی زلیخا بیگم غصے سے چلائیں۔
مام کیا کہہ رہی ہیں آپ؟
بڑی بہو ہیں وہ اس گھر کی اور میری بھابی ہیں۔
ان کے کام کرنے سے مجھے خوشی ملتی ہے۔
آپ ایسا تو نہ بولیں۔
ہاں ہاں میں ہی غلط لگتی ہوں تم سب کو اور تمہارا بھائی کہاں ہے وہ بیگم کے کمرے سے باہر آیا یا نہی۔
بھائی کھانا کھا رہے ہیں مام۔۔۔۔اور آپ یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں میرے ساتھ؟
چپ رہو تم!
اس لڑکی نے پتہ نہی کیا جادو کر دیا ہے میرے بیٹے پر۔۔۔۔آتے ہی اس کے کمرے میں گھس کر بیٹھ گیا ہے۔
یہاں ماں انتظار کر رہی ہے اور اسے ماں کی زرا فکر نہی۔
مام پلیز۔۔۔۔۔آپ ٹپیکل ساس مت بنیں۔
سارہ بھابھی کو ایکسیٹ کر لیں۔
ہرگز نہی!
میں اس لڑکی کو ہرگز قبول نہی کروں گی۔
حبا کی نظر کچن کے دروازے پر کھڑی سارہ پے پڑی۔
بھابی آپ یہاں؟
میں لے آتی برتن آپ نے کیوں زخمت کی۔
حبا نے اس کے ہاتھ سے برتن لے کر ٹیبل پر رکھے۔
اسلام و علیکم بڑی ماما۔
جیسا آپ سمجھ رہی ہیں ویسا کچھ نہی ہے۔
یہ معصومیت مجھے مت دکھاو۔۔۔۔میں تمہاری میٹھی میٹھی باتوں کے جال میں نہی پھنسنے والی۔
بڑی ماما۔۔۔۔۔
بس!
وہ غصے سے سارہ کی طرف بڑھی۔
آخر کس بات کا بدلہ لے رہی ہو تم مجھ سے؟
وہ سارہ کو کندھے سے جھنجوڑتی ہوئی بولیں۔
مام۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتی دانیال وہاں آ گیا۔
سارہ کو چھوڑیں مام۔۔۔۔۔
وہ نظریں جھکائے بولا۔
لو چھوڑ دیا۔۔۔۔جاو لے جاو اسے اپنے کمرے میں اور بیٹھ جاو اس کے قدموں میں غلام بن کر۔
سارہ اپنے کمرے میں جاو۔۔۔۔۔دانیال کی آواز پر سارہ چونک کر اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔
حبا بھی اس کے پیچھے چل دی۔
آپ سے اس بے رحمی کی ہرگز امید نہی تھی مجھے۔۔۔۔۔دانیال افسردگی سے بولا۔
مجھے بھی اپنے بیٹے سے ایک غیر لڑکی کے لیے ماں سے بدزبانی کرنے کی ہرگز امید نہی تھی۔
وہ غصے سے چلائیں۔
وہ کوئی غیر نہی میری بیوی ہے۔۔۔۔۔
آپ سے اونچی آواز میں بات کی اس کے لیے معزرت مام مگر آپ کا رویہ سہی نہی ہے سارہ کے ساتھ۔
آخر اس کی غلطی کیا ہے؟
وہ آپ کی وجہ سے یہاں آنا نہی چاہتی تھی۔۔۔۔میں زبردستی لایا ہوں اسے پاکستان۔
اگر آپ کا رویہ ایسا ہی رہا اس کے ساتھ تو وہ پھر سے واپس چلی جائے گی اور اگر اس بار وہ واپس گئی تو دوبارہ کبھی یہاں نہی آئے گی۔
تم اس لڑکی کے لیے ماں کو دھمکا رہے ہو؟
نہی مام میں بس آپ کو سمجھا رہا ہوں۔
بھائی۔۔۔۔سارہ بھابھی نے کمرہ لاک کر لیا ہے۔۔۔حبا پریشان سی وہاں آئی۔
تم دوسری چابی لے کر آو کمرے کی۔۔۔وہ حبا سے بول کر سارہ کے کمرے کی طرف بھاگا۔
سارہ دروازہ کھولو۔۔۔۔۔وہ دروازہ بجا رہا تھا مگر سارہ دروازے کے ساتھ بیٹھی سر گھٹنوں پے گرائے آنسو بہا رہی تھی۔
Open the door
سارہ۔۔۔۔دانیال مسلسل دروازہ بجا رہا تھا۔
وہ کھڑکی کی طرف بڑھا دو تین پنچ مارے تو کھڑکی کھل گئی۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو سارہ دروازے کے ساتھ بیٹھی تھی۔
سارہ۔۔۔۔وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور اس کے دونوں بازو تھام کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔
سارہ کے بہتے آنسو پونچھے اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
میں نے بولا تھا کہ میں ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔
کیا تمہیں مجھ پر یقین نہی ہے سارہ؟
مجھے ڈر لگتا ہے بڑی ماما کی نفرت سے۔۔۔
ادھر آو بیٹھو یہاں۔۔۔۔دانیال اسے بیڈ تک لے آیا۔
وہ مجھے کبھی پسند نہی کریں گی۔
وہ جو کہتی ہیں آپ ان کی بات مان لیں ورنہ مجھے واپس بھیج دیں۔
سارہ۔۔۔۔دانیال بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا۔
تو کیا میں ان کی مرضی سے دوسری شادی کر لوں؟
جی۔۔۔۔۔یہی بہتر ہے۔
تو پھر ٹھیک ہے اگر تمہیں لگتا ہے ایسا کرنے سے سب ٹھیک ہو جائے گا تو میں آج ہی بات کرتا ہوں مام سے۔
وہ غصے میں کمرے سے باہر نکل گیا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔۔کیسی لگی آج کی قسط کمنٹ ضرور کریں۔



2 comments:

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...