Wikipedia

Search results

Friday, May 8, 2020

مسافر قسط نمبر_18


مسافر
قسط نمبر_18
از
خانزادی

یا اللہ رحم۔۔۔میری عزت کی حفاظت فرما اے رب۔
سارہ نے صدق دل سے اللہ سے مدد مانگی۔
اچانک اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پے رکھے گلدان پر پڑی۔
آنکھوں میں امید کی ایک کرن جاگی۔
اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور وہ گلدان اٹھا کر پوری قوت سے عنہب کے سر پر مارا۔
وہ کراہتے ہوئے سر تھام کر بیٹھ گیا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور سر سے خون بہتا چلا گیا۔
سارہ تیزی سے اٹھی اور باہر کی طرف بھاگی۔
اس نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور لگیج گھسیٹتی ہوئی تیزی سے گھر سے باہر نکل گئی۔
عنہب کا خون سے لتھ چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا اس کا دل چاہا کہ اس کی مدد کر دے مگر نہی اس وقت انسانیت سے بڑھ کر اس کی عزت تھی۔
ایک ٹیکسی اس کے سامنے آ رکی۔
اس نے اپنا بیگ ڈگی میں رکھا اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔
گھر پہنچ کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔
گھر میں داخل ہوئی تو پورا گھر اندھیرے میں ڈوب رہا تھا۔
موبائل کی ٹارچ آن کی اور ساری لائیٹس جلاتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی۔
پانی کا گلاس بھرا اور ایک ہی سانس میں پی گئی۔
یہ کیا ہو گیا مجھ سے؟
اگر عنہب کو کچھ ہو گیا تو پولیس مجھے نہی چھوڑے گی۔
کیا کروں کچھ سمجھ نہی آ رہا۔
یہ سب میری ہی غلطی تھی دانیال سہی کہہ رہے تھے مجھے عنہب پر بھروسہ ہی نہی کرنا چاہیے تھا۔
میری ہی غلطی تھی جو میں نے ان پے بھروسہ کیا۔
ممانی تو سب جانتی تھیں اپنے بیٹے کی عادات سے واقف تھیں تو پھر وہ عنہب کی موجودگی میں مجھے اکیلی کیسے چھوڑ کر جا سکتی تھیں۔
یہ سب ان دونوں کی سازش تھی۔۔۔۔
وہ آنسو بہاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔
فون پر دانیال کا نمبر ڈائل کر رہی تھی وہ جانتی تھی کہ اب ان کے درمیان کوئی رشتہ نہی مگر پھر بھی دل میں امید تھی۔
نمبر بند تھا۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر کمرے کی لائٹ آن کی اور کمرے سے باہر جانے کے لیے پلٹی مگر اس کے قدم رک گئے وہ تیزی سے واپس پلٹی۔
یہ اس کی نظر کا دھوکا نہی تھا وہ سچ میں یہی تھا۔
دانیال۔۔۔۔۔سارہ تیزی سے بھاگتی ہوئی اس سے لپٹ کر آنسو بہانے لگی۔
دانیال وہی اپنی جگہ پے کھڑا رہا اس نے دونوں ہاتھ سارہ کی طرف بڑھائے اور اسے خود سے الگ کر دیا۔
مجھے نہی لگتا اب ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی کی گنجائیش ہے۔
دانیال منہ کھڑکی کی طرف موڑے بولا۔
چاہے ہمارے درمیان کوئی گنجائیش باقی ہو یا نہ ہو اس بات سے کوئی فرق نہی پڑتا مجھے۔
آپ یہاں ہیں میرے ساتھ یہی کافی ہے میرے لیے۔
سارہ کی بات پر دانیال اس کی طرف پلٹا۔
اب یہ ساری باتیں بے مقصد ہیں۔۔۔۔جیسے ہی دانیال کی نظر سارہ کے پھٹے بازو پر پڑی اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی۔
یہ کیسے ہوا؟
سارہ نے ہاتھ لگا کر چھوا تو اسے یاد آیا کہ شاید عنہب نے بازو کھینچا تو اس وقت یہ شرٹ پھٹ گئی ہو گی۔
یہ خراش کیسے آئی تمہیں؟
دانیال اس کا بازو ہاتھ میں تھامے جائزہ لے رہا تھا اور صرف کپڑا ہی نہی پھٹا عنہب کی درندگی کے نشان بھی سارہ کے بازو پر عیاں تھے۔
سارہ کچھ پوچھا ہے تم سے؟
دانیال کی گرجدار آواز پر سارہ چونک گئی اور آنسو بہانے لگی۔
جب مجھے تانیہ کی میل رسیو ہوئی تو میں گھر آنے کے لیے تیار ہو کر کمرے سے باہر آئی تو ممانی گھر نہی تھیں۔
عنہب نشے میں تھا اور اس نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش۔۔۔۔
بس۔۔۔۔۔دانیال نے سارہ کو مزید بولنے سے روک دیا۔
میں اسے زندہ نہی چھوڑوں گا۔۔۔مجھے ایڈریس دو اس گھر کا۔
نہی۔۔۔۔۔رک جائیں آپ وہ پہلے ہی آدھا مر چکا ہے میں اس کے سر میں گلدان مار کر اپنی عزت بچا کر وہاں سے بھاگی ہوں۔
اس کے سر سے بہت خون نکل رہا تھا اگر وہ مر گیا تو پولیس آپ کو نہی چھوڑے گی۔
مجھے اپنی پرواہ نہی ہے سارہ تم مجھے لوکیشن دو جلدی۔۔۔۔۔
دانیال باہر کی طرف بڑھا اور سارہ کا ہینڈ بیگ ٹٹولنے لگا آخر کار اسے ممانی کے گھر کا ایڈریس لکھا مل گیا۔
اس کی جو آخری بچی سانسیں ہیں وہ میں نکالوں گا۔
تم دروازہ بند کر لو اور جب تک میں نہ کہوں دروازہ مت کھولنا۔
آپ ایسا مت کریں۔۔۔۔مجھے اکیلی چھوڑ کر مت جائیں۔
میرے پاس بس آپ بچے ہیں اور کوئی نہی ہے میرا٫سارہ دانیال کا بازو مظبوطی سے تھامے کھڑی تھی۔
میں واپس آوں گا سارہ۔۔۔۔میرا انتظار کرنا۔
دانیال اپنا بازو کھینچتے ہوئے تیزی سے باہر نکل گیا۔
جیسے ہی وہ مطلوبہ ایڈریس پر پہنچا وہاں سے ایمبولینس جا رہی تھی۔
جس کا مطلب یہ تھا کہ عنہب کو ہاسپٹل لے جایا جا رہا تھا۔
دانیال نے گاڑی گھر کی طرف واپس موڑنے کو بولا۔
قسمت اچھی تھی آج میرے ہاتھوں مرنے سے بچ گیا مگر آخر کب تک!
اگر زندہ بچ بھی گئے تم تو میرے ہاتھوں سے ہی مرو گے میرا وعدہ ہے تم سے۔
گھر پہنچ کر دروازہ کھول کر اندر گیا تو سارہ وہی بیٹھی تھی ٹی وی لاونج کے صوفے پر۔
آج بچ گیا میرے ہاتھ سے مگر میرا وعدہ ہے تم سے سارہ تمہاری طرف بڑھے اس کے ہر ایک غلط قدم کا بدلہ چکانا پڑے گا اسے۔
اس کی ہمت کیسے ہوئی میری بیوی پر غلط نگاہ ڈالنے کی۔
بیوی کے نام پر سارہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
آپ تو مجھے طل۔۔۔۔۔
خبردار!
اس سے پہلے کہ سارہ پورے الفاظ بولتی دانیال نے اسے وارن کیا۔
بے وقوف لڑکی!
سوچ بھی کیسے لیا تم نے کہ میں ایسا کروں گا؟
دانیال دروازے کی طرف بڑھا اور اھر ادھر نظر دوڑائی آخر اسے وہ انویلپ مل گیا۔
وہ انویلپ اٹھائے سارہ کی طرف بڑھا۔
کھولو اسے۔۔۔
سارہ نا سمجھی سے اس انویلپ کو کھولنے لگی۔
جیسے ہی اس نے وہ انویلپ کھولا تو اس کے اندر کچھ نہی تھا۔
اس کا مطلب۔۔۔۔
ہاں اس کا مطلب وہی ہے جو تم سمجی ہو۔
جھوٹ بولا تھا میں نے تمہیں واپس بلانے کے لیے۔
سچ تو یہ ہے کہ میں ایسا تصور بھی نہی کر سکتا۔
مگر تم نے جو غلطی کی اس کے لیے کبھی معاف نہی کروں گا تمہیں۔
کیا یہ بات سہی ہے کہ تم بڑی ماما کو تو خوش رکھ سکتی ہو مگر اپنے شوہر کے جزبات کا کوئی احساس نہی؟
وہ ماں ہیں آپ کی ان کا زیادہ حق ہے آپ پر۔
ہاں سہی ہے۔۔۔۔دانیال نے افسردگی سے جواب دیا۔
بے شک ماں باپ کا زیادہ حق ہوتا ہے اپنی اولاد پر لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہی کہ بیوی کا شوہر پر کوئی حق نہی۔
مگر بڑی ماما مجھے پسند نہی کرتیں۔۔۔۔سارہ شرمندہ سی بولی۔
اس بات سے مجھے فرق نہی پڑتا سارہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں کیا یہ کافی نہی تمہارے لیے؟
لیکن وہ ماما اور بابا کے حوالے سے بہت بدگمان ہیں۔
مجھ سے ان کے خلاف کوئی بات برداشت نہی ہوتی اس لیے میں نے یہ قدم اٹھایا تھا تا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں۔
ان کی ہر بات ماننا آپ کا فرض ہے۔
اچھا۔۔۔۔۔؟
اگر ایسا ہے تو وہ مجھے فورس کر رہی ہیں کہ میں تمہیں چھوڑ کر دوسری شادی کر لوں۔
تو کیا مجھے ان کی ہر بات مان لوں؟
سارہ نے سر نفی میں ہلایا۔
آپ ان کی دوسری بات تو مان ہی سکتے ہیں جس میں ان کی خوشی ہے۔
مطلب میں تمہیں بھی ساتھ رکھوں اور دوسری شادی بھی کر لوں؟
جی اس میں برائی ہی کیا ہے؟
سارہ کے اس جواب پر دانیال کا دل چاہا اپنا سر دیوار میں دے مارے۔
حد ہوتی ہے بے وقوفی کی بھی٫یہ ایسے نہی مانے گی اسے سبق سکھانا ہی پڑے گا۔
تو پھر ٹھیک ہے اگر تمہیں کوئی اعتراض نہی تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
پاکستان چلتے ہیں اور مام سے کہہ دیتے ہیں وہ میرے لیے لڑکی تلاش کریں۔
بات ختم!
یہ دنیا کی پہلی بے وقوف لڑکی ہے جو اپنے شوہر کو دوسری شادی کا مشورہ دے رہی ہے۔
اففف۔۔۔کیسے زندگی گزرے گی اس بے وقوف کے ساتھ٫یا پھر یہ کہنا بہتر ہو گا بیٹا دانیال کے اس لڑکی کو سمجھاتے سمجھاتے توں بوڑھا ہونے والا۔
دانیال دل ہی دل میں سوچوں میں گم ہو چکا تھا۔
تب ہی اسفند کی کال آ گئی۔
yes plan succeed....
چلو یار پھر مبارک ہو،،،،اسفی کا قہقہ گونجا۔
تو پھر ٹکسٹس کنفرم کر دو؟
hmmm ok....
اور ہاں ہمیں ائیرپورٹ بھی ڈراپ کرنا ہو گا۔
خادم حاضر ہے جناب۔۔۔۔۔اسفی نہایت ادب سے بولا۔
دانیال بھی مسکرا دیا۔
چلو پھر میں ٹکٹس کنفرم کر کے میسیج کرتا ہوں۔
کچھ دیر بعد اسفند کا میسیج آیا۔
صبح چھ بجے کی فلائٹ تھی۔
سارہ کہاں ہو؟
وہ سارہ کو ڈھونڈنے کمرے میں گیا تو سارہ ابھی ابھی شاور لے کر آئی تھی۔
وہ شیشے کے سامنے اپنے بال ڈرائی کر رہی تھی۔
دانیال اس کے پیچھے جا رکا تو سارہ چونک کر پلٹی اور ڈرائیر اس کے ہاتھ سے گر گیا اور وہ اپنا توازن کھو کر دانیال پر جا گری اور دانیال جو اس آفت کے لیے تیار ہی نہی تھا وہ دھڑام سے نیچے گرا اور سارہ اس کے اوپر۔
سارہ کی لمبی گھنی سیاہ زلفیں دانیال کے چہرے پر گر گئیں۔
آپ ٹھیک تو ہیں؟
i am sorry....
سارہ بول رہی تھی مگر دانیال تو بس اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
سارہ نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کے کچھ بال دانیال کے بازو تلے تب چکے تھے۔
دانیال نے ہاتھ بڑھا کر سارہ کے چہرے پر آتے بال کان کے پیچھے سمیٹے۔
سارہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی کچھ عجیب سی کشش محسوس ہوئی اسے دانیال کی آنکھوں میں۔
وہ آنکھیں بند کیے ان لمحوں کو محسوس کرنے لگی مگر تب ہی دانیال کا فون بجا اور وہ ہوش میں آیا۔
دانیال نے چٹکی بجائی۔۔۔۔
سارہ نے آنکھیں کھول دیں۔
میڈم پیچھے ہٹیں گی؟
میرا فون بج رہا ہے وہ بیڈ کے نیچے۔۔۔۔
جی۔۔۔۔سارہ اٹھنے ہی لگی تھی کہ پھر سے بال اٹک گئے۔
اوہ سوری۔۔۔۔دانیال نے اٹھا تو سارہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی مگر جیسے ہی اٹھنے لگی تو کچھ بال دانیال کی شرٹ کے بٹن میں اٹک گئے۔
کیوں میرا ظبط آزمانے پے لگی ہو لڑکی۔۔۔۔دانیال بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرا دیا اور سارہ کے بال آزاد کیے۔
سارہ تیزی سے اٹھ کر ڈرائیر کی طرف بڑھی۔
خراب تو نہی ہو گیا۔۔۔۔وہ پریشان ہو رہی تھی۔
دانیال نے افسردگی سے سر ہلایا۔
ڈرائیر کی فکر ہے مگر میرے دل کی نہی۔۔۔وہ دل پے ہاتھ رکھے بے قابو دھڑکن کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔
جی۔۔۔۔سارہ تیزی دانیال کی طرف پلٹی۔
کککچھ نہی۔۔۔۔۔میرا فون بیڈ کے نیچے چلا گیا اسی کا سوچ رہا ہوں۔
کہاں؟
سارہ بیڈ کے نیچے دیکھنے لگی تو فون پاس ہی تھا۔
سارہ نے فون اٹھایا اور دانیال کی طرف بڑھا دیا۔
سوری میری وجہ سے آپ کا فون گر گیا۔
آپ اچانک سے آئے تو میں ڈر گئی تھی۔
ٹھیک تو ہے ناں؟
کیا؟
دانیال فون کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔
فون۔۔۔۔
ہاں فون ٹھیک ہے مجھے لگا میرا پوچھ رہی ہو۔
آپ تو ٹھیک ہیں میرے سامنے ہیں آپ کا نہی فون کا پوچھ رہی تھی۔
اور تمہارا ڈرائیر؟
ٹھیک ہے۔۔۔سارہ ڈرائیر آن کیے بال سکھانے لگ گئی۔
صبح پانچ بجے کی فلائٹ ہے ہماری٫جو پیکنگ کرنی ہے جلدی کر لو سارہ ابھی ایک بجا ہے اور ہمیں دو بجے یہاں سے نکلنا ہے۔
ہممم سارہ نے سر ہاں میں ہلایا۔
تو کیا میں دوبارہ کبھی واپس نہی آ سکتی؟
ایسا نہی ہے سارہ تم جب چاہو یہاں آ سکتی ہو مگر میرے ساتھ۔
البتہ ریسٹورنٹ اب نہی چل سکے گا وہ تم چاہو تو بیچ سکتی ہو۔
کوئی زبردستی نہی ہے جیسا تمہیں بہتر لگے۔
جی۔۔۔۔سارہ نے مختصر جواب دیا۔
میں اپنا بیگ پیک کر چکا ہوں تم بتا دو اگر کچھ مدد چاہیے؟
نہی میں کر لوں گی۔
ٹھیک ہے میں باہر انتظار کر رہا ہوں۔
دانیال کمرے سے باہر نکل گیا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔تو کیسی لگی یہ قسط؟
کمنٹ لازمی کیا کریں اور بلاگ کو فالو بھی کر لیں تا کہ آنے والی قسط کا نوٹیفکیشن مل سکے۔

6 comments:

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...