Wikipedia

Search results

Sunday, May 3, 2020

مسافر قسط نمبر_15


مسافر
قسط نمبر_15
از
خانزادی

ایک ہفتے بعد دوپہر کے وقت ڈور بیل بجی۔
دانیال ابھی ابھی ریسٹورنٹ کے حالات کا جائزہ لے کر گھر آیا تھا۔
اس حادثے کی وجہ سے ریسٹورنٹ میں بہت توڑ پھوڑ ہوئی تھی۔
دانیال آج سارہ سے پاکستان واپس جانے کی بات کرنے کے ارادے سے گھر آیا۔
اب اس کے لیے گھر چھوڑ کر یہاں رہنا بھی ممکن نہی تھا اور سارہ کو یہاں اکیلا چھوڑنا بھی ناممکن تھا۔
وہ ابھی سارہ کے کمرے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ڈور بیل کی آواز پر واپس پلٹ گیا۔
کی ہول سے نظر ماری تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر ماتھے پر بل پڑے۔
وہ عنہب تھا ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ اٹھائے۔
نا چاہتے ہوئے بھی اس نے درواز کھول دیا اور دونوں بازو سینے پر فولڈ کیے عنہب کو گھورنے لگا۔
جی کہیے کیا کام ہے؟
دانیال بنا کوئی لحاظ کیے چہرے پر کڑوے تیور لیے بولا۔
تم سے مطلب؟
عنہب نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ضروری سمجھا۔
اور تم ہوتے کون ہو مجھ سے یہ سوال کرنے والے؟
ایک معمولی کرایے دار!
اپنی اوقات میں رہو سمجھے۔
شور کی آواز پر سارہ بھی وہاں آ گئی۔
کیا چل رہا ہے یہاں؟
کیا چل رہا ہے۔۔۔۔عنہب نے سارہ کی بات دہرائی۔
یہ تو تم اپنے اس کرایہ دار سے پوچھو۔
اس کی اتنی ہمت کہ مجھے دروازے پے روک دیا۔
افسوس ہو رہا ہے مجھے بہت سر پر چڑھا رکھا ہے تم نے اسے۔
نہی ایسا کچھ نہی یہ تو بس ایسے ہی پوچھ رہے تھے۔
آپ آئیں اندر۔۔۔۔۔
سارہ کی بات پر وہ چہرے پر فاتخانہ مسکراہٹ سجائے آگے بڑھ گیا۔
دانیال مٹھیاں بھینچتے ہوئے دروازہ بند کیے واپس آ گیا۔
ممانی کیسی ہیں؟
وہ کیوں نہی آئیں ساتھ؟
Hmmm she is good
ماما چاہتی تھیں کہ میں خود تم سے ملنے جاوں اور دیکھوں کسی چیز کی ضرورت تو نہی ہے تمہیں۔
ایکچولی وہ تھوڑی بزی تھیں۔
Ohhh sorry
وہ پھولوں کا گلدستہ میز سے اٹھا کر سارہ کی طرف بڑھانے ہی لگا تھا کہ دانیال سامنے آ گیا اور عنہب کے ہاتھ سے وہ پھول غصے سے جھپٹ کر واپس میز پر پھینک دیے۔
اب آپ جا سکتے ہیں مسٹر عنہب۔۔۔۔بڑے اچھے انداز میں اس نے عنہب کو باہر کا راستہ دکھایا۔
عنہب نے ماتھے پر تیوڑی چڑھائی اور سارہ کو گھورنے لگا۔
یہ کیا بدتمیزی ہے سارہ؟
تمہارا یہ کرایہ دار تمہارے سامنے میری بے عزتی کر رہا ہے اور تم یوں چپ چاپ کھڑی ہو۔
دانیال۔۔۔۔۔؟
سارہ نے کچھ کہنا چاہا مگر دانیال نے ہاتھ کے اشارے سے بولنے سے روک دیا۔
آخر یہ سب چل کیا رہا ہے سارہ؟
کیا یہ تمہیں بلیک میل کر رہا ہے؟
اگر تم ایسا سمجھ رہے ہو کہ سارہ اکیلی ہے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے مسٹر!
میں ابھی پولس بلا کر اسے دھکے مار مار کر یہاں سے نکلوا سکتا ہوں۔
نہی ایسا کچھ نہی ہے۔۔۔۔سارہ نے سر نفی میں ہلایا۔
جی بلکل ایسا ہی ہے مسٹر عنہب!
"کیا کر لیں گے آپ؟"
دانیال آج اسے بخشنے والا نہی تھا۔
میں ابھی پولیس کو کال کرتا ہوں۔۔۔۔عنہب فون دانیال کے سامنے لہراتے ہوئے نمبر ڈائل کرنے لگا۔
"جی بلکل!
"آپ یہاں سے باہر جا کر یہ کام شوق سے کر سکتے ہیں٫وہ اسے بازو سے کھینچ کر دروازے سے باہر چھوڑ کر غصے سے دروازہ بند کرتے ہوئے اندر آ گیا۔
"یہ سب کیا ہے؟"
ایسا کرنا ضروری تھا کیا؟
آخر مسئلہ کیا ہے تمہیں اس سے؟
سارہ سوال پر سوال کرتی جا رہی تھی۔
"وہ خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے میرے لیے!
تم نہی سمجھ سکتی۔۔۔
کزن ہے وہ میرا!
سارہ تقریبا چلائی۔
"کزن؟"
اچھا۔۔۔۔کس رشتے سے کزن ہے وہ تمہارا؟
"جس طرح سے وہ تمہیں دیکھتا ہے میرا دل چاہتا ہے آنکھیں نوچ لوں اس کی"
یہ سب تمہارے ذہن کا وہم ہے اور کچھ نہی!
سارہ بے رخی سے جواب دیے اپنے کمرے کی طرف چل دی۔
اچھا یہ سب میرا وہم ہے؟
تو یہ پھول کس حق سے لایا ہے وہ تمہارے لیے؟
بتاو مجھے!
دانیال بھی اس کے ساتھ کمرے میں آ گیا۔
مینرز بھی کوئی چیز ہوتی ہے اخلاق کے طور پر اگر وہ پھول لے بھی آیا ہے تو اس میں غصہ کرنے والی کونسی بات ہے؟
اگر تم مجھ پر شک کر رہے ہو تو یہ بات میں برداشت نہی کروں گی؟
میں تم پر شک نہی کر رہا سارہ بس اپنا فرض نبھا رہا ہوں۔
"بس نکاح کر لینا فرض نہی ہوتا٫بیوی کی طرف اٹھنے والی ہر غلط نکاح کو روکنا اور اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کرنا شوہر کی زمہ داری ہے"
شکر ہے خدا کا جو میری موجودگی میں وہ یہاں آیا ورنہ پتہ نہی کیا ہو جاتا۔
یہ سب بس آپ کے ذہن کی باتیں ہیں اور کچھ نہی!
سچ تو یہ ہے کہ آپ ایک شکی مزاج مرد ہیں۔
"اگر اپنی بیوی کی حفاظت کرنا شک ہے تو ہاں میں ہوں شکی مزاج"
میرے خیال سے اب ہمیں پاکستان چلنا چاہیے۔۔یہاں اب کوئی نہی ہے ہمارا۔
میں ٹکٹس کنفرم کروا رہا ہوں تم پیکنگ شروع کر دو۔
ایسا نہی کر سکتے تم!
میں یہاں سے کہی نہی جانے والی اور کس نے کہہ دیا آپ سے کہ یہاں کوئی نہی ہے میرا؟
اس گھر سے بہت یادیں جڑی ہیں میری اور یہ میرا ملک ہے۔
یہی پلی بڑھی ہوں میں۔۔۔۔اپنا گھر اور وطن چھوڑ کے میں کہی نہی جانے والی۔
اگر تم واپس جانا چاہو تو جا سکتے ہو۔
"تمہیں چھوڑ کر نہی جا سکتا"
تو پھر اپنے گھر والوں کو چھوڑ دو!
یہ ممکن نہی ہے!
دانیال افسوس بھری نظروں سے سارہ کو دیکھنے لگا۔
اگر تمہارے لیے ممکن نہی ہے تو میرے لیے کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
تمہارے اس سوال کا کوئی جواب نہی ہے میرے پاس سارہ۔
میں جو کہہ رہا ہوں بس وہی کرو۔
ٹکٹس کنفرم کروا رہا ہوں تمہیں جو چاہیے پیک کر لو ہم دوبارہ یہاں نہی آئیں گے۔
ایسا نہی ہو سکتا!
ایسا ہی ہو گا کیونکہ اسی میں ہماری بھلائی ہے٫دانیال کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ بیڈ پے بیٹھی آنسو بہانے لگی۔
آنی آپ تو کہتی تھیں دانیال بہت اچھا انسان ہے۔
آپ غلط تھیں آنی۔۔۔یہ ایک مطلب پرست انسان ہے۔
اپنے فائدے کے لیے مجھے یہاں سے لیجانا چاہتا ہے تا کہ مجھے اپنی غلام بنا سکے۔
سب کے سامنے اچھا بننا چاہتا ہے اور میری زندگی برباد کرنا چاہتا ہے۔
وہ کافی دیر آنسو بہاتی رہی یہاں تک کہ اس کی آنکھ لگ گئی۔
مسلسل ڈور بیل کی آواز پر وہ کمرے سے باہر آئی تو سامنے دانیال کو دروازے کی طرف بڑھتے دیکھ واپس پلٹ گئی۔
آئیے آفیسر!
ممانی کی آواز پر سارہ واپس پلٹی۔
یہی ہے وہ جو میری معصوم بچی کو قید کر کے رکھنا چاہتا ہے۔
وہ اکیلی نہی تھیں بلکہ اپنے ساتھ پولیس بھی لائی تھیں۔
کیا یہ سچ ہے مسٹر دانیال؟
پولیس آفیسر آگے بڑھا۔
ایسا کچھ نہی ہے آفیسر!
She is my officially wife
دانیال نے نہایت نرمی سے جواب دیا۔
ممانی اور عنہب کی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں دانیال کے جواب پر۔
جھوٹ بول رہا ہے یہ آفیسر۔۔۔۔آپ لے کر جائیں اسے یہاں سے عنہب چلایا۔
پولیس آفیسر نے اسے ہاتھ کے اشارے سے چپ ہونے کا اشارہ دیا۔
is it true miss sarah?
وہ آفیسر سارہ کی طرف بڑھا۔
سارہ نے دانیال کی طرف دیکھا اور بھاگ کر آنی سے لپٹ گئی.
آفیسر یہ جھوٹ بول رہا ہے میرا اس سے کوئی رشتہ نہی ہے۔
دانیال کو یوں لگا جیسے پوری چھت اس کے سر پے آ گری ہو۔
سارہ یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟
Arrest.....
آفیسر کے آرڈر پر دو پولیس مین آگے بڑھے اور دانیال کے دونوں بازو کمر کی طرف موڑتے ہوئے ہتھ کڑی لگا دی۔
دانیال نے بہت کوشش کی خود کو بچانے کی مگر ناکام رہا۔
i will kill you....
وہ عنہب کی طرف جھپٹنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔
دیکھا آپ نے آفیسر یہ ہمیں جان سے مارنے کی دھمکی دے رہا ہے۔۔۔۔ممانی معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے بولیں۔
Dont worry mam
سارہ کیوں کر رہی ہو تم ایسا؟
سچ کیا ہے تم جانتی ہو!
تم غلط لوگوں پر بھروسہ کر رہی ہو۔۔۔۔
دانیال چلاتا رہا مگر سارہ ٹس سے مس نا ہوئی۔
پولیس دانیال کو وہاں سے لے گئی۔
اسی میں ہماری بہتری ہے۔۔۔وہ آنکھ سے جھلکتے آنسو پونچھ کر اپنے کمرے میں بھاگ گئی جبکہ ماں بیٹے نے اپنی جیت پر فاتخانہ قہقہ لگایا۔

________________________________________

Follow my blog friends

تو کیسی لگی آج کی قسط کمنٹ میں ضرور بتائیں شکریہ۔





8 comments:

  1. Yrrr itny laot episode ati hy story e bhol jti

    ReplyDelete
  2. Ohhh ye kya kiya sarh ny bht phachtaay g un py bhrosa kr k.
    Plzz epi jldi diya kry itna late hony ki wja se mza ni ataa story ka

    ReplyDelete
  3. Sara bht buri hai is ne acha nh kia

    ReplyDelete
  4. Sara bht buri hai is ne acha nh kia

    ReplyDelete
  5. Sara bht buri hai is ne acha nh kia

    ReplyDelete
  6. Sarah u did very bad ab tmhain pata lagge ga

    ReplyDelete

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...