Wikipedia

Search results

Tuesday, April 21, 2020

مسافر قسط نمبر_14


مسافر
قسط نمبر_14
از
خانزادی

اگلی صبح دانیال جلدی گھر آ گیا۔
سارہ نماز پڑھ کر ابھی جائے نماز پر ہی بیٹھی تھی کہ دانیال کمرے میں آیا۔
سارہ۔۔۔۔
اس نے سارہ کو پکارا تو سارہ نے دعا مانگ کر چہرے پر ہاتھ پھیر لیے اور جائے نماز تہہ لگا کر الماری میں رکھ دی۔
میں اپنا بیگ لے لوں لوں زرا۔۔۔۔سارہ الماری کی طرف بڑھی۔
سارہ میری بات سنو۔۔۔دانیال آگے بڑھا اور اسے بازو سے کھینچ کر رخ اپنی طرف کیا۔
ہاسپٹل جانے کی ضرورت نہی ہے۔۔۔بہ مشکل وہ اتنا بول پایا۔
کیوں آنی گھر آ گئی ہیں کیا؟
مگر اتنی جلدی کیسے ابھی تو ان کے زخم بھی ٹھیک نہی ہوئے۔
She is no more.....
آخر اس نے ہمت کرتے ہوئے بول دیا۔
سارہ شاکڈ سی دانیال کو گھورنے لگی جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
No more???
ایسا کیسے ہو سکتا ہے دانیال میں ابھی رات کو ملی تھی ان سے۔۔۔سارہ جیسے صدمے میں تھی۔
اتنی دیر میں ایمبولینس کی آواز آئی۔
سارہ سنبھالو خود کو۔۔۔۔آو ایک نظر آخری بار دیکھ لو آنی کو اس کے تدفین کے لیے جانا ہے۔
سارہ کو لگا جیسے کسی نے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو۔
وہ گرتے گرتے بچی۔
دانیال اس کے کندھوں کے گرد بازو پھیلائے اسے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے باہر تک لایا۔
تابوت سے کور ہٹایا گیا اور سامنے کا منظر دیکھ کر سارہ نے سر نفی میں ہلایا اور ایک دلخراش چیخ اس کے گلے سے ابھری۔
ایسا کیسے ہو سکتا آنی آپ مجھے چھوڑ کر نہی جا سکتیں۔
سارہ سنبھالو خود کو۔۔۔۔دانیال نے اس کا سر کندھے سے لگایا اور اسے چپ کروانے کی ناکام کوشش کی۔
دیکھتے ہی دیکھتے ریسٹورنٹ کا سارہ سٹاف وہاں پہنچ گیا۔
دانیال نے سارہ کو تانیہ کے حوالے کیا اور میت کو کندھا دینے کے لیے آگے بڑھا۔
ہر طرف رونے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔پورا سٹاف اس حادثے سے شدید رنج میں تھا۔
جیسے ہی آنی کے چہرے کو پھر سے ڈھانپ دیا گیا اور سارہ ان کو خود سے دور جاتے دیکھنے لگی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین بوس ہو گئی۔
تانیہ اور باقی گرلز اسے گھر لے آئیں اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگیں۔
کچھ دیر بعد سارہ کو ہوش تو آ گیا مگر وہ بے سدھ بستر پے پڑی آنسو بہا رہی تھی۔
دانیال کے آتے ہی وہ سب وہاں سے چلی گئیں۔
سنبھالو خود کو سارہ۔۔۔۔وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھتے ہوئے ہاتھ تھام کر بولا۔
سارہ نے کوئی جواب نہی دیا اور نہ ہی اپنا ہاتھ واپس کھینچا۔
میں ناشتہ بنا کر لاتا ہوں تمہارے لیے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ نے سائیڈ ٹیبل سے اپنا فون اٹھایا اور میسیج ٹائپ کیا سینڈ پر کلک کیا اور فون واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
دانیال ناشتہ لے کر آیا تو سارہ نے کھانے سے صاف انکار کر دیا۔
دانیال نے اسے زبردستی اپنے ہاتھ سے کھلانا شروع کر دیا۔
وہ زاروقطار آنسو بہاتی ہوئی کھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
دانیال خود کو قصورور سمجھ رہا تھا اس سارے حاثے کا۔
وہ بھی بہت دکھی تھا مگر کمزور نہی پڑنا چاہتا تھا۔
کیونکہ اگر وہی کمزور پڑ جاتا تو سارہ کو کون سنبھالتا۔
سارہ کو ناشتہ کھلا کر میڈیسن دے کر کمرے سے باہر آ گیا۔
کچن میں برتن سمیٹ کر باہر آیا ہی تھا کہ فون بجنے لگا۔
ڈیڈ کی کال۔۔۔۔۔اس نے کال اٹینڈ کی اور ٹی وی لاونج کے صوفے پر بیٹھ گیا۔
جی ڈیڈ سارہ ٹھیک ہے ابھی میڈیسن کھلائی ہے اسے اب سو رہی ہے۔
ٹھیک ہے بیٹا اس کا خیال رکھو اور اسے تنہا مت چھوڑنا۔
اس وقت اسے سب سے زیادہ ضرورت ہے تمہاری۔
کچھ وقت لگے گا اسے سنبھلنے میں پھر وہ ضرور تمہیں سمجھے گی۔
جی ڈیڈ میں سمجھ سکتا ہوں۔
ڈیڈ گھر پے سب خیریت؟
ہاں بیٹا سب خیریت کیوں ہوا؟
ڈیڈ کل رات مام کی کال آئی تھی۔۔۔۔
وہ سارہ کو لے کر بہت بدگمان ہیں٫مجھے فورس کر رہی ہیں کہ میں سارہ کو چھوڑ کر پاکستان آ جاوں۔
تمہاری ماں کبھی نہی بدلے گی۔۔۔۔
تم اس کی فکر مت کرو میں سنبھال لوں گا۔
پرانی عادت ہے اس کی۔
تم بس اپنی زندگی کا سوچو اور اپنا گھر بسانے کا سوچو۔
سارہ تمہاری بیوی ہے اور اسے تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔
مگر مام کا کیا؟؟
میں نے تم سے کہا نہ اپنی مام کی فکر کرنا چھوڑ دو اسے میں سنبھال لوں گا۔
اب اگر تمہاری ماں کی کال آئے تو تم اٹینڈ ہی نہ کرنا۔
ٹھیک ہے ڈیڈ جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔اس نے گہری سانس لی اور کال کاٹ دی۔
وہی صوفے پر نیم دراز ہو گیا پتہ ہی نہی چلا کب نیند آ گئی۔
مسلسل ڈور بیل بجنے کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی تو بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا۔
کی ہول سے باہر دیکھا تو ایک خاتون تھیں۔
جیسے ہی دانیال نے دروازہ کھولا وہ اندر داخل ہوئیں۔
سارہ کہاں ہے؟
بنا سلام کیے وہ دانیال کو اگنور کرتی ہوئیں آگے بڑھ گئیں۔
وہ اپنے کمرے میں ہے۔۔۔دانیال دروازہ بند کرتے ہوئے واپس پلٹا۔
اس سے پہلے کہ دانیال ان سے کچھ پوچھتا وہ تیزی سے سارہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
پھر سے ڈور بیل ہوئی دانیال نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک لڑکا کھڑا تھا پینٹ کوٹ میں ملبوس۔
جی آپ کون؟
دانیال نہایت ادب سے بولا۔
Myself Anheb....
سارہ کا کزن۔۔۔۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔ویلکم
دانیال نے اسے اندر آنے کی دعوت دی۔
وہ ہاتھ ملا کر چہرے پر مسکراہٹ سجائے اندر آ گیا۔
دانیال کو عجیب سا لگا ان کا اچانک یہاں آنا۔
وہ سارہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔
وہ خاتون سارہ کو گلے سے لگائے مگر مچھ کے آنسو بہانے میں مصروف تھیں۔
چلو باہر آو کمرے سے عنہب بھی آیا ہے ساتھ میں اسے دیکھ لوں زرا۔
دانیال نے انہیں گزرنے کا راستہ دیا۔
سارہ شال اوڑھتی ہوئی کمرے سے باہر جانے لگی ہی تھی کہ دانیال نے اس کا بازو تھام لیا۔
کون ہیں یہ لوگ؟
یہ میری ممانی ہیں۔۔۔۔سارہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔
ممانی!
مگر آنی نے تو کبھی ذکر نہی کیا ان کا؟
ہاں وہ نانا نے دوسری شادی کی تھی تو اس رشتے سے ممانی ہیں یہ میری اور آنی سے ان کی دوستی کم تھی کبھی کبھار ملتے تھے ہم۔
اب میں جاوں؟؟؟
ہممم دانیال سوچ میں پڑ چکا تھا۔
سارہ سلام کرتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔
عنہب تو بس اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔
میں آتی ہوں۔۔۔۔سارہ وہاں سے اٹھ گئی۔
کیسی لگی سارہ؟
سارہ کے وہاں سے جاتے ہی وہ عنہب کو کہنی مارتی ہوئی سرگوشی کرنے لگیں۔
She is beautiful mom....
وہ نظریں جھکائے مسکراتے ہوئے بولا۔
دیکھا کہہ رہی تھی ناں میں تمہیں پسند آئے گی۔
آگے کیا کرنا ہے بات کیسے آگے بڑھانی ہے یہ تم جانو۔۔۔وہ پورے گھر پر نظر ڈالتی ہوئی بولیں۔
یہ سب ہاتھ سے نہی جانا چاہیے عنہب۔۔۔۔۔
وہ سب تو ٹھیک ہے مگر یہ لڑکا کون ہے مام؟
کون وہ جو دروازے پے تھا؟
چھوڑو اس کی فکر مت کرو کرایہ دار ہے وہ یہاں۔
ایک منٹ لگے گا اسے یہاں سے باہر نکالنے میں۔
سارہ ان کے لیے جوس لے کر آئی۔
اس کی کیا ضرورت تھی میری جان؟
ہم تو بس تم سے ملنے آئے ہیں۔
دانیال بھی وہی آ گیا۔۔۔۔عنہب کی سارہ پر جمی نظریں دیکھ کر چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔
سنو!
اب تم اپنا انتظام کہی اور کر لو٫اب تم یہاں نہی رہ سکتے۔
وہ دانیال کو گھورتی ہوئی بولیں۔
دانیال نے سارہ کی طرف دیکھا۔
سارہ نے منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
جی ضرور۔۔۔۔بس مجھے دو دن کا وقت دے دیں پھر میں چلا جاوں گا یہاں سے۔
دانیال کے جواب پر سارہ شاکڈ رہ گئی۔
اسے تو لگا تھا دانیال ان کے سامنے نکاح کا اعتراف کرے گا مگر ایسا کچھ نہی ہوا۔
ٹھیک ہے سارہ ہم چلتے ہیں پھر آئیں گے۔
جی۔۔۔۔سارہ نے مختصر جواب دیا۔
وہ دونوں ماں بیٹا دانیال کو گھور کر باہر کی طرف بڑھ گئے۔
سارہ اپنے کمرے میں چلی گئی کیونکہ وہ اس وقت دانیال کے کسی بھی سوال کا جواب نہی دینا چاہتی تھی۔
دانیال نے بھی تذکرہ کرنا ضروری نہی سمجھا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔

Follow my blog friends...



9 comments:

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...