Wikipedia

Search results

Tuesday, April 14, 2020

مسافر قسط نمبر_10

مسافر
قسط نمبر_10
از
خانزادی

ناشتے کے بعد حبا سارہ کے کمرے میں آ گئی اور ساری الماری سیٹ کر دی۔
یہ والا ڈریس۔۔۔اس نے سارہ کی طرف بے بی پنک کلر ڈریس بڑھایا۔
یہ پہنیں گی آپ ابھی،جائیں جلدی سے تیار ہو جائیں بھابی۔
لیکن ابھی کیا ضرورت ہے حبا؟
میں پھر کسی دن پہن لوں گی۔۔۔
نہی بھابھی میں یہ آپ کے پہننے کے لیے لائی ہوں الماری میں سجانے کے لیے نہی۔
جلدی کریں بھابی پلیز۔۔۔۔حبا نے اسے واش روم کی طرف دھکیلا۔
مجبوراً سارہ کو وہ ڈریس تھامنا ہی پڑا۔
کچھ دیر بعد وہ فریش ہو کر باہر آئی تو حبا کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
O My God....
ماشا اللہ۔۔۔۔بھابی آپ کے بال کتنے لمبے اور خوبصورت ہیں۔
آئیں یہاں بیٹھیں میں ڈرائیر آن کرتی ہوں حبا اسے زبردستی ڈریسنگ کے سامنے لے گئی۔
ڈرائیر آن کر کے بال ڈرائی کیے اور پھر سٹریٹنگ کی۔
ماشا اللہ بھابی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔
اب میں حجاب پہن لوں؟
سارہ کو تھوڑا عجیب محسوس ہو رہا تھا کیونکہ اس نے آج سے پہلے کسی کے سامنے اپنے بال نہی کھولے تھے۔
No way....
حجاب لینے کا سوچیے کا بھی مت،یہ آپ کا اپنا گھر ہے اور اپنا ملک ہے یہاں ٹینشن والی کوئی بات نہی ہے۔
مگر مجھے عادت نہی ہے حبا۔۔۔
کوئی بات نہی آہستہ آہستہ ہو جائے گی عادت۔
آپ لائٹ سا میک اپ بھی کر لیں۔
نہی۔۔۔مجھے میک اپ سے سخت الرجی ہے۔
آج تک کبھی میک اپ نہی کیا میں نے۔
مجھے اندازہ ہے بھابی آپ بنا میک اپ کے ہی بہت پیاری ہیں یقیناً آپ کو کبھی ضرورت ہی نہی پڑی ہو گی۔
چلیں رہنے دیں جب بھائی واپس آ جائیں تب کر لیجیے گا۔
حبا۔۔۔۔سارہ نے اسےگھورا۔
مزاق کر رہی تھی۔۔حبا ہنسنے لگی۔
حجاب نہی لینے دے رہی تم اور ایسے بالوں کو کیسے سنبھالوں گی میں سارا دن؟
ہممم اس کا علاج بھی ہے میرے پاس،میں ابھی پیارا سا جوڑا بنا دیتی ہوں۔
امممم۔۔۔۔چلیں باہر؟
کہاں سارہ حیران سی بولی۔
باقی سب کو دکھانے کل آپ شلوار قمیض میں کتنی خوبصورت لگ رہی ہیں۔
نہی۔۔۔میں یہی ٹھیک ہوں۔
مطلب اب آپ کمرے سے باہر نہی جائیں گی؟
اففف بھابی۔۔۔آپ اتنی ریزرو کیوں ہیں؟
میں ایک کال کر لوں زرا۔
آنی کو رات سے کال کر رہی ہوں مگر وہ پک نہی کر رہیں۔
اوکے۔۔۔آپ کر لیں کال،میں بعد میں آتی ہوں۔
سارہ پھر سے آنی کا نمبر ڈائل کرنے لگی مگر وہ کال پِک نہی کر رہی تھیں۔
پھر اس نے لیپ ٹاپ آن کیا اور اسفی کو سکائپ پر کال کرنے لگی مگر وہ آن لائن نہی تھا۔
تب ہی حبا کمرے میں آئی،ہو گئی بات؟
ننہی۔۔۔۔آنی کال اٹینڈ نہی کر رہیں،سارہ نے تیِ سے لیپ ٹاپ شٹ ڈاون کیا۔
حبا مسکرا دی۔
Dont worry....
ہو سکتا ہے وہ کہی باہر گئی ہو۔۔۔یا پھر بزی ہو۔
پہلے کبھی ایسا نہی ہوا حبا میں کل رات سے انہیں کال کر رہی ہوں اگر وہ کہی جائیں تو اپنا فون ہمیشہ ساتھ رکھتی ہیں۔
ہممم تو آپ کسی اور کو کال کر لیں۔۔۔میرا مطلب اپنے ریسٹورنٹ سٹاف میں سے کسی کو۔
ہاں یاد آیا تانیہ کو کرتی ہوں کال۔
یاد آنے پر سارہ نے جلدی سے تانیہ کا نمبر ڈائل کیا۔
ہیلو۔۔۔۔تانیہ نے کال اٹینڈ کی۔
سارہ بات کر رہی ہوں۔۔۔۔تانیہ آنی کہاں ہیں؟
سارہ تم کہاں ہو؟
یہاں بہت گڑ بڑ ہو گئی ہے۔تانیہ رو رہی تھی۔
میں کب سے تمہیں کال کر رہی تھی مگر تمہارا نمبر ہی بند جا رہا ہے۔
کیا ہوا ہے تانیہ؟
تم رو کیوں رہی ہو،سب خیریت تو ہے ناں؟
آنی کہاں ہیں میری بات کروا سکتی ہو ان سے؟
میم تو ہاسپٹل میں ان کو گولی لگی ہے۔۔۔۔تانیہ روتے ہوئے بولی۔
whattttttt?
کیسے؟
آنی ٹھیک تو ہیں اور اسفی؟
اسفی کہاں ہے؟
اس سے پہلے کہ تانیہ جواب دیتی کال ڈراپ ہو گئی۔
بیلنس۔۔۔۔ختم ہو گیا۔
اس نے حبا کی طرف دیکھا۔
ایک منٹ ٹہریں بھابی میں ابھی آئی حبا تیزی سے کمرے سے باہر گئی اور فون لا کر سارہ کو دے دیا۔
سارہ نے جلدی سے تانیہ کا نمبر ڈائل کیا۔
تانیہ آنی کیسی ہیں اب؟
یہ سب کیسے ہوا؟
ریسٹورنٹ میں چور آ گئے تھے میم نے مزاحمت کی اور بدلے میں انہوں نے گولیاں چلائیں۔
آنی کے سینے میں گولی لگی ہے اور باقی سٹاف کو بھی گولیاں لگی ہیں۔
میرے بازو پر لگی تھی آج ہاسپٹل سے گھر آئی ہوں۔
تم اسفی کو کال کرو وہ ہاسپٹل ہے۔
سارہ نے کال ڈسکنیکٹ کی اور کانپتے ہاتھوں سے اسفی کا نمبر ڈائل کیا مگر اس کا نمر بند تھا۔
حبا تم کامران سے بولو میری ترکی کے لیے ٹکٹ کنفرم کرے۔
مجھے ابھی جانا ہو گا۔
جی بھابی میں ابھی جاتی ہوں۔
سارہ حیرت زدہ سی کبھی اپنے فون کو دیکھ رہی تھی اور کبھی اسفی کے ڈائل نمبر کو جو مسلسل بند جا رہا تھا۔
وہ سر تھامے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟
لگتا ہے ابھی میرا دل پھٹ جائے گا درد سے،اتنا سب کچھ ہو گیا اور مجھے پتہ ہی نہی چلا۔
بھابی بارہ بجے کی فلائٹ ہے ابھی دس بجے ہیں۔
آپ جلدی ریڈی ہو جائیں میں آپ کو ائیرپورٹ ڈراپ کر دوں گا،کامران اچانک کمرے میں آیا۔
یہ فون۔۔۔۔حبا نے فون سارہ کی طرف بڑھایا۔
یہ ڈیڈ کا فون ہے جلدی میں یہی نظر آیا،ڈیڈ ڈائیننگ ٹیبل پر ہی بھول گئے تھے۔
حبا جلدی کرو باتوں کے لیے وقت نہی ہے،تم بیگ پیک کرو بھابھی کا۔
ہاں میں ابھی کرتی ہوں،حبا الماری کی طرف بڑھ گئی،جبکہ سارہ وہی بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔
Don't worry bhabi....
سب ٹھیک ہو جائے گا آپ پریشان نہ ہو۔
حبا نے بیگ پیک کر کے کامران کی طرف بڑھایا۔
آ جائیں بھابی میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔
میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔
ٹھیک ہے تم مام کو بتا دینا یاد سے دادا جان اور دادو تو گھر پے نہی ہیں۔
ٹھیک ہے۔۔۔حبا نے سارہ کا ہینڈ بیگ اس کی طرف بڑھایا اور اپنے کمرے سے اپنے فون اور ہینڈ بیگ لے کر گاڑی کی طرف بڑھی۔
حبا سارے راستے اسے تسلیاں دیتی رہی۔
کامران نے اس کی ٹکٹ خریدی اور سارہ کے حوالے کر دی۔
وہ دونوں کو خدا حافظ بول کر آنسو بہاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
جیسے ہی سارہ کی فلائٹ کا اعلان ہوا وہ دونوں گھر واپسی کے لیے چل دیے۔
سارے رستے سارہ دکھ،قرب اور بے چینی میں مبتلا رہی۔
اس کا بس نہی چل رہا تھا ورنہ دل چاہ رہا تھا اڑ کر آنی کے پاس پہنچ جائے۔
طویل سفر کے بعد وہ ترکی پہنچ ہی گئی۔
ائیر پورٹ سے ٹیکسی لی اور پہلے گھر پہنچی۔
خالی خالی گھر اسے خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔
اس نے بیگ وہی ٹی وی لاونج میں چھوڑا اور ہاسپٹل کے لیے چل دی۔
ہاسپٹل پہنچ کر مطلوبہ وارڈ کی طرف بڑھی تو کاریڈور میں بینچ پر پریشان حال اسفی پر اس کی نظر پڑی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اس کی جانب بڑھی۔
اتنا سب ہو گیا اور تم نے مجھے بتانا بھی ضروری نہی سمجھا؟
اس آواز پر اسفی نے نظریں اٹھا کر سارہ کی جانب دیکھا آواز تو جانی پہچانی تھی مگر چہرہ؟
چند پل لگے اسے سمجھنے میں۔
سارہ تم یہاں؟؟؟
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا وہ حیران تھا سارہ کو اس حلیے میں اچانک سامنے دیکھ کر۔
ہاں میں یہاں۔۔۔وہ تو شکر ہے خدا کا کہ تانیہ نے مجھے سب بتا دیا ورنہ مجھے تو کچھ پتہ ہی نہ چلتا۔
سارہ کے لہجے میں تلخی سی تھی۔
اسفی سمجھ نہی پایا اس کے لہجے کو۔
تمہارے زمے چھوڑ کر گئی تھی میں آنی کو اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم اتنے غیر زمہ دار نکلو گے تو میں کبھی اتنا بڑا قدم نہ اٹھاتی۔
کہاں ہیں آنی مجھے ملنا ہے ان سے؟
وہ آئی سی یو میں ہیں،کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہی ہے۔
سارہ آنسو بہاتی ہوئی بینچ پے بیٹھ گئی۔
I am sorry....
میں شہر سے باہر تھا اس وقت کسی کام سے۔
تمہاری سوری سے سب ٹھیک تو نہی ہو جائے گا۔
تم گھر چلو،یہاں بس ایک کو رکنے کی اجازت ملے گی۔

تو پھر تم چلے جاو گھر،میں یہی رکوں گی۔
سارہ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو تم اتنے لمبے سفر سے تھک گئی ہو گی۔
گھر جا کر کچھ کھا لو اور آرام کرو۔
میں ہوں یہاں۔۔۔۔
تم پر اب اعتبار نہی رہا مجھے۔۔
دیکھو سارہ میں جانتا ہوں میری غلطی ہے مگر تم خود کو سزا کیوں دے رہی ہو؟
گھر جاو کچھ دیر آرام کرو پھر آ جانا واپس۔
آنی کو دو گھنٹے سے پہلے حوش نہی آنے والا،آپریٹ ہوا ہے ابھی ابھی۔
گولی ان کے دل کے پاس لگی ہے مگر شکر ہے خدا کا ہارٹ کو کوئی نقصان نہی پہنچا۔
میری ڈاکٹر سے بات ہو گئی ہے اب ان کی حالت بہتر ہے۔
پلیز تم گھر چلی جاو۔۔۔بلکہ میں خود چھوڑ آتا ہوں تمہیں حالات ٹھیک نہی ہیں۔
سارہ نا چاہتے ہوئے بھی باہر کی طرف چل دی۔
سارہ کو گھر چھوڑ کر اسفی دروازے سے ہی واپس پلٹ گیا۔
سارہ منہ ہاتھ دھو کر بیٹھ گئی۔
کچھ ہی دیر بعد اسفی کھانے کے ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوا۔
تم کھانا کھا کر آرام کرو،جیسے ہی آنی کو ہوش آئے گا میں کال کر دوں گا تمہیں۔
اتنی ہمدردی کیوں؟
رشتہ کیا ہے تمہارا میرے ساتھ؟
سارہ یہ سب کیا بول رہی ہو تم؟
دوست ہیں ہم اب مجھے یہ بتانے کی ضرورت پڑے گی کیا؟؟؟
دوست نہی ہو تم۔۔۔۔تم دشمن ہو میرے،سارہ چلائی۔
Cool down....
ایسا کیا کر دیا ہے میں نے جو تم اتنا غصہ کر رہی ہو؟
یہ سوال تم خود سے پوچھو مسٹر اسفند عرف دانیال۔۔۔۔۔۔

________________________________________
باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔امید ہے ناول آپ سب کو پسند آ رہا ہو گا،سب کو شکایت رہتی ہے قسط دیر سے ملنے کی😕
لاک ڈاون کی وجہ سے بچے اور ہبی گھر پے ہیں،ان سب کو سنبھالنا اور گھر کے کام اففففف۔۔۔۔ایسے حالات میں لکھنے کا ٹائم ہی نہی ملتا آپ لوگ ہی بتائیں کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟؟؟
تو بتائیں کیسا لگا سرپرائز اسفند عرف دانیال😁؟
جس کو سمجھ آ گئی کمنٹ کریں💞

No comments:

Post a Comment

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...