Wikipedia

Search results

Tuesday, April 14, 2020

مسافر قسط نمبر_4

مسافر
قسط نمبر_4
از
خانزادی
کہاں کہاں نہی ڈھونڈا تمہیں۔۔۔میں بتا نہی سکتا آج کتنا خوش ہوں میں تمہیں سامنے دیکھ کر۔
کاش میں بھی یہ کہہ سکتا دادا جان!
ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے اگر ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو۔۔۔۔۔سارہ کا لہجہ طنزیہ تھا۔
آو اندر چلو بیٹا سارے گلے شکوے یہی کرو گی کیا؟
وہ سارہ کا بازو تھامتے ہوئے اندر کی طرف بڑھے۔
میں چلتی ہوں۔۔۔خدا حافظ۔
مہوش بلند آواز میں بولتی ہوئی گیٹ پار کر گئی۔
جیسے ہی سارہ گھر میں داخل ہوئی سامنے ٹی وی لاونج کے صوفے پر اس کی دادی براجمان تھیں۔سارہ کو آتے دیکھ وہ لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئی اٹھ گئیں اور سارہ کی طرف بڑھیں اسے گلے سے لگائے آنسو بہانے لگیں۔
سارہ حیران تھی کہ اس گھر کے مکین اگر اس سے اتنی محبت کرتے تھے تو یہ تب کہاں تھے جب اس کے سر سے ماں باپ دونوں کا سہارا اٹھ گیا۔
کہاں تھے تب،جب وہ تنہا اپنا گھر چلانے کی خاطر ریسٹورنٹ میں خوار ہوتی رہی؟
اس نے اپنی دادی کا ماتھا چومتے ہوئے خود سے الگ کیا اور انہیں سہارا دیتے ہوئے صوفے تک لے آئی۔
کون ہے یہ لڑکی بابا جان؟
سارہ کے کانوں میں کرخت آواز گونجی،وہ تیزی سے واپس پلٹی۔
یہ سارہ ہے بہو۔۔۔۔اس سے پہلے کہ سارہ کوئی جواب دیتی سارہ کے دادا بول پڑے۔
سارہ۔۔۔۔شہزاد کی بیٹی؟
وہ ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولیں اور ان کی آواز میں واضح گھبراہٹ تھی۔
ایسے جیسے سارہ کے یہاں آنے پر انہیں کوئی خوشی محسوس نا ہوئی ہو۔
جی بڑی ماما میں سارہ شہزاد۔۔۔۔آپ کے اکلوتے دیور کی اکلوتی بیٹی۔
سارہ آگے بڑھی اور مسکراتے ہوئے اپنا تعارف پیش کیا۔
یہاں کیا لینے آئی ہو تم؟
تمہیں یاد نہی کئی برس پہلے تم سے اور تمہارے ماں،باپ سے رشتے توڑ چکے ہیں ہم؟
بہو۔۔۔۔سارہ کے دادا غصے سے چلائے۔
ابھی ہم زندہ ہیں یہ فیصلے کرنے کے لیے کہ کس سے رشتہ جوڑنا ہے اور کس سے توڑنا ہے۔
بہتر ہو گا اگر تم اس معاملے سے دور رہو۔
جتنا حق اس گھر کے باقی وارثوں کا اس گھر پر ہے اتنا ہی حق سارہ کا بھی ہے،شاید بھول رہی ہو تم۔
اور اگر تم بھول گئی ہو تو میں تمہیں یاد دلا دوں،یہ دانیال کے نکاح میں ہے۔
میں نہی بھولی بابا جان سب یاد ہے مجھے لیکن ایک بات آپ بھی اس لڑکی کو سمجھا دیں۔
دانیال اسے قبول نہی کرے گا۔۔۔۔
یہ اپنے مفاد میں کامیاب نہی ہو گی،یہ جتنے دن اس گھر میں رہنا چاہے رہ سکتی ہے مگر اس گھر میں بسنے کا خیال دل سے نکال دے۔
وہ پیر پٹختی ہوئیں وہاں سے چلی گئیں۔
اس کی باتوں کا برا مت ماننا سارہ اس کی عادت ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ دانیال نے تمہیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی تھی وہ تمہارے پرانے ایڈریس پر بھی گیا تھا مگر تم لوگ وہاں نہی تھے۔
تمہارے باپ کی میت دفن ہوتے ہی تمہاری ماں تمہیں یہاں سے لے گئی۔
اس نے ہم پر یقین کرنا ضروری ہی نہی سمجھا۔
ہم نے کہاں کہاں نہی ڈھونڈا تم دونوں کو مگر کچھ پتہ نہی چلا۔
دادو ماما اب اس دنیا میں نہی ہیں۔۔۔۔سارہ کے بولنے پر وہ حیران رہ گئیں اور پھر سے آنسو بہانے لگیں۔
ماما کا دو سال پہلے انتقال ہو گیا۔
تو دو سال سے تم کہاں رہ رہی تھی ایک پردیس ملک میں اکیلی؟
جب بابا کی دیتھ ہوئی تو ماما کو لگا شاید آپ لوگ مجھے ان سے چھین لیں گے تو مجبوراً وہ مجھے یہاں سے ترکی واپس لے گئیں۔
آپ لوگ ہم تک نا پہنچ سکیں اس لیے ماما نے وہ گھر بیچ دیا اور ہم نانو گھر رہنے چلے گئے جہاں بس نانو اور آنی رہتی تھیں۔
نانو کی دیتھ کے بعد ہم لوگ اکیلے پڑ گئے مگر ہمت نہی ہاری اور دن رات ایک کر کے اپنا ریسٹورنڑ چلانے لگیں۔
مگر ماما کی دیتھ کے بعد ہم دونوں بہت اکیلی پڑ گئی تھیں وہ تو شکر ہے اسفی آ گیا۔
وہ ہمارا کرایے دار ہے مگر کرایے دار سے زیادہ اس کی اہمیت گھر کے فرد کی طرح ہے۔
میں واپس نہی آنا چاہتی تھی مگر آنی چاہتی تھیں کہ میں پاکستان جاوں اور اپنے خونی رشتوں سے ملاقات کروں اور سب سے بڑھ کر وہ چاہتی ہیں کہ میں دانیال کے ساتھ خوش رہوں۔
بہت اچھا سوچا ہے اس نے تمہارے لیے بہت اچھا کیا تم نے واپس آ کر۔
تمہارے لیے روم سیٹ کروا دیا ہے جاو آرام کرو بیٹا۔
دانیال شام تک آ جائے گا اور تمہارے بڑے پاپا بھی۔
لو حبا بھی آ گئی یونیورسٹی سے۔۔۔۔وہ حبا کو آتے دیکھ بولے۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔حبا سارہ کو دیکھ کر حیرت سے بولی۔
آو حبا اپنی آپی سے ملو۔۔۔۔یہ سارہ ہے ترکی سے آئی ہے۔
سارہ؟؟؟؟
حبا سوچ میں پڑ گئی۔
سارہ بھابی۔۔۔۔وہ خوشی سے سارہ سے لپک گئی۔
ہاں بھئی یہ سارہ بھابی بھی ہے تمہاری۔۔۔دادا جان اور دادی جان دونوں کو اس طرح دیکھ بہت خوش تھے۔
میں ابھی بھائی کو کال کر کے بتاتی ہوں۔۔حبا خوشی سے اپنا فون بیگ سے نکال کر وہاں سے چل دی۔
Bhai please pick up the call.....
وہ بے چینی سے دانیال کا نمبر ڈائل کر رہی تھی مگر وہ کال اٹینڈ نہی کر رہا تھا۔
بھائی کال اٹینڈ نہی کر رہے مگر جیسے ہی انہیں پتہ چلے گا وہ فوراً گھر آ جائیں گے۔
وہ سارہ کے سامنے خوشی سے پھولے نا سما رہی تھی۔
لو آ گئے مسٹر کامران صاحب آپ کے اکلوتے دیور صاحب۔۔۔۔حبا نے دروازے کی طرف اشارہ کیا تو سب متوجہ ہوئے۔
Guess kami who is with me?
حبا خوشی سے کامران کی طرف بھاگی۔
who?
اس نے ایک نظر سارہ کو دیکھا اور لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔
سارہ بھابی۔۔۔۔۔حبا نے سارہ کی طرف اشارہ کیا۔
Ohhh my God....
وہ حیران سا سارہ کی طرف بڑھا۔
hy bhabi how are you?
میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔سارہ بہ مشکل اتنا ہی بول پائی۔
بھائی کو کال کی آپ سب نے؟
یہ نیک کام مجھے کرنا پڑے گا۔۔۔۔وہ بھی اپنا فون کان سے لگائے آگے بڑھ گیا اور حبا بھی اس کے ساتھ بھاگی۔
جاو بیٹا تم آرام کرو،یہ سب تو چلتا رہے گا۔۔/دادو کے کہنے پر سارہ بوجھل قدموں کے ساتھ ملازمہ کے ساتھ چل دی۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
یہ سب مجھے دیکھ کر اتنے خوش کیسے ہو سکتے ہیں؟
اور دانیال۔۔۔۔۔۔کیا واقعی وہ میرے آنے سے خوش ہو گا؟
کیا واقعی اس نے مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی؟
کہی ایسا تو نہی کہ یہ سب لوگ مجھے بے وقوف بنا رہے ہو اور مجھے یہاں ہمیشہ کے لیے روکنے کی پلاننگ کر رہے ہو؟
نہی ایسا نہی ہو سکتا،بس دانیال کے آنے کی دیر ہے۔
میں ڈائریکٹ اس سے خلع کی بات کروں گی،وہ دروازہ لاک کرتی ہوئی صوفے پر گر سی گئی,سفر کی تھکاوٹ سے سر درد سے پھٹ رہا تھا۔
________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔اگر آپ لوگ ناول نہی پڑھنا چاہتے تو بتا دیں،میں پوسٹ نہی کروں گی کیونکہ آپ لوگ نہ تو لائک کرتے ہیں اوع نا ہی کمنٹ😕
تو پھر میری اتنی محنے کا کیا فائدہ؟

No comments:

Post a Comment

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...