Wikipedia

Search results

Tuesday, April 14, 2020

مسافر قسط نمبر_6

مسافر
قسط نمبر_6
از
خانزادی
اگلے دن وہ تیار ہو کر صبح صبح گیٹ سے باہر جانے لگی تو گیٹ کیپر نے اسے باہر جانے سے روک دیا۔
میم آپ باہر نہی جا سکتیں۔۔۔
سارہ حیرت سے گیٹ کیپر کو دیکھنے لگی۔
کیا مطلب؟
میں باہر کیوں نہی جا سکتی؟
میم سر کا آرڈر ہے کہ آپ کو اکیلے باہر نہ جانے دیا جائے،یا تو آپ ڈرائیور کے ساتھ چلی جائیں گاڑی میں یا گھر کے کسی فرد کے ساتھ مگر اکیلی نہی جا سکتی آپ۔
سوری میم۔۔۔۔میری جاب ہے۔
وہ معزرت کرتے ہوئے نظریں جھکائے کھڑا رہا۔
کیا میں پوچھ سکتی ہوں یہ آرڈر کس نے دیا ہے آپ کو؟
سارہ غصہ ظبط کرتے ہوئے بولی۔
دانیال سر کا آرڈر ہے یہ۔۔۔۔وہ نظریں جھکائے بولا۔
اوکے۔۔۔۔۔وہ گہری سانس لیتے ہوئی واپس پلٹی،جیسے ہی وہ واپس پلٹی اس کی نظر دانیال پر پڑی۔
وہ ٹیرس کی ریلنگ پر جھکا اسے دیکھ کر مسکرایا اور ہاتھ ہلایا۔
سارہ تیزی سے اندر گئی اور تیز تیز سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی اوپر پہنچی۔
اس کا سانس پھول چکا مگر غصہ تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہی لے رہا تھا۔
یہ غلط کر رہے ہو تم میرے ساتھ۔۔۔وہ سانس بحال کرتے ہوئے بولی۔
کیا غلط کیا ہے میں نے؟
دانیال نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔
سارہ کو مزید تپ چڑھی اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہونے لگا۔
مجھے باہر جانا ہے ضروری کام سے اور تم نے گارڈ کو منع کیا ہے مجھے گھر سے باہر جانے سے۔
کیا میں پوچھ سکتی ہوں کیوں؟
ہاں کیوں نہی پوچھ سکتی ہو۔
تمہارے باہر جانے پر پابندی اس لیے لگائی تا کہ تم یہاں سے بھاگ نہ سکو۔
وہ کیا ہے ناں اگر تم یہاں سے باہر نہی جا سکو گی تو خلع کے لیے کیس بھی نہی کر سکو گی۔
بس یہی وجہ تھی،وہ کندھے اچکاتے ہوئے پھر سے ریلنگ پر جھک گیا۔
مجھے سِم چاہیے اس کے لیے باہر جا رہی تھی اور جہاں تک بات خلع کی ہے اس کی فکر تم مت کرو وہ تم خود دو گے۔
ہممم بہت بڑی غلط فہمی ہے جناب کی وہ سارہ کی طرف مسکراتے ہوئے پلٹا۔
سِم کی فکر مت کرو،اپنے کمرے میں جاو مل جائے گی۔
سارہ چند پل اسے گھورتی رہی اور پھر تیزی سے نیچے چلی گئی۔
بھابھی یہ بھائی نےبھیجی ہے آپ کے لیے۔۔کچھ دیر بعد حبا دروازہ ناک کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔
اس نے سارہ کی طرف سم بڑھائی،نا چاہتے ہوئے بھی سارہ نے وہ سِم تھام لی۔
آپ کمرے میں کیوں بیٹھی ہیں،چلیں باہر سب کے ساتھ ناشتہ کریں۔
ڈیڈ بھی آ جائیں گے دوپہر تک،وہ شہر سے باہر گئے ہیں بزنس کے سلسلے میں۔
نہی میں ٹھیک ہوں یہاں۔۔۔۔سارہ نےمعزرت کی۔
بھائی کیسے لگے آپ کو؟
حبا کے سوال پر سارہ نے اسے چونک دیکھا۔
میرا مطلب آپ دونوں کی پہلی ملاقات تھی ناں بچپن کے بعد۔
تو کیسا لگا بھائی سے مل کر میرا مطلب اپنے ہسبینڈ سے مل کر،آخری بات پر حبا مسکرائی۔
سارہ نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا۔۔دل تو چاہ رہا تھا  کہ بولے تمہارا بھائی کسی ذہر سے کم نہی۔
اچھا چلیں چھوڑیں آئیں ناشتہ کرتے ہیں۔
وہ سارہ کو بازو سے کھینچتی ہوئی ڈائیننگ ٹیبل تک لے گئی۔
سارہ سلام کرتی ہوئی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
تم کہاں چلے؟
دانیال ناشتہ درمیان میں ہی چھوڑ کر وہاں سے چل دیا۔
دانیال کی ماما اس کے ساتھ ہی کرسی سے اٹھ گئیں۔
بس ماما میری طبیعت کچھ ٹھیک نہی ہے۔
سارہ نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہی کیا وہ چپ چاپ ناشتہ کرنے لگی۔
کیا ہوا ہے طبیعت کو،وہ بیٹے کا ماتھا چھو کر بولیں۔
کچھ نہی ماما میں ٹھیک ہوں۔۔۔وہ تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔
سارہ کو کچھ عجیب سا احساس ہوا،کچھ تھا جو وہ سمجھ نہی پائی۔
کیا ہوا سارہ کھاو ناں بیٹا رک کیوں گئی؟
دادو نے اسے ٹوکا تو وہ چونک سی گئی۔
کچھ نہی دادو جان۔۔۔وہ پھر سے کھانا کھانے میں مصروف ہو گئی۔
دانیال کی ماما پھر سے اپنی سیٹ پر آ گئیں اور سارہ کو گھورنے لگیں۔
اس لڑکی کی وجہ سے میرے بیٹے کو ناشتہ ادھورا چھوڑ کہ جانا پڑا۔
زرا خوش نہی ہے وہ اس کے ساتھ مگر ابا جان زبردستی رشتہ جوڑے بیٹھے ہیں۔
لگتا ہے بھائی شرما گئے ہیں بھابی سے،کامران بولا تو سب مسکرا دیے۔
شٹ اپ کامی۔۔۔۔بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو کس کے بارے میں بات کر رہے ہو۔
مسز ذیشان تپ گئیں۔
ماما میں تو مزاق کر رہا تھا۔
بس۔۔۔۔مزاق کی بھی حد ہوتی ہے،وہ غصے میں وہاں سے چلی گئیں۔
چھوڑو عادت ہے تمہاری ماں کی،دادو بولیں تو سب مسکرا دیے۔
تو بھابھی آپ کہاں جانا پسند کریں گی؟
سارہ سوچ میں پڑ گئی کامران کی بات پر۔
حبا نے اس کے سر پر چت لگائی۔
تم نہ سدھرنا کامی،پوری بات تو بولا کرو۔
بھابھی اس کے کہنے کا مطلب ہے آپ بہت عرصے بعد پاکستان آئی ہیں اور آپ اس وقت پاکستان کے سب سے خوبصورت شہر لاہور میں موجود ہیں۔
تو لاہور کے خوبصورت مقامات کی سیر پر چلیں گی ہمارے ساتھ؟
ضرور۔۔۔مگر ایک بار آپ اپنے بھائی سے بھی پوچھ لیں تو بہتر ہو گا،کیا پتہ وہ مجھے جانے کی اجازت دیں یا نہی۔
کیوں'دانی ایسا کیوں کرے گا؟
دادا جان آپ ان سے پوچھ لیں کیونکہ انہوں نے میرے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
اس کی اتنی مجال۔۔۔میں ابھی پوچھتا ہوں۔
جی ضرور۔۔۔ایکسکیوزمی۔
مجھے آنی سے بات کرنی ہے پھر واپس آتی ہوں۔
وہ ہاتھ صاف کرتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گٙی۔
سم آن کی اور اسفی کا نمبر ڈائل کیا۔
اسلام و علیکم۔۔۔اسفی میں سارہ۔
وعلیکم اسلام۔۔۔ہاں میں نے پہچان لی تمہاری آواز۔
مہوش نے بتا دیا تھا مجھے کہ تم خیریت سے اپنے گھر پہنچ چکی ہو۔
میں تمہاری کال کا ہی انتظار کر رہا تھا۔
ہاں وہ ابھی سم ملی مجھے۔
تم جانتے ہو دانیال کیسا سلوک کر رہا ہے میرے ساتھ؟
اس نے میرے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔
اور وہ تمہارے بارے میں بھی سب جانتا ہے،بہت بدگمان ہے وہ مجھ سے۔۔۔سے لگتا ہے میں تم سے شادی کرنے کے لیے اس سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔
اسفی پلیز کچھ کرو۔۔۔مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔
میں یہاں قیدی بن کر نہی رہ سکتی۔
تم پاکستان آ جاو اور دانیال کے اس وہم کو یقین میں بدل ڈالو۔
میں ایسے انسان کے ساتھ ہرگز زندگی نہی گزار سکتی جسے اپنی بیوی پر یقین تک نہ ہو۔
تم جتنی جلدی ہو سکے پاکستان آو۔
آنی کے پاس تانیہ کو چھوڑ دو وہ سب سنبھال لے گی۔
ٹھیک ہے سارہ میں سوچتا ہوں اس بارے میں،لیکن تب تک تم ہمت مت ہارنا۔
تمہیں مظبوط بننا ہو گا۔
ہاں میں کوشش کر رہی ہوں اسفی مگر۔۔۔۔مجھے رشتوں کی بے رخی سہنے کی عادت نہی ہے۔
مجھے اپنے رشتوں سے ہمیشہ پیار ہی ملا ہے،میں عادی ہی نہی ہوں نفرت سہنےکی۔
مجھے لگتا تھا شاید میں دانیال کے بارے میں غلط سوچتی ہوں اور ہو سکتا ہے اس نے مجھے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی ہو گی۔
شاید وہ مجھے سامنے دیکھ کر خوش ہو گا۔
جو بھی ہو آخر ہمارے درمیان ایک پاک رشتہ ہے مگر میں غلط تھی۔
اس نے میرے سارے وہم کلئیر کر دیے۔
اس نے مجھے ڈھونڈنے کی کوشش تو کی تھی اور مجھ تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہو گیا تھا مگر زرا سی غلط فہمی کی وجہ سے بدگمانیاں لیے واپس آ گیا۔
اسے چاہیے تھا کہ وہ مجھ سے مل کر بات کرتا۔میرے دل میں کیا ہے جاننے کی کوشش کرتا۔
مگر نہی!
اس نے کبھی پلٹ کر دیکھا ہی نہی اور آج جب میں اس کے سامنے ہوں تب بھی وہ اسی انجان راستے کا مسافر بنا ہوا ہے جس کی کوئی منزل ہی نہی ہے۔
باقی سب کا رویہ کیسا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔اسفی نے بات بدلی کیونکہ وہ سارہ کے خاموش آنسووں کی آواز سن سکتا تھا۔
ہممم باقی سب کا سلوک بہت اچھا ہے سوائے بڑی ماما اور دانیال کے۔
اور دانیال سے تو میں اب کوئی امید بھی نہی رکھنا چاہتی۔
جتنی جلدی ہو سکے تم یہاں آ جاو۔
مجھے ترکی واپس جانا ہے اپنے محبت اور خلوص بھرے رشتوں کے پاس۔
ٹھیک ہے تم۔پریشان نہ ہو میں کچھ کرتا ہوں۔
ہممم۔۔۔خدا حافظ
سارہ نے کال ڈسکنیکٹ کر دی۔
اب کیا کروں میں؟
کیا سارا دن یونہی کمرے میں بیٹھی رہوں گی۔
اچھی بھلی زندگی چل رہی تھی بہت بڑی غلطی کر دی میں نے یہاں آ کر۔
سہی کہا بہت بڑی غلطی کر دی تم نے یہاں آ کر۔۔۔اس آواز پر وہ کھڑکی سے واپس پلٹی اور ساکت رہ گئی۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔کیا خیال ہے کون آیا سارا کے کمرے میں؟

No comments:

Post a Comment

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...