Wikipedia

Search results

Friday, April 17, 2020

مسافر قسط نمبر_12


مسافر
قسط نمبر_12
از
خانزادی
سارہ میری بچی میری زندگی کا کیا بھروسہ ہے,آج ہوں کل نہی۔
تم دانیال کے لیے اپنے دل سے بدگمانیاں ختم کر دو۔
وہ تمہاری خاطر یہاں تک آیا ہے اب اور بدلے لینا بند کر دو اس سے,ماضی میں جو کچھ ہوا اس میں وہ قصور وار نہی ہے۔
جو زیادتیاں تمہارے ساتھ ہوٸیں ہیں اس کے لیے اسے زمہ دار مت ٹہراو۔
اگر اسے واقعی تمہاری پرواہ نہ ہوتی تو یہاں دھکے نا کھا رہا ہوتا۔
لاکھوں کی جاٸیداد کا وارث ہوتے ہوٸے بھی تمہارے ریسٹورنٹ میں معمولی سی جاب کر رہا تھا اور وہ ہمارا سہارا اس وقت بنا جب ہم دونوں تنہا رہ گٸیں تھیں۔
آنی آپ چاہت ہیں کہ میں اس کے اس احسان کے بدلے اپنی پوری زندگی اس کے نام کر دوں؟
غلام بن جاوں اس کی؟
نہی سارہ وہ تمہیں غلام نہی ملکہ بناناچاہتا ہے اپنی۔
آنی آپ آرام کریں ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے,وہ وارڈ سے باہر چلی گٸی۔
کیا ہوا سب خیریت؟
دانیال سارہ کو آتے دیکھ اس کی طرف بڑھا۔
تمہارے ہوتے ہوٸے خیریت ہو سکتی ہے بھلا۔۔۔وہ بے بسی سے بینچ پر بیٹھی آنسو بہانے لگی۔
دانیال وارڈ میں چلا گیا۔
Feling better?
وہ آنی کے ہاتھ آنکھوں سے لگاٸے بولا
ہممم انہوں نے سر ہاں میں ہلایا۔
بہت ضدی ہے یہ لڑکی کوٸی بات سمجھنے کو تیار نہی ہے۔
کوٸی بات نہی آنی آپ فکر مت کریں,جلد سمجھ جاٸے گی۔
بس آپ جلدی سے ٹھیک ہو جاٸیں پھر دونوں مل کر سمجھاٸیں گے اسے۔
ایک وعدہ کرو مجھ سے دانیال چاہے کچھ بھی ہو جاٸے تم سارہ کا۔
Don't worry aniii
میں ہمیشہ آپ دونوں کے ساتھ ہوں۔
آپ جلدی ٹھیک ہو جائیں پھر گھر چلیں ہم,دانیال ان کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگائے باہر چلا گیا۔
کھانا کھایا تم نے؟
دانیال کی آواز پر سارہ نے سر اٹھا کر دانیال کی طرف دیکھا۔
ان حالات میں تمہیں کھانے کی پڑی ہے،سارہ تپ گئی۔
مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھانے جا رہا تھا سوچا تم سے بھی پوچھ لوں،تم تو پوچھو گی نہی کبھی مجھ سے۔
امید بھی مت رکھنا مجھ سے۔۔۔۔
میں کھانا کھا چکی ہوں تمہیں کھانا ہے تو کھا  لو مگر مجھے کچھ دیر سکون سے بیٹھنے دو پلیز۔۔۔
As you wish....
وہ کندھے اچکائے وہاں سے چل دیا۔
یہ کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں میں؟
آنی کو بھی اپنے طرف کر لیا ہے اس نے
۔
میرا آنی کے سوا اور کوئی نہی ہے اور دانیال نے میری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا ہے۔
آنی ٹھیک ہو کر گھر آ جائیں ایک بار میں اسے ایک منٹ برداشت نہی کروں گی اسے یہاں۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ دانیال نے اس کی طرف کافی کا کپ بڑھایا۔
بدلے میں سارہ نے اسے گھورا۔
جانتا تھا تم نہی پئیو گی اسی لیے ایک ہی لایا ہوں وہ ہاتھ واپس کھینچتے ہوئے بینچ پر بیٹھ گیا۔
تم نے پھر سے حجاب پہن لیا جبکہ تم ڈوپٹہ اوڑھ کر زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔
مجھے کوئی شوق نہی ہے دنیا کو اپنی خوبصورتی دکھانے کا۔۔۔وہ بے رخی سے جواب دے کر فون پر مصروف ہو گئی۔
ہممم اچھی سوچ ہے مگر بیوی کو شوہر کی پسند نا پسند کا خیال رکھنا چاہیے۔
بیوی کو ویسا لباس پہننا چاہیے جو اس کے شوہر کو پسند ہو۔
بشرطیکہ وہ شوہر بھی بیوی کو پسند ہو،بنا کوئی لحاظ کیے وہ جواب دے گئی۔
اس سے پہلے کہ دانیال کچھ کہتا اس کے فون کی رنگ ٹون بجی۔
ڈیڈ کی کال۔۔۔کال اٹینڈ کرتے ہوئے فون کان سے لگا لیا۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔جی ڈید
جی یہاں سب ٹھیک ہے اب آنی کی طبیعت بہت بہتر ہے اب پہلے سے۔
جی سارہ کے ساتھ ہی ہوں میں۔
جی یہ لیں کر لیں بات اس سے,اسنے فون سارہ کیطرف بڑھا دیا۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔
جی بڑے پاپا میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟
جی آنی ٹھیک ہیں اب پہلے سے الحمدللہ۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔۔
بس اتنا بول کر سارہ نے فون دانیال کی طرف بڑھا دیا۔
I can't believe .....
بڑے پاپا بھی شامل تھے اس سب معاملے میں۔
ہاں تو؟؟؟
ڈیڈ نے بہت سپورٹ کیا ہے مجھے،آج اگر میں تمہارے ساتھ ہوں تو ڈیڈ کی وجہ سے۔
کاش تم میرے ساتھ نہ ہی ہوتے۔
You know???
زہر لگ رہے ہو مجھے۔۔۔نفرت ہو رہی ہے تمہارے چہرے سے۔
بہتر یہی ہو گا کہ یہاں سے اٹھ کر کہی اور چلے جاو۔
دانیال نے ایک گہری سانس لی اور وہاں سے چلا گیا۔

باقی اگلی قسط میں۔۔۔امید ہے اب تک کی کہانی پسند آئی ہو گی آپ سب کو۔۔۔۔میرے بلاگ کو سسکرائب اور فالو کر دیں شکریہ


9 comments:

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...