Wikipedia

Search results

Wednesday, April 15, 2020

مسافر قسط نمبر_11


مسافر
قسط نمبر_11
از
خانزادی

کیا؟؟؟؟؟
اسفند بھنویں سکوڑتے ہوئے بولا۔
تم سفر سے تھک گئی ہو آرام کرو میں ہاسپٹل جا رہا ہوں وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا۔
بھاگ کیوں رہے ہو؟
سارہ کی آواز پر اس کے قدم رک گئے اور وہ واپس پلٹا۔
بس کر دو اب یہ ڈرامے بازی دانیال!
بہت بے وقوف بنا لیا تم نے مجھے اور آنی کو مگر اب اور نہی۔۔۔۔
شاید مجھے کبھی پتہ نا چلتا۔۔۔۔مگر شکریہ حبا کا جس کی وجہ سے تمہاری سچائی سامنے آ گئی۔
بڑے پاپا کے فون سے میں نے ڈائل تو نمبر اسفند کا کیا تھا مگر نام دانیال کا آ گیا۔
پہلے تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہ آیا کیونکہ اس وقت میں پریشان تھی مگر زیادہ وقت نہی لگا مجھے سچ کو سمجھنے میں۔
واوووو کیا کھیل کھیلا ہے تم نے ہمارے ساتھ۔
سارہ کی ساری بات وہ چپ چاپ سن رہا تھا ایک حہری سانس لیتے ہوئے آگے بڑھا۔
ہاں یہ سچ ہے سارہ۔
"میں اسفند نہی دانیال ہوں"
تم کھانا کھا کر آرام کرو ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے ابھی مجھے ہاسپٹل جانا ہے آنی اکیلی ہیں وہاں۔
بعد میں نہی ابھی!
سارہ اس کا راستے میں آ رکی۔
کیوں کیا تم نے یہ سب؟
اور وہ کون تھا گھر پر جو دانیال بن کر میرے سامنے آیا؟
wait wait....
اس دن ڈائینگ ٹیبل پر بھی تم تھے جب میرے آتے ہی تم وہاں سے اٹھ گئے؟
ہاں سارہ میں ہی تھا وہ مجھے ڈر تھا کہ تم مجھے دیکھ نہ لو۔
دراصل جو دانیال تھا وہاں وہ اسفند ہے میرا دوست۔۔۔یہی ہوتا ہے ترکی میں،خوامخواہ تم نے اس بیچارے کو تھپڑ رسید کر دیا۔
تمہیں اس کے تھپڑ کی زیادہ پرواہ ہے اور جو تم نے میرے ساتھ کیا اس پر کوئی شرمندگی نہی تمہیں؟
کیسی شرمندگی سارہ؟
میں نے جو کچھ کیا تمہارے بھلے کے لیے کیا۔
نہی تم نے میرے بھلے کے لیے نہی کیا!
تم نے اپنا فائدہ سوچا بس۔۔۔تم نے مجھے پاکستان جانے پر اکسایا اور بولا کہ میں تم سے خلع مانگوں،مطلب تم گھر والوں کے سامنے میری تزلیل کروانا چاہتے تھے اور خود نیک نام بن کر رہنا چاہتے تھے۔
کہہ دو کہ یہ سب جھوٹ ہے اور میں کوئی برا خواب دیکھ رہی ہوں وہ سر تھامے صوفے پر بیٹھ کر آنسو بہانے لگی۔
دانیال اس کی طرف بڑھا اور گھٹنوں کے بل اس کے سامنے فرش پر بیٹھ گیا۔
سارہ کے ہاتھ چہرے سے ہٹا کر آنسو پونچھے اور اد کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔
نہی سارہ یہ خواب نہی حقیقت ہے۔۔۔۔تم مجھے غلط مت سمجھو۔
میں نے جو کچھ بھی کیا ہم دونوں کے بھلے کے لیے ہی کیا۔
سوچو اگر میں دانیال بن کر تمہارے سامنے آتا تو کیا تم مجھے ایک منٹ کے لیے بھی اس گھر میں برداشت کرتی؟
تم کسی بھی صورت پاکستان جانے پر راضی نہی تھی تو مجھے تمہیں خلاع کا کہنا پڑا۔
میں بس یہ چاہتا تھا کہ تم ایک بار پاکستان چلی جاو،وہاں جا کر دیکھو سب کتنا پیار کرتے ہیں تم سے۔
اور میں۔۔۔۔میں نے کہاں کہاں نہی ڈھونڈا تمہیں،میں تمہیں کھونا نہی چاہتا تھا اس لیے مجھے جھوٹ بولنا پڑا۔
یہ بھی جھوٹ؟
سارہ نے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے۔
مجھے اب اعتبار ہی نہی رہا تم پر۔۔۔تم نے دوستی جیسے رشتے کو چکنا چور کر دیا۔
کاش تم دانیال بن کر اس گھر میں آتے کم ازکم تم سے کوئی امید تو نہ لگاتی میں۔
ایک بار آنی گھر آ جائیں پھر تم یہاں سے جا سکتے ہو،خلع دو یا نہ دو اس بات سے مجھے کوئی فرق نہی پڑتا۔
ابھی تم غصے میں ہو اور غصے میں انسان کا دماغ ماوف ہو جاتا ہے بعد میں سوچنا اس بارے میں دانیال گہری سانس لیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ کچھ دیر آنسو بہاتی رہی اور پھر الماری سے کپڑے نکال کر فریش ہونے چلی گئی۔
دانیال ہاسپٹل میں آنی کے حوش میں آنے کا انتظار کرتا رہا۔
چند گھنٹے بعد ان کو حوش آ ہی گیا۔
وہ جیسے ہی ان سے ملنے گیا وہ سارہ کو پکارنے لگیں۔
آنی میں ہوں ناں آپ کے پاس،سارہ کو کال کرتا ہوں وہ ابھی آ جائے گی۔
اس نے جلدی سے فون آن کیا اور سِم ایکسچینج کرنے کے بعد سارہ کو میسیج کیا کیونکہ وہ جانتا تھا وہ اس کی کال اٹینڈ نہی کرے گی۔
آنی آپ ٹھیک ہو جائیں گی انشا اللہ۔
سارہ ابھی آ جائے گی کچھ دیر میں آپ آرام کریں۔
وہ پاکستان سے کب آئی؟
وہ لڑکھڑاتی سی آواز میں بہ مشکل بولیں۔
آج ہی آئی ہے،آپ زیادہ مت بولیں پلیز۔
دس منٹ بعد سارہ وہاں آ گئی اور آنی کو اس حالت میں دیکھ کر آنسو بہانے لگی۔
آنی یہ سب کیا ہو گیا؟
آپ کو کیا ضرورت تھی ریسٹورنٹ جانے کی،اسفی تھا ناں یہاں وہ سنبھال لیتا سب۔۔۔بے خیالی میں اس کے منہ سے اسفند کا نام نکل گیا۔
دانیال کمرے سے باہر چلا گیا۔
کچھ نہی ہوتا میری جان میں ٹھیک ہوں،تم فکر مت کرو۔
تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی مگر وعدہ کرو میری بات پوری سنے بغیر یہاں سے نہی جاو گی۔
جی آنی بتائیں آپ۔
دراصل یہ جو اسفی ہے ناں یہ اسفی نہی "دانیال ہے تمہارا شوہر"
آنی آپ جانتی تھیں؟؟؟
سارہ حیرت زدہ سی بولی۔
ہاں مجھے پتہ تھا اور وہ یہ سب میرے کہنے پر ہی کر رہا تھا۔
آنی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟
ہاں بلکل سچ کہہ رہی ہوں میں۔۔۔جب تمہاری ماں کی وفات ہوئی تو میں نے پاکستان کال کی اطلاع دینا میرا فرض تھا۔
خوش قسمتی سے وہ کال دانیال نے اٹینڈ کی۔
ایک طرف وہ خوش تھا اور دوسری طرف اپنی چچی کی موت کی خبر سن کر دکھی ہو گیا۔
خوشی اس بات کی تھی کہ وہ تم دونوں تک پہنچ گیا۔
اس نے بہت سال تم دونوں کی ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی سب بتایا اس نے مجھے،پھر اس نے مجھ دے کہا کہ تم سے ملنا چاہتا ہے۔
مگر میں نے منع کر دیا کیونکہ تمہاری ضد میں جانتی تھی تم ایک منٹ نہ برداشت کرتی اسے اپنے سامنے۔
ایک ماہ بعد اسے ترکی بلایا میں نے دانیال بن کر نہی بلکہ اسفند بن کر۔
کرایہ دار کے بہانے اسے اپنے گھر رہنے دیا اور پھر اسے ریسٹورنٹ میں جاب دی تا کہ وہ تمہارے قریب رہ سکے تم اسے جان سکو اور وہ تمہیں۔
مگر تم صدا کی ضدی تم نے بات آگے بڑھنے ہی نہی دی۔
میں چاہتی تھی کہ جب تم دونوں کی اچھی دوستی ہو جائے تو دانیال تمہیں سچ بتا دے مگر تم ہمیشہ اسے پرایا بول دیتی تھی تو مجبوراً تمہیں پاکستان بھیجنے کا سوچا ہم نے۔
دانیال چاہتا تھا کہ وہاں جا کر تمہیں سچ بتا دے گا۔
آنی اس نے ہم دونوں کے ساتھ دھوکا کیا ہے وہ یہ سچائی کبھی نہی بتانے والا تھا مجھے۔
تم غلط سوچ رہی ہو سارہ وہ ایک سچا انسان ہے۔
جب میری دانیال سے پہلی ملاقات ہوئی اس دن مجھے فخر محسوس ہوا تمہارے بابا کی چوائس پر۔
بہت محبت کرتا ہے تم سے۔۔۔ہمیشہ خوش رکھے گا۔
میری زندگی کا کچھ بھروسہ نہی میں چاہتی ہوں تم اس کی طرف سے اپنا دل صاف رکھو۔
پلیز آنی ایسی باتیں مت کریں آپ،مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔

43 comments:

  1. nhat zabardast yar
    sara ab bhi us per trust ni kary gi
    us ko apni ana bhat payari hai
    abhi damyal ko bhat kuch bardash karna hai

    ReplyDelete
  2. Amazed yani keh daniyal acha banda h or us ne ye sab Ani ke kehne per kia ..

    ReplyDelete
  3. Bht h ala sis daniyal h asfand mind blowing 😍😍😍😍😍😍😍😍😍

    ReplyDelete
  4. Bht achi episode ha💖💖💖❤️

    ReplyDelete
  5. Fantastic... Hamesha Ki tarh superb alwaa

    ReplyDelete

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...