Wikipedia

Search results

Tuesday, April 14, 2020

مسافر قسط نمبر_9

مسافر
قسط نمبر_9
از
خانزادی

میری بات ہو گئی ہے حبا سے بھابی ہم امپوریم مال چلیں گے لنچ کے بعد۔۔۔کامران اچانک وہاں آیا تو سارہ چونک گئی۔
ہممم ٹھیک ہے۔۔بے دلی سے جواب دے کر وہ اندر چلی گئی۔
دادو آ جائیں لنچ تیار ہے،کامران ان دونوں کو ساتھ لیے اندر چل دیا۔
بھابی آ جائیں لنچ کر لیں۔۔۔سارہ ابھی کمرے میں آئی ہی تھی کہ کامران دروازہ ناک کرتے ہوئے بولا اور واپس پلٹ گیا۔
سارہ نے سب کے ساتھ لنچ کیا اور پھر تیار ہونے چلی گئی۔
کچھ دیر بعد وہ تیار ہو کر نیچے آئی تو کامران اور حبا اسی کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
سب کو خدا حافظ بول کر وہ تینوں باہر چلے گئے۔
وہ چپ چاپ گاڑی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھی۔
یہاں کی بھیڑ بھاڑ اور راستے میں لوگوں کی نوک جونک سارہ بہت انجوائے کر رہی تھی۔
________________________________________
میری ایک بات غور سے سن لیں آپ!
میں اس لڑکی کو اب مزید برداشت نہی کروں گی،ان تینوں کے جاتے ہی زلیخا کی بخث شروع ہو گئی۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟
دانیال کے بابا غصے سے بولے۔
مطلب یہ ہے کہ میں اپنے بیٹے کی زندگی برباد نہی ہونے دوں گی۔
اس لڑکی سے بولیں جہاں سے آئی ہے وہی واپس چلی جائے۔
یہ فیصلہ کرنے والی تم کون ہوتی ہو؟
اماں جی بولے بنا نہ رہ سکیں۔
اس کی وراثت ہے اس گھر میں،دانیال کے نکاح میں آنے سے پہلے وہ اس گھر کی بیٹی ہے۔
اس کے وارث ابھی زندہ ہیں تم اس کی فکر مت کرو۔
خبردار جو آئیندہ سارہ کے خلاف کوئی بات کی تو اچھا نہی ہو گا تمہارے لیے۔
اماں جی آپ خود کو ہائپر مت کریں میں بات کرتا ہوں۔
زلیخا آخر تمہیں مسئلہ کیا ہے بچی سے؟
ابھی اسے یہاں آیا ہفتہ بھی نہی ہوا اور تم اس سے حسد کرنا شروع ہو گئی۔
حسد؟
حسد وہ بھی اس دو ٹکے کی لڑکی سے جس کی ماں ساری زندگی ویٹرس کی نوکری کرتی رہی ہے اور وہ خود بھی تو یہی کرتی ہے اس کا کیا مقابلہ ہے مجھ سے؟
زلیخا دراصل غلطی تمہاری نہی ہے تمہاری سوچ ہی غلط ہے۔
جسے تم ویٹرس کا درجہ دے رہی ہو ناں،دراصل وہ ترکی کے ایک مشہور ہوٹل کی اکلوتی مالکن ہے اس کی ایک مہینے کی انکم لاکھوں میں ہے اور اسے تم کم تر سمجھ رہی ہو۔
افسوس ہے مجھے تمہاری سوچ پر اگر تم اسے بیٹی کی نظر سے دیکھتی تو کبھی ایسا ناں بولتی۔
تو کیا ہوا وپ ریسٹورنٹ بھی تمہارء بھائی نے خریدا ہو گا اس میں کونسی بڑی بات ہے؟
یہ کوئی جواز نہی کہ وہ کتنا کماتی ہے،میں بس یہ چاہتی ہوں کہ وہ یہاں سے واپس چلی جائے۔
دانیال اس میں انٹرسٹڈ ہی نہی ہے تو کیا فائدہ اس کے یہاں رکنے کا۔
کس نے کہا تم سے کہ دانیال اس میں انٹرسٹڈ نہی ہے؟
کیا دانیال نے تم سے کہا؟
وہ کہے یا ناں کہے میں سب سمجھتی ہوں۔
میرا معصوم بچہ مجبور ہے اس رشتے کو نبھانے پر آپ سب کے دباو میں ہے وہ۔
دانی کوئی دودھ پیتا بچہ نہی ہے زلیخا!
اگر اسے سارہ سے کوئی مسئلہ ہوا تو ہم جانیں اور وہ جانے،تم اس معاملے سے دور ہی رہو تو بہتر ہو گا۔۔۔اماں جی غصے سے چلائیں۔
ایک بار دانی واپس آ جائے پھر ہم خود بات کر لیں گے اس سے،تم فکر نہ کرو۔
زلیخا غصے میں وہاں سے چلی گئی۔
تینوں پریشان سے بیٹھ رہے۔
________________________________________
کامران گاڑی پارک کر رہا تھا کہ تب ہی حبا کا فون بجا۔
دانی بھائی کی کال ہے وہ سارہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔
جی بھائی۔۔۔اس نے کال پک کر کے فون کان سے لگایا۔
اوکے بھائی۔۔۔۔خدا حافظ۔
بھابی آپ کا فون کیوں بند جا رہا ہے؟بھائی کہہ رہے ہیں وہ کب سے آپ کو کال کر رہے ہیں۔
ہاں وہ چارج نہی ہے شاید۔۔۔سارہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
ہممم کوئی بات نہی میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں۔
چلیں۔۔۔؟
وہ ابھی باتیں کر ہی رہی تھی کہ کامران وہاں آ گیا اور تینوں مال کی طرف بڑھ گئے۔
اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔حبا کی نظر برائیڈل ڈریس پے پڑی۔
واووو بھابی کتنا خوبصورت ڈریس ہے،آپ پر بہت سوٹ کرے گا۔
نہی حبا میں اتنے ہیوی ڈریسز نہی پہنتی۔
I know..
آپ جینز اور ٹاپس پہنتی ہیں مگر شادی پر تو ہیوی ڈریس ہی پہننا پڑے گا آپ کو۔
کس کی شادی؟
سارہ ڈریس کو چھوتے ہوئے بولی۔
اوہو بھابی آپ کی شادی اور کس کی۔
میری شادی؟؟؟؟
سارہ حیرت زدہ انداز میں بولی۔
Ofcource...
آپ کی اور دانی بھائی کی شادی۔۔۔بس نکاح ہوا تھا آپ دونوں کا رخصتی تو ابھی باقی ہے۔
آپ کا دلہن بننا باقی ہے ابھی اور مجھے اپنے بھائی کے سر پے سہرا بھی تو سجانا ہے۔
میری خواہش ہے کہ وہ دن جلدی آئے۔۔۔۔
اور میری خواہش ہے کہ وہ دن کبھی نا آئے۔۔۔سارہ دل ہی دل میں جلتی ہوئی سوچ میں پڑ گئی۔
تو پھر پیک کروا لوں یہ ڈریس؟
حبا کے سوال پر وہ مسکرا دی۔
چلو یہاں سے مجھے ابھی شادی کی کوئی جلدی نہی ہے مِس حبا وہ حبا کو کان سے کھینچ کر شاپ سے باہر لے گئی جس پر کامران نے قہقہ لگایا۔
ویری گڈ بھابی یہ ایسے ہی سہی ہو گی۔
تمہیں تو میں دیکھ لوں گی بعد میں کامی کے بچے۔۔۔۔حبا نے کامران کو گھورا۔
میرے بچے فلحال تو نہی ہیں جب ہو گے تب دیکھ لینا۔۔۔کامی نے مزید قہقہ لگایا۔
سارہ بھی مسکرا دی۔
چلیں بھابی شادی کا ڈریس تو آپ نے خریدا نہی یہ ہی خرید لیں بہت خوبصورت ڈریسز ہیں لائٹ ویٹ۔
نہی میں نے کبھی ایسے کپڑے پہنے ہی نہی،سارہ نے سر نفی میں ہلایا۔
پہلے آپ پاکستان بھی تو نہی آئی کبھک مگر اب آپ کو پکی پاکستانی بننا ہے اور یہ ڈریس ہی پہننے پڑیں گے۔
آپ سلیکٹ کریں۔
I have no idea..
ٹھیک ہے میں سلیکٹ کر دیتی ہوں مگر آپ کو پہننے پڑیں گے بہت سوٹ کریں گے آپ پر۔
اوکے۔۔۔سارہ نے فقط مسکرانے پر اکتفا کیا۔
تینوں نے خوب شاپنگ کی اور آئسکریم کھا کر واپسی کے لیے چل دیے۔
کامی پلیز واپسی پر ریس کورس بھی لے جاو۔
اوکے۔۔۔کامی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
کیا ہم ریس دیکھنے جائیں گے؟
نہی نہی مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔سارہ نے معصومیت سے جواب دیا۔
نہی بھابی اس ٹائم ریس نہی ہوتی وہاں اور ریس کے لیے ایک الگ استنبول ہے وہاں۔
دراصل یہ ایک پارک ہے اور اس پارک کا اصل نام جیلانی پارک ہے۔
ان دنوں فیسٹیولز ہو رہے ہیں تو مزہ آئے گا۔
ہممم اوکے،سارہ نے مختصر جواب دیا۔ریس کورس پہنچ کر حبا نے پھر سے شاپنگ کی،گول کپے کھائے اور مکڈونلڈ سے ڈنر کرنے کے بعد گھر واپس آ گئے۔
بھابی میں آپ کے سارے ڈریسز صبح الماری میں سیٹ کروا دوں گی آپ ابھی آرام کر لیں بہت تھک گئی ہوں میں تو۔
سارہ نے اپنا فون آن کیا اور آنی کا نمبر ڈائل کیا مگر وہ کال پک نہی کر رہی تھیں۔
شاید بزی ہو گی صبح کال کرتی ہوں۔

________________________________________
باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...