Wikipedia

Search results

Monday, April 13, 2020

مسافر قسط نمبر_3

مسافر
قسط نمبر_3
از
خانزادی
کب ختم ہو گا یہ سفر؟
سارہ بے دلی سے سفر طے کر رہی تھی۔
پتہ نہی کیسا رویہ ہو سب کا اور کیا پتہ وہ مجھے گھر میں رہنے کی اجازت دیں گے بھی یا نہی؟
میں بھی کیا سوچ رہی ہوں،میں کونسا وہاں رہنے کے لیے جا رہی ہوں۔
جاتے ہی اپنے آنے کا مقصد بیان کر دوں گی اور دانیال سے خلع لے کر واپس آ جاوں گی۔
وہ خود سے ہی سوال کر رہی تھی اور خود ہی اپنے سوالات کے جواب دے رہی تھی۔
عجیب سی کشمکش میں تھی وہ جیسے کوئی طالب علم امتحان سے پہلے پریشان ہو کہ نا جانے کون کون سا سوال پوچھ لیا جائے۔
اس وقت سارہ کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔
آخر کار کئی گھنٹے انتظار کے بعد فلائٹ لینڈ ہوئی۔
وہ ائیر پورٹ سے باہر آئی تو ویٹنگ ائیریا میں ایک لڑکی کو اپنے نام کا بورڈ اٹھائے دیکھا۔
وہ اس کی طرف بڑھی۔
I am sarah....
سارہ کی آواز پر وہ لڑکی اس کی طرف متوجہ ہوئی اور ببل گم کا پٹاخہ مارتے ہوئے سر تا پاوں سارہ کو دیکھا۔
Oh my my......
تو تم ہو سارہ؟
جی۔۔۔ سارہ کو اس کا رویہ کچھ عجیب سا لگا۔
وہ جینز اور شرٹ میں ملبوس تھی اور لمبے بال کندھے پر گرائے آنکھوں پر سن گلاسز لگائے کھڑی تھی۔
آ جاو یار کب سے انتظار کر رہی ہوں تمہارا۔
وہ آگے بڑھ کر سارہ کے گلے لگ گئی۔
سارہ تو حیران ہی رہ گئی۔
میں مہوش۔۔۔اسفی کی کزن۔
Nice to meet you...
سارہ نا چاہتے ہوئے بھی مسکرائی۔
Welcome To pakistan....
وہ دونوں بازو لہراتے ہوئے بولی اور پارکنگ کی طرف چل دی۔
سارہ بھی اس کے پیچھے چل دی،وہ حیران تھی مہوش کا لباس دیکھ کر۔
اس نے ایک نظر خود کو گاڑی کے مرر میں دیکھا اور اپنا حجاب درست کرنے لگی۔
لاو میں تمہارا بیگ رکھ دیتی ہوں اس نے سارہ کے ہاتھ ست بیگ کھینچ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر پھینکا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
سارہ کو اس کی یہ حرکت بلکل نا بھائی وہ سیٹ پر بیٹھ گئی مگر اس کا دھیان پچھلی سیٹ پر گرے اپنے بیگ پر ہی تھا۔
chilll yarrrrr.....
کچھ نہی ہوتا تمہارے بیگ کو۔
ویسے ہمیں جانا کہاں ہے،اس نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔
او ہاں ہاں یاد آیا اسفی نے ایڈریس سینڈ کر دیا تھا مجھے۔
Dont worry....
ایگ گھنٹے میں پہنچا دوں گی تمہیں۔۔۔۔۔
اس کے بعد اس نے گاڑی میں تیز آواز میں میوزک چلا دیا۔
سارہ کو عجیب سی وحشت ہونے لگی اس نے اپنی سائیڈ سے مرر ڈاون کیا اور باہر دیکھنے لگی۔
ہر طرف سبزہ تھا بہت پیارے پھول لگے ہوئے تھے،یہ منظر سارہ کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔
کیسا لگا تمہیں ہمارا پاکستان؟
سارہ کو باہر متوجہ دیکھ کر مہوش نے میوزک بند کر دیا اور اس سے سوال کیا۔
ابھی اتنی جلدی میں کوئی رائے نہی دے سکتی۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔اچھا جواب ہے۔۔۔مہوش مسکراتے ہوئے بولی۔
ویسے میں نے سنا ہے ترکی میں لڑکے بہت ہینڈسم ہوتے ہیں؟
پتہ نہی میری کبھی کسی لڑکے سے ملاقات نہی ہوئی،سارہ کو مہوش کا یہ سوال بھی عجیب لگا۔
کیوں اسفی کو تو جانتی ہو تم'اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
اسفی پاکستانی ہے ترکش نہی۔۔۔۔
اور ہم بس اچھے دوست ہیں اس سے زیادہ کچھ نہی۔
And for your kind information....I am married.
اور یہاں میں اپنے ہسبینڈ اور فیملی کے پاس آئی ہوں۔
کیوں آپ کے ہسبینڈ کیوں نہی آئے وہاں؟
میرا مطلب ہے کہ انہیں آنا چاہیے تھا ترکی یا پھر آپ کو ترکی کی بجائے پاکستان رہنا چاہیے تھا۔
کیونکہ شوہر کو اگر اکیلا چھوڑ دیا جائے تو وہ بیوی کو بھول کر فرار ہو جاتا ہے۔
میں ترکی اپنی ماما کی وجہ سے تھی،ان کء طبیعت ٹھیک نہی رہتی۔
اوہ اچھا اچھا۔ ۔ اب کیسی ہیں وہ؟
She is no more....
اوہ۔۔۔بہت افسوس ہوا۔
i am really sorry...
Its ok....
اس کے بعد مہوش نے کوئی سوال نہی کیا۔
لیں جی آ گئی آپ کی منزل۔۔۔۔
گاڑی ایک عالیشان بنگلے کے باہر رکی۔
سارہ گاڑی سے اتری اور اپنا بیگ اٹھا کر اندر سے ایک پیپر نکالا۔
ایڈریس دیکھا اور گیٹ کی طرف بڑھی۔
مہوش نے ڈگی ست بیگ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
سارہ نے بیل بجائی تو اندر سے ایک گن مین باہر آیا۔
جی کس سے ملنا ہے؟
سارہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
اب کس کا نام لوں میں؟
وہ سوش میں پڑ گئی۔
دددانیال۔۔۔۔۔دانیال سے ملنا ہے۔
She is mrs: Daniyal....
مہوش آگے بڑھ کر تیزی سے بولی۔
یہ ترکی سے آئی ہیں۔۔۔۔آپ کے صاحب دانیال کی بیوی ہیں۔
آپ ویٹ کریں میں کال کر کے کنفرم کر لوں۔
کتنا عجیب گیٹ کیپر ہت،زرا تمیز نہی ہے اسے مہوش تپ گئی۔
ایکچولی یہ مجھے جانتے نہی ہیں ناں اس لیے۔۔سارہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولی۔
سر یہاں ایک میم ہیں وہ کہہ رہی ہیں ان کا نام اارہ ہے اور وہ ترکی سے آئی ہیں۔
جی سر۔۔۔۔اوکے۔
وہ رسیور رکھتے ہوئے سارہ کی طرف آیا۔
آئیں میم آپ اندر جا سکتی ہیں۔
Sorry...
یہ میری ڈیوٹی ہے۔
its ok...
سارہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھی۔
اتنی دیع میں سامنے سے اندرونء دروازہ کھلا اور ایک ملازمہ دوڑتی ہوئی آئی اور سارہ کے ہاتھ سے بیگ لے کر گھسیٹنے لگی۔
لائیں میم مجھے دیں۔
نہی میں مینیج کر لوں گی۔سارہ شرمندہ سی بولی۔
اتنی دیر میں اندرونی دروازت سے ایک بزرگ باہر آتے دکھائی دیے۔
سارہ ان کو پہچان سکتی تھی،اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی مگر اگلت ہی پل وہ مسکراہڑ اڑن چھو ہو گئی۔
سارہ یہاں سے نہی جائے گی تم اپنی بیوی کو لے کر چلے جاو یہاں سے۔۔۔یہ ہمارا خون ہے۔
تمہیں کوئی حق نہی اسے ہم سے چھیننے کا!
نہی باباجانی پلیز۔۔۔۔میری بیٹی کو مت چھینیں مجھ سے۔
سارہ میری اکلوتی اولاد ہے میں اس کے بغیر نہی رہ سکتی۔
تو پھر ٹھیک ہے بہو ہم سے ایک وعدہ کرنا ہو گا تمہیں۔۔۔سارہ کا نکاح دانیال سے ہو گا وہ بھی ابھی اور تم وعدہ کرو ہم سے سارہ کی پڑھائی مکمل ہونے پر اسے پاکستان واپس بھیج دو گی ہمیشہ کے لیے۔
وہ ماضی کی تلخیوں میں کھو چکی تھی ہوش تب آیا جب انہوں نے سارہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔

No comments:

Post a Comment

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...