Wikipedia

Search results

Tuesday, April 14, 2020

مسافر قسط نمبر_5

مسافر
قسط نمبر_5
از
خانزادی

دانی بھائی سے بات ہو گئی ہے وہ آنے والے ہیں،حبا کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئی بولی۔
میں نے ان سے بولا ہے گھر میں ایمرجنسی ہے،جلدی آ جائیں۔
سارہ بھابی کا بتاتی تو ان کے لیے ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو جاتا۔
بڑا اچھا کارنامہ سر انجام دیا ہے تم نے۔۔۔کامران نے اس کے سر میں تھپڑ مارا۔
اب وہ پریشان ہو رہے ہو گے اور پریشانی میں گھر بھاگے آئیں۔
بہت غلط بات ہے حبا۔۔دادا جان نے بھی اسے ٹوکا۔
اب کیا ہو سکتا ہے؟
حبا نے کندھے اچکائے۔
حبا جو تم نے کرنا تھا وہ تو کر لیا،جاو اب سارہ کے کمرے میں کھانا پہنچاو۔
پتہ نہی میری بچی نے کچھ کھایا بھی ہو گا یا نہی۔
دادی جان فکر مندی سے بولیں۔
جی دادو میں بھجواتی ہوں۔
سارہ کی آنکھ لگی ہی تھی کہ دروازہ ناک ہوا۔
وہ بے دلی سے آنکھیں مسلتی ہوئی اٹھی۔دروازے پر ملازمہ تھی کھانے کی ٹرے اٹھائے۔
اس نے ٹرے لا کر میز پر رکھ دی۔
میم نے کھانا بھیجا ہے آپ کے لیے۔
جی شکریہ۔۔۔سارہ مسکراتے ہوئے بولی تو وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
سارہ نے اپنا حجاب اتارا اور بیگ کھول کر دوسرا ڈریس نکال کر واش روم چلی گئی۔
فریش ہو کر واپس آئی اور کھانا کھایا۔
مغرب کی اذان ہونے لگی تو وہ وضو کر کے نماز ادا کرنے چل دی۔
نماز پڑھ کر کھڑکی کھولے باہر دیکھنے لگی،ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔
رنگ برنگے ہھول دل لبھا رہے تھے۔
کچھ دیر وہی کھڑی رہی پھر یاد آیا کہ آنی اور اسفند کو تو بتایا ہی نہی کہ میں پاکستان پہنچ گئی ہوں۔
لیپ ٹاپ آن کیا تو نیٹورک ڈسکنیکٹ تھا اور سِم بند ہو چکی تھی۔
Ohhh Shitttt.....
نئی سِم تو خریدی ہی نہی میں نے اور ڈیٹا بھی کنیکٹ نہی ہو رہا۔
کسی سے پوچھتی ہوں۔
وہ کمرے سے باہر نکلی تو ایک کمرے سے آتی آوازیں سن کر اس کے قدم وہی رک گئے۔
Sorry dad...
میں اس لڑکی کو نہی اپنا سکتا،بہتر ہے آپ اسے واپس بھیج دیں۔
اب تک وہ کہاں تھی،کس کے ساتھ تھی؟
نا تو آپ جانتے ہیں اور نا ہی میں۔۔۔۔
آپ اس سے کہہ دیں جہاں سے آئی ہے وہی واپس چلی جائے۔
نا جانے کیسے ماحول میں اس کی تربیت ہوئی ہے۔
میں اسے اپنی زندگی میں شامل نہی کر سکتا۔
بس سارہ کی برداشت یہی تک تھی،اس نے دروازے کو زور سے دھکیلا اور کمرے میں داخل ہو گئی۔
دانیال فون کان سے لگائے کھڑا تھا،دروازہ کھلنے کی آواز پر کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے سارہ کی طرف پلٹا۔
یہ کونسا طریقہ ہے کسی کے کمرے میں آنے کا؟
وہ بنا کوئی لحاظ کیے غصے سے بولا۔
آپ میری تربیت پر انگلی اٹھائیں اور مجھے بنا اجازت کمرے میں آنے کا بھی حق نہی،واہ۔
کیا کہنے آپ کے۔
میری تربیت پر انگلی اٹھانے سے بہتر ہے کہ ایک جھلک اپنے گریبان میں دیکھ لیں۔
بہت بڑی خوش فہمی ہوئی ہے آپ کو میرے آنے کی خبر سن کر۔
مگر ایک بات میں صاف صاف بتا دیتی ہوں۔
مجھے کوئی شوق نہی ہے تمہارے ساتھ گھر بسانے کا مسٹر دانیال۔۔۔۔
میں یہاں تمہارے لیے نہی آئی بلکہ اپنے لیے آئی ہوں۔
خلع چاہیے مجھے تم سے۔۔۔۔۔سارہ چلائی۔
اوہ۔۔۔۔تو تم ہو سارہ۔۔۔دانیال اسے سر تا پاوں دیکھتے ہوئے بولا۔
وہ ٹائی کھینچ کر اتارتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
اور اگر میں تمہیں طلاق نہ دوں تو؟
اس کے لہجے میں انتہائی غصہ تھا۔
تو میں کورٹ جاوں گی۔۔۔تمہیں خلع کے پیپرز بھجواوں گی۔
تو یہ کام تم ترکی سے بھی کر سکتی تھی،یہاں آنے کا مقصد؟
مقصد میں تمہیں بتا چکی ہوں۔
تم تیاری کر لو گھر والوں کو جواب دینے کی۔
ویٹ ویٹ۔۔۔۔کیا بولی تم؟
میں گھر والوں کو جواب کیوں دوں گا؟
اور یہ تمہاری غلط فہمی ہے کہ میں تمہیں طلاق دوں گا۔
تم آزادی چاہتی ہو مجھ سے اور اس اسفند کے ساتھ گھر بسانا چاہتی ہو۔
تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔وہ سارہ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔
تمہیں کیا لگا مجھے پتہ نہی چلے گا؟
سب جانتا ہوں تم اس کے ساتھ تنہا رہتی ہو۔
تمہیں کیا لگا میں تمہیں ڈھونڈ نہی سکوں گا۔
No....
گھر والوں کو کیا کہنا ہے یہ تم جانو!
اگر تم نے مجھے اس معاملے میں انوالو کیا تو میں تمہارے سارے کارنامے گھر والوں کے سامنے پیش کر دوں گا کہ تم وہاں ایک اجنبک کے ساتھ رہتی ہو۔
اور اس سے شادی کرنے کے لیے مجھ سے خلع لینا چاہتی ہو۔
چٹاخ۔۔۔۔ابھی دانیال کچھ بولنے ہی والا تھا کہ سارہ کا ہاتھ اٹھ گیا۔
تم ایک بزدل انسان ہو۔
تم جو سمجھتے ہو سمحھتے رہو۔۔۔۔میں تم سے خلع لے کر اسفند کے ساتھ گھر بساوں یا ناں بساوں تمہیں اس بات سے کوئی مطلب نہی ہونا چاہیے۔
تمہاری نظر میں بدچلن ہوں میں؟
تو دو مجھے طلاق اور آزاد کر دو اس بے نام رشتے سے۔
دانیال گال پر ہاتھ رکھے سارہ کو گھور رہا تھا۔
تمہاری یہ خواہش مرتے دم تک پوری نہی کروں گا میں۔۔۔وہ کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ آنسو بہاتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی۔
اپنےکمرے میں گئء دروازہ لاک کیا اور آنسو بہانے لگی۔
میں کبھی سوچ بھی نہی سکتی تھی تم اتنے گھٹیا انسان ہو گے۔
تو ٹھیک ہے اگر تمہیں ایسا لگتا ہے تو یہی سہی،میں تمہارا یہ وہم اب سچ کر کے دکھاوں گی۔
دروازہ ناک ہوا تو وہ آنسو پونچھتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی۔
سامنے حبا تھی۔
بھابی آپ یہاں ہیں اور بھائی نیچے بیٹھے ہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔
میری طبیعت زرا خراب ہے،میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہوں۔
سارہ نے دانیال سے ملنے کو صاف انکار کر دیا۔
مگر بھابی۔۔۔۔
پلیز مجھے بھابی مت بولو حبا،میرا نام سارہ ہے یا تو میرا نام لیا کرو یا پھر آپی بولو۔
مگر بھابی کو آپی کیسے بول سکتے ہیں،حبا منہ بناتے ہوئے بولی۔
ہم کزنز بھی تو ہیں۔۔۔سارہ نے اسے یاد دلایا۔
ٹھیک ہے جیسے آپ کو بہتر لگے۔
آپ آرام کریں پھر،میں بھائی سے کہہ دیتی ہوں وہ آپ سے یہی مل لیں۔
نہہہی۔۔۔۔۔میں ابھی کسی سے نہی مل سکتی،میری طبیعت ٹھیک نہی ہے۔
ٹھیک ہے میں آپ کے دوائی بھیجتی ہوں۔
نہی میرے پاس ہے۔۔۔۔سارہ تیزی میں بولی۔
چلیں ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔۔۔
حبا۔۔۔۔ویٹ
مجھے ڈیٹا چاہیے،ایکچولی مجھے آنی سے بات کرنی تھی کہ میں خیریت سے پہنچ گئی ہوں۔
Yes sure...
یہ لیں پاسورڈ۔۔۔۔۔حبا نے پین اٹھایا اور ڈائری پر لکھ دیا۔
Thanks....
سارہ نے اس کا شکریہ ادا کیا۔
کوئی بات نہی اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیجئیے گا۔
Ok....
وہ کمرے سے گئی تو سارہ نے دروازہ بند کیا اور لیپ ٹاپ پر پاسورڈ ایڈ کیا۔
ڈیٹا کنیکٹ ہوا تو اس نے آنی سکائپ پر کال کی اور اپنے پہنچنے کی خبر دی۔
اسفی کو کال کروں یا نہہ۔۔۔نہی بلکہ ابھی تو وہ ریسٹورنٹ ہو گا۔
کل سِم منگوا لوں پھر کروں گی اس سے بات۔

________________________________________
کیا خیال ہے آپ سب کا دانیال کے بارے میں😕
مجھے تو بہت ذہر لگا،آپ سب بتاو😜
اور کیا ہو گا سارہ کا اگلا قدم😕

No comments:

Post a Comment

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...