Wikipedia

Search results

Tuesday, April 14, 2020

مسافر قسط نمبر_7

مسافر
قسط نمبر_7
از
خانزادی

بڑی ماما آپ۔۔۔۔۔سارہ کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔
ہاں میں۔۔۔تو کیا کہہ رہی تھی تم؟
وہ اپنے رعب دار انداز میں چلتی ہوئیں صوفے پر براجمان ہوئیں۔
کیا؟؟؟
سارہ کو کچھ سمجھ نہی آ رہا تھا کہ وہ کیا بات کرے،اسے ڈر تھا کہ وہ اس کی اسفی کے ساتھ ہونے والی ساری باتیں سن چکی ہیں۔
یہی جو تم ابھی بول رہی تھی کہ تم نے یہاں آ کر بہت بڑی غلطی کر دی۔
سہی کہہ رہی تھی تم!
تم نے واقعی یہاں آ کر بہت بڑی غلطی کر دی۔۔۔بہتر ہے واپس چلی جاو۔
کیونکہ دانیال تم میں انٹرسٹڈ نہی ہے اور نہ ہی میں اور میرا بیٹا وہی کرے جو میں چاہوں گی۔
طلاق کے پیپرز تمہیں وہاں پہنچ جائیں گے۔
سارہ ہکا بکا سی ان کو دیکھتی رہ گئی۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟
سہی ہی تو کہہ رہی ہوں میں۔۔۔۔کوئی فائدہ نہی ہونے والا تمہارا اس رشتے سے۔
میں تمہیں تمہارے مقصد میں ہرگز کامیاب نہی ہونے دوں گی۔
کیسا مقصد بڑی ماما؟
سارہ کو اپنی آواز دبی ہوئی محسوس ہوئی،وہ بہت ہمت کرتے ہوئے بولی۔
تم کیا سمجھتی ہو مجھے پتہ نہی چلے گا؟
میں باقی گھر والوں کی طرح اندھی نہی ہوں جو تمہارے اچانک پاکستان آنے کا مقصد نہ پہچان سکوں۔
تم وہ کرنے آئی ہو جو تمہاری ماں نہ کر سکی۔
آج سے کئی سال پہلے وہ آئی تھی یہاں اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر میرے بھولے بھالے دیور اور اس گھر پر حق جمانے اور آج تم آئی ہو۔
سارہ کو لگا شاید اس کے پیروں تلے کسی نے زمین کھینچ لی ہو۔
بڑی آئی اس گھر پے حق جمانے والی۔
تمہاری ماں کو لگا تھا یہاں قدم جما لے گی مگر میرے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
کیا سمجھی تھی تمہاری ماں کہ اس گھر میں راج کرے گی۔
جھونپڑیوں میں بسنے والے محلوں کے خواب نہی دیکھا کرتے۔۔۔۔
میرے دیور نے نیشنیلٹی کے لیے نکاح کیا کر لیا وہ خود کو اس گھر کی مالکن ہی سمجھ بیٹھی۔
مگر مجھے اس کو اس کی اوقات یاد دلانی پڑی۔
میں بے بس تھی مجھے کمرے میں بند کر کے میرے معصوم بیٹے کو اس جال میں پھنسا دیا گیا۔
اس وقت تو میں اپنے بیٹے کے لیے کچھ نہی کر سکی مگر اب مزید میں کوئی زیادتی برداشت نہی کروں گی اپنے بیٹے کے ساتھ۔
بہتر یہی ہو گا تم جس راستے سے پاکستان آئی ہو اسی راستے سے واپس ترکی چلی جاو۔
اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔
وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چل دیں۔
آپ کو یہ دولت اور آپ کا بیٹا بہت بہت مبارک۔۔۔۔
سارہ کی آواز پر وہ واپس پلٹیں۔
مجھے نہ تو یہ دولت چاہیے اور نہ ہی آپ ک دولتمند بیٹا۔
سچ تو یہ ہے کہ میں یہاں آپ کے بیٹے سے خلع لینے ہی آئی ہوں۔
مگر آپ کا فرمانبردار بیٹا مجھے طلاق دینے سے انکار کر چکا ہے۔
اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟
دیکھتے ہیں آپ کا بیٹا آپ کا کتنا فرمانبردار بنتا ہے۔
تو جائیے اور کہیے اس سے کہ مجھے طلاق دے۔
تم مجھے چیلنج کر رہی ہو؟
وہ غصے سے سارہ کی طرف بڑھیں۔
ناں ناں ناں ناں۔۔۔۔۔۔مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کیجیے گا۔
میں کوئی مظلوم سی پاکستانی لڑکی نہی ہوں جو چپ چاپ آپ کا ظلم برداشت کرتی چلی جائے گی۔
میں ڈائریکٹ پولیس کو کال کروں گی،آپ کو اور آپ کے لاڈلے بیٹے کو مجھے گھر میں قید کرنے پر جیل بھجواوں گی۔
تمہاری اتنی ہمت۔۔۔۔۔وہ ابھی سارہ پر ہاتھ اٹھانے کی غرض سے آگے بڑھی ہی تھیں کہ ایک کرخت آواز پر واپس پلٹیں۔
زلیخا۔۔۔۔۔۔
یہ دادی جان تھیں۔
یہ کیا کر رہی تھی تم بچی کے ساتھ؟
ان کو آتے دیکھ سارہ تیزی سے ان سے لپٹ کر آنسو بہانے لگی۔
بہو تم سے اس رویے کی امید نہی تھی مجھے۔۔۔دادا جی بھی ساتھ کمرے میں آئے۔
ابا جان وہ میں۔۔۔۔۔انہوں نے کچھ بولنا چاہا مگر دادی جی بول پڑیں۔
بس زلیخا تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہی ہے ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔
شرم آنی چاہیے تمہیں یتیم بچی کے سر پر ہاتھ رکھنے کی بجائے اس پر ہاتھ اٹھ رہی ہو۔
نہی اماں جان دراصل میں۔۔۔۔
بس۔۔۔۔بہو جاو یہاں سے۔۔۔۔۔دادا جی کا چہرہ غصے سے سرخ ہونے لگا۔
آخر کار زلیخا بیگم کو کمرے سے باہر جانے میں ہی آفیت نظر آئی۔
ناں میری بچی رونا نہی۔۔۔ہم ہیں ناں تمہارے ساتھ۔
وہ سارہ کے سر پر ہاتھ رکھے بولے۔
یہ دانی کہاں ہے؟
بلائیں اسے کال کر کے،سارہ اس کی زمہ داری ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اس کی بیوی پر ظلم ہو رہا ہے اور وہ انجان بنے پھرتا ہے۔
دادی جی کا غصہ جوش پروش تھا۔
ہاں میں کرتا ہوں۔۔۔وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔
سارہ دادی جی کی گود میں سر رکھے آنسو بہاتی رہی۔
دادو آپ سے ایک بات پوچھوں؟
ہاں میری جان پوچھو۔۔۔۔وہ سارہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں۔
کیا آپ کو بھی ایسا لگتا ہے کہ میری ماما نے جائیداد کے لیے بابا سے شادی کی تھی اور بابا نے نیشنیلٹی کے لیے؟
یہ کس نے کہہ دیا تم سے سارہ؟
وہ چونک گئیں سارہ کے سوال پر۔
بڑی ماما نے۔۔۔وہ ان کی گود سے سر اٹھا کر اٹھ بیٹھی اور اپنا حجاب درست کرنے لگی۔
یہ بہتان ہے زلیخا کا اور اس سے بڑھ کر وہ کر بھی کیا سکتی ہے۔
تمہارے بابا نے یہ شادی ہماری مرضی سے کی تھی۔
زلیخا اپنی بہن کی شادی کرنا چاہتی تھی تمہارے بابا سے،ہمارے پاس انکار کی کوئی وجہ نہی تھی۔
انہی دنوں تمہارے بابا نے بتایا تھا کہ ان کی ایک دوست ہے اور وہ اسے پسند کرتے ہیں۔
تو ہم نے اس سے کہا کہ فوراً نکاح کر لو اور اپنے نکاح کی تصویریں اور نکاح نامے کی کاپی پاکستان بھجوا دو۔
تمہارے بابا نے ایسا ہی کیا۔
زلیخا کو جو مرچیں لگیں وہ میں تمہیں بتا نہی سکتی۔
پھر تمہارے بابا تمہیں اور تمہاری ماما کو ساتھ لے کر اپنے گھر واپس آئے۔
زلیخا نے گھر میں طوفان برپا کر دیا کہ اگر یہ لوگ یہاں رہے تو وہ اس گھر میں نہی رہے گی اپنے تینوں بچوں سمیت مائیکے چلی جائے گی۔
صورتحال بہت خراب ہو چکی تھی گھر کے بگڑتے حالات اور دونوں بھائیوں کے درمیان اخلافات نہ ہو اس لیے ہمیں تمہارے اور دانیال کے نکاح کا فیصلہ کرنا پڑے۔
میرے دونوں بیٹوں کو ہمارے فیصلے پر کوئی اختلاف نہی تھا اگر کوئی مخالف تھا تو وہ تھی زلیخا۔
اسے کمرے میں قید کرنا پڑا اور کوئی حل نہی تھا۔
پھر تمہاری ماما کو اچانک ترکی واپس جانا پڑا کیونکہ تمہاری نانی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
وہ تمہیں بھی ساتھ لے گئیں مگر تمہارے بابا بزنس میں مصروفیات کی وجہ سے نا جا سکے۔
پھر تمہیں اور تمہاری ماما کو ایمرجنسی پاکستان آنا پڑا تمہارے بابا کے آخری دیدار کے لیے۔
پتہ نہی کیا ہوا اچانک میرے بیٹے کو جو وہ اس کا ہارٹ فیل ہو گیا۔
وجہ آج تک معلوم نہی ہو سکی۔
سارہ نے ہاتھ بڑھ کر دادو کے آنسو صاف کیے۔
میں ہوں ناں آپ کے پاس بابا کی بیٹی ان کی پرچھائی۔
ہاں بلکل تم اپنے بابا جیسی ہی ہو،ایسے لگتا ہے جیسے میرا بیٹا اور بہو واپس آ گئے ہو،وہ سارہ کا ماتھا چومتی ہوئی بولیں۔
دانی کال پِک نہی کر رہا۔۔۔۔کامی کو بولا ہے اسے بلانے کو۔۔۔دادا جی بھی کمرے میں آ گئے۔
سارہ میری جان آو باہف گارڈن میں چلتے ہیں،یہاں کمرے میں بیٹھ کر کیا کرو گی۔
وہ سارہ کا ہاتھ تھامے اسے گارڈن میں لے گئے جہاں حبا پہلے سے میگزین پڑھنے میں مصروف تھی۔
سارہ کو آتے دیکھ جھولے سے اتر گئی۔آئیں بھابی یہاں بیٹھیں۔
بیٹھی تو وہ اندر بھی تھی،ارے بھئی اسے کہی باہر گھمانے لے کر جاو ایسے کمرے میں بور ہونے کے لیے چھوڑ آئے تم سب۔۔۔دادا جی ناراضگی سے بولے۔
Sorry dasa jan
میں سنڈے میگزین پڑھ رہی تھی ذہن میں ہی نہی رہا۔
ہاں بھئی تمہیں تو فضول کہانیاں پڑھنے سے ہی فرصت نہی۔۔۔دادی جی نے بھی حبا کی کلاس لگائی۔

No comments:

Post a Comment

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...