Wikipedia

Search results

Monday, June 1, 2020

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)


مسافر
قسط نمبر_24(آخری قسط)
از
خانزادی

بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟
حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔
نہی ایسا کچھ نہی ہے،میں نہی رو رہی۔
حبا اداس چہرہ لیے اس کے پاس بیٹھ گئی اور کندھے پر ہاتھ رکھا۔
سارہ مسکرا دی مگر آنکھوں سے بہتے آنسو نا روک پائی۔
میں جانتی ہوں آپ اس رشتے سے خوش نہی ہیں۔
کتنا سمجھایا تھا بھائی نے آپ کو مگر آپ اپنی ضد پر اٹکی رہیں۔
اب دیکھیں کیا ہو گیا،،،،
اب ہم چاہ کر بھی کچھ نہی کر سکتے آپ کے لیے۔۔نکاح ہو چکا ہے اور کل بارات ہے۔
ولیمے کا فنکشن بھی طے ہو چکا ہے۔
اب کچھ نہی ہو سکتا۔
حبا مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔۔۔۔سارہ اس کے گلے لگ کر آنسو بہانے لگ گئی۔
یہ سب اتنا مشکل ہو گا میں کبھی سوچ نہی بھی نہی سکتی تھی۔
دانیال کیسے کر سکتے ہیں ایسا؟
وہ مہوش کے ساتھ ایسے کیسے بیٹھ گئے؟
بھابی ابھی تو آپ سے ان دونوں کا ساتھ بیٹھنا نہی برداشت ہو رہا تو ان کو زندگی بھر ساتھ کیسے دیکھ پائیں گی آپ؟
خود کو سنبھالیں۔۔۔۔
سب بدل چکا ہے اور یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے آپ کی مرضی کے مطابق ہی تو ہو رہا ہے۔
اب رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہی ہے،بہتر ہے خود کو مظبوط بنائیں۔
نہی کر سکتی میں خود کو مظبوط!
میں ہار چکی ہوں۔۔۔
کچھ نہی بچا میرے پاس۔۔۔۔
کھو چکی ہو میں اپنا سب کچھ۔۔۔۔
"ایک سچا دوست اور محبت کرنے والا شوہر"
کچھ بھی تو نہی بچا میرے پاس۔۔۔۔
میری ہر مشکل کو حل کرنے والا میرا دوست اور میری آنکھ سے آنسو گرنے سے پہلے ہی اسے پونچھنے والا میرا شوہر مجھ سے دور ہو گیا۔
صرف اور صرف میری وجہ سے۔۔۔۔مگر میں دکھی نہی ہوں کیونکہ اسی میں سب کی خوشی ہے۔
سب کی خوشی؟؟؟
نہی بھابی۔۔۔۔اس میں سب کی نہی بس آپ کی خوشی شامل تھی۔
مجھے نہی پتہ کیوں آپ نے اتنا بڑا فیصلہ لیا۔
اور اب آپ پچھتا رہی ہیں؟
ہاں یہ سچ ہے کہ میں بہت پچھتا رہی ہوں مگر میں ایک بیٹے کو اس کی ماں سے دور نہی کر سکتی تھی۔
کس نے کہہ دیا آپ سے کہ بھائی کو ماما سے چھین رہی ہیں آپ؟
آپ کا حق ہے بھائی پر۔۔۔۔شوہر ہیں وہ آپ کے۔
ماما تو شروع سے ایسی ہیں مگر آپ اتنی بڑی بے وقوفی کیسے کر سکتی ہیں؟
میرے خیال سے آپ کو بھائی سے معافی مانگ لینی چاہیے۔
ان سب میں وہ بھی بہت پریشان ہیں۔
مہوش سے نکاح ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہی ہے کہ آپ کا ان سے کوئی تعلق نہی رہا،آپ کا حق ہے بھائی پر اور ہمیشہ رہے گا۔
لیکن مجھے معاف نہی کریں گے۔۔۔۔۔
ایسا کس نے کہہ دیا آپ سے؟
آپ ابھی جائیں بھائی کے پاس۔۔۔۔۔چلیں میرے ساتھ۔
اگر آج نہی تو کبھی نہی۔۔۔
کہی ایسا نا ہو کہ آپ بھائی کو ہمیشہ کے لیے کھو دیں۔
بتائیں ان کو کہ ان کی کیا اہمیت ہے آپ کی زندگی میں۔
حبا اسے دانیال کے کمرے کے سامنے چھوڑ کر وہاں سے چلی گئی۔
سارہ نے ہاتھ بڑھا کر دروازہ ناک کیا۔
yes'come in....
دانیال کے جواب پر وہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی۔
کیا ہوا کوئی کام تھا؟
دانیال اسے یوں اچانک سامنے دیکھ کر ٹاول کرسی پر رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
وہ ابھی ابھی نہا کر واش روم سے باہر آیا تھا۔
اور تم نے چینج کیوں نہی کیا ابھی تک؟
وہ میں کہنا چاہتی تھی کہ۔۔۔۔سارہ مزید نا بول پائی۔
کیا؟؟؟
دانیال اس کے قریب آ رکا اور دونوں بازو سینے پر فولڈ کیے اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
سارہ نے جواب تو نہی دیا مگر اس کی پلکوں سے گرتے آنسو دیکھ کر دانیال خود کو روک نا پایا اور اسے سینے سے لگائے اس کے دھڑکن کو سننے لگا۔
I am sorry.....
مجھے لگا تھا میرا فیصلہ سہی ہے مگر درحقیقت میں غلط تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ ناں تو میں آپ کے بغیر رہ سکتی ہوں اور ناں ہی آپ کے ساتھ کسی اور کو برداشت کر سکتی ہوں۔
دانیال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
بڑی جلدی احساس نہی ہو گیا تمہیں؟
اب جب سب کچھ ہو چکا ہے تو تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے؟
سارہ کے آنسووں میں مزید روانی آ گئی اور اب تو وہ ہچکیاں بھر بھر کر آنسو بہا رہی تھی۔
سارہ پلیز یہ رونا بند کرو۔۔۔۔دانیال اس کے بال سہلاتے ہوئے بولا۔
اچھا سنو میری بات یہاں بیٹھو۔۔۔۔وہ اسے صوفے تک لے آیا اور پانی کا گلاس لے کر اسے پانی پلایا۔
شکر ہے تمہیں احساس تو ہوا۔۔۔
اب میری بات سنو،،،،،
جیسا تم سمجھ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہی ہے۔
مہوش کا نکاح مجھ سے نہی اسفند سے ہوا ہے۔
یہ سارا گیم تمہیں احساس دلانے کے لیے تھا۔
مطلب؟؟؟
سارہ نے نظریں اٹھا کر بے یقینی سے دانیال کی طرف دیکھا۔
وہ مسکرا دیا۔
مطلب یہ کہ میری زندگی بس تم ہو۔۔۔۔۔
کسی اور کو زندگی میں شامل کرنا تو دور کی بات ہے٫کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی میرے لیے گناہ ہے۔
مطلب وہ سب جھوٹ تھا؟؟؟
ہاں سب جھوٹ تھا۔۔۔۔یقین نہی آ رہا تو آو دکھاتا ہوں۔
وہ سارہ کو کھڑکی کے پاس لے گیا جہاں سے پورا گارڈن نظر آ رہا تھا اور چند مہمان بیٹھے تھے۔
وہ دیکھو زرا سٹیج پر کون ہے مسٹر اینڈ مسز اسفند۔
سارہ کی نظر مہوش اور اسفند پے پڑی تو حیران رہ گئی۔
کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں؟
میرے سر پے ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں۔
دانیال نے افسردگی سے سر ہلایا۔
ہاں ہاں میں سچ کہہ رہا ہوں میری جان تمہاری قسم۔۔۔۔
دانیال نے اس کے سر پے ہاتھ رکھ کر قسم کھائی تو سارہ کو یقین آیا۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور خوشی کے مارے آنسو بھی نکل رہے تھے۔
بس اب رونا نہی۔۔۔دانیال نے اسے خود میں بھینچ لیا۔
اب اپنے کمرے میں جانا چاہیے آپ کو جناب۔۔۔کل پورے رسم و رواج کے ساتھ دلہن بن کر اس کمرے میں آنا ہے تمہیں۔
مطلب؟
یارررر سارہ ایک تو تم سوال بہت پوچھتی ہوں۔
مطلب یہ کہ کل ہماری شادی ہے۔
آج مہندی کی رسم تو ہماری تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اسفی کا نکاح بھی۔
میرے کہنے پر ہی یہ نکاح یہاں ہوا اور شادی تین ماہ بعد ہے۔
تب تک اسفی ترکی سے واپس آ جائے گا۔
مگر ہماری شادی کل ہے۔
لیکن بڑی ماما؟؟؟؟
میں ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی کی فکر کرنے کی ضرورت نہی ہے۔
مام کو ڈیڈ سمجھا چکے ہیں۔
چلو کمرے میں چھوڑ دیتا ہوں تمہیں چینج کر کے سو جاو۔
سارہ مسکراتی ہوئی دانیال کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
دروازہ لاک کر لینا۔۔۔۔دانیال اس کے مہندی سے بھرے ہاتھ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ تیزی سے دروازہ بند کرتی ہوئی اپنی بے قابو ہوتی دھڑکن کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی۔
چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے مسکرا دی۔
صبح نماز پڑھ کر بیٹھی تھی کہ دروازہ ناک ہوا۔
دروازے پر زلیخا بیگم تھیں۔
بڑی ماما آپ۔۔۔۔۔
خبردار!
جو مجھے ماما کہا۔۔۔۔۔
میرے ساتھ کوئی رشتہ نہی ہے تمہارا۔
تمہاری وجہ سے میرا بیٹا مجھ سے دور ہو گیا اور شوہر نے طلاق کی دھمکی دی ہے۔
لیکن ایک بات میں تمہیں بتا دوں۔۔۔۔تم اس گھر میں کبھی خوش نہی رہ سکو گی۔
میں تمہیں خوش رہنے ہی نہی دوں گی۔
اچھا ہوتا کہ میں اس دن تمہارے باپ کے ہاتھ میں طلاق نامہ تھما دیتی۔
لیکن مجھ سے ایک غلطی ہو گئی تھی کہ میں نے پہلے ہی تمہارے باپ کو بتا دیا اور وہ ہارٹ اٹیک سے مر گیا۔
سارے پلان پر پانی پھیر گیا اور تمہاری ماں تمہیں یہاں سے لے کر رفو چکر ہو گئی۔
مطلب بابا آپ کی وجہ سے مر گئے۔۔۔۔۔؟؟؟
نہی میری وجہ سے نہی۔۔۔۔۔۔میں نے نہی مارا تمہارے باپ کو۔
تم نے مارا ہے۔۔۔۔تمہاری طلاق کی ٹینشن لے کر اسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
تم ہو ہی منحوس۔۔۔۔
بڑی ماما آپ قاتل ہیں میرے بابا کی۔
نہی۔۔۔میں نہی ہوں قاتل تمہارے باپ کی تم خود ہو۔
میں سب کو بتاوں گی۔۔۔۔۔۔میرے بابا کی قاتل ہیں آپ،،،سارہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور زلیخا بیگم کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔
غصے غصے میں وہ اپنا راز خود ہی کھول گئیں۔
خبردار اگر تم نے کسی سے اس بات کا ذکر بھی کیا۔۔میں تمہاری جان لے لوں گی وہ سارہ کا گلہ دباتے ہوئے بولیں۔
سارہ کو اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
بڑی ماما چھوڑیں مجھے۔۔۔۔
دانیال۔۔۔۔۔بچائیں مجھے۔
وہ بہ مشکل بول رہی تھی۔
اپنے آپ کو بچانے کے لیے سارہ ہاتھ پاوں مار رہی تھی مگر زلیخا بیگم پر تو جیسے کوئی جنون طاری تھا۔
مام۔۔۔۔یہ کیا کر دہی ہیں آپ؟؟؟؟
دانیال کمرے میں داخل ہوا اور تیزی سے سارہ کی طرف بڑھا اسے ماں کے چنگل سے آزاد کیا۔
سارہ کھانسنے لگی اس کا سانس بحال نہی ہو رہا تھا۔
مام اگر اسے کچھ ہوا تو سمجھ لیجئیے گا آپ کا بیٹا بھی مر گیا۔
نہی۔۔۔۔زلیخا بیگم نے سر نفی میں ہلایا۔
خود غرضی کے عالم میں وہ سمجھ ہی نہ پائی کہ وہ کیا غلطی کر رہی ہیں۔
آخر بگاڑا کیا ہے سارہ نے آپ کا؟؟؟؟
سارہ سنبھالو خود کو میں ہوں تمہارے پاس۔۔۔۔۔وہ سارہ کو سینے سے لگائے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔
دانیال اتنے غصے سے چلایا کے سارے گھر والے یہاں آ گئے۔
حبا نے دروازہ بند کر دیا کیونکہ گھر میں اتنے سارے مہمان تھے۔
کیا ہو رہا ہے یہاں؟؟؟؟
دانیال کے ڈیڈ بیگم کو غصے سے دیکھتے ہوئے بولے۔
سارہ کی حالت دیکھ کر سب پریشان ہو چکے تھے۔
کیا ہو گیا میری بچی کو یہ سانس کیسے لے رہی ہے؟؟؟؟؟
دانی کچھ بتاتے کیوں نہی۔۔۔؟
دادی جان فکر مندی سے بولیں۔
پانی پلاو اسے۔۔۔۔
حبا جلدی سے پانی لے کر اور دانیال کی طرف بڑھایا۔
سارہ کی طبیعت سنبھلی تو دانیال کی جان میں جان آئی۔
آج اگر میں وقت پر نہ پہنچتا تو شاید مام سارہ کی جان لے چکی ہوتیں۔
کیا؟؟؟؟؟
زلیخا تمہاری اتنی جرات!
دادی جی شدید غصے میں بہو کی طرف بڑھیں۔
کیوں کیا تم نے ایسا زلیخا؟؟؟؟؟
تم اس قدر گر جاو گی میں سوچ نہی سکتی تھی۔
سارہ بتاو بیٹا کیا ہوا؟
دانیال کے بابا سارہ کی طرف بڑھے۔
سارہ نے پریشانی سے دانیال کی طرف دیکھا۔
ہاں سارہ بتاو کیا ہوا تھا؟
دانیال نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تو سارہ نے ساری بات بتا دی۔
تم قاتل ہو میرے بیٹے کی؟؟؟؟
دادی جی آنسو بہانے لگیں۔
میں نے کوئی قتل نہی کیا میں نے تو بس اتنا ہی کہا تھا۔۔۔۔چٹاخ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتیں ایک زور دار تھپڑ ان کے چہرے پے پڑا۔
شرم آنی چاہیے تمہیں زلیخا بیگم۔۔۔۔اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی تمہیں یہ لگتا ہے کہ تمہاری کوئی غطی نہی؟
شرمندہ ہونے کی بجائے اپنی بات پر ڈٹی ہو۔
دور ہو جاو میری نظروں سے۔۔۔۔۔
زلیخا بیگم نے ایک نظر سارہ کو دیکھا اور گال پر ہاتھ رکھے کمرے سے باہر چلی گئیں۔
حبا اور کامران بھی ان کے پیچھے کمرے سے باہر چل دیے۔
بیٹا ہمیں معاف کر دو ہم تمہیں تحفظ نہی دے سکے۔
دادی جی سارہ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولیں۔
نہی دادو جان ایسا مت بولیں۔
اس میں آپ سب کی کوئی غلطی نہی ہے اور مجھے بڑی ماما سے بھی کوئی گلا نہی ہے وہ غصے میں تھیں۔
یہ تو تمہارا ظرف ہے بیٹا۔۔۔۔۔دانی خیال رکھو اس کا اور اسے اکیلی مت چھوڑنا۔
جی دادو میں یہی ہوں۔
دادا جی اور دادی جی دونوں کمرے سے باہر نکل گئے اور دانیال کے بابا بھی سارہ کے سر پے ہاتھ رکھ کر دکھی دل کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئے۔
اب گھبرانے کی ضرورت نہی ہے سارہ میں ہوں تمہارے پاس۔
سارہ نے فقط مسکرانے پر اکتفا کیا۔
نہی میں ٹھیک ہوں آپ اپنے کمرے میں چلے جائیں۔
نہی میں کوئی رسک نہی لے سکتا٫جو آج ہوا دوبارہ نہی ہونا چاہیے۔
میں ناشتہ منگواتا ہوں۔
مام۔۔۔۔۔بات تو سنیں۔۔۔۔حبا اور کامران دونوں ماں کے پیچھے کمرے میں گئے۔
دفع ہو جاو تم دونوں یہاں سے۔۔۔۔۔تم سب کے سب ملے ہوئے ہو اس لڑکی کے ساتھ۔
مام سارہ بھابھی ایسی نہی ہیں،آپ ان سے اتنی بدگمان کیوں ہیں؟
ہاں ہاں تم بن جاو اب بھابھی کے دیور۔۔۔دو اسی کا ساتھ۔
ماں تو دشمن ہے تم سب کی۔
مام ایسا نہی ہے۔۔۔۔حبا آگے بڑھی۔
خبردار جو میرے پاس آئی تم۔۔۔۔جاو اپنی لاڈلی بھابھی کے پاس اب وہی تم دونوں کی ماں ہے۔
مام اب ایسا تو نہ بولیں آپ۔۔۔۔آج بھائی کی شادی ہے اور آپ غصہ کر رہی ہیں۔
ہاں ہاں میں ہی غصہ کر رہی ہوں۔۔۔۔تم ایسا کرو جاو تم بھی اپنے بھائی کے پاس اور اس سے کہو تمہارے لیے بھی ایسی ہی لڑکی ڈھونڈ دے۔
میں غلط ہوں یہ تو نظر آتا ہے سب کو مگر جو تمہارے باپ نے اور بھائی نے کیا ہے میرے ساتھ اس کا کیا؟
میں نے جو کیا بہت اچھا کیا بلکہ بہت پہلے کرنا چاہیے تھا مجھے یہ۔
ڈیڈ کو کمرے میں آتے دیکھ کر حبا اور کامران چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گئے۔
اتنا سب کچھ کرنے کے بعد تمہیں زرا شرمندگی نہی ہے بلکہ الٹا بچوں سے الجھ رہی ہو؟
کس بات کی شرمندگی؟؟؟؟
تمہارے بھائی کا مرنا ہارٹ اٹیک سے لکھا تھا تو اس میں میرا کیا قصور؟؟؟
اور رہی بات اس لڑکی کی تو اسے میں ہرگز برداشت نہی کروں گی اور نہ ہی اس شادی میں شرکت کروں گی۔
اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو ٹھیک ہے مگر میری ایک بات بھی کان کھول کر سن لو۔
تم اپنے بیٹے کی خوشیوں میں شامل نہ ہو کر اپنے پاوں پے خود ہی کلہاڑی مارو گی۔
اپنے بیٹے کو خود سے دور کرنے والی تم خود ہو گی۔
دیکھنا پھر وہ دن بھی دور نہی ہو گا جب وہ تمہارے اس سلوک کی وجہ سے یہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا۔
پھر کچھ نہی کر سکو گی تم۔۔۔۔سمجھانا میرا فرض تھا باقی جیسے تمہاری مرضی۔
تمہارے نہ آنے سے یہ شادی رکے گی نہی۔
وہ غصے میں کمرے سے باہر نکل گئے۔
زلیخا بیگم سوچ میں پڑ گئیں،ایسا تو وہ کبھی سوچ بھی نہی سکتی تھیں۔
کچھ دیر بعد حبا ناشتہ لے آئی۔
حبا تم بھی بیٹھو ہمارے ساتھ ناشتہ کرو۔
دانیال نے کہا تو حبا نے انکار کر دیا۔
نہی بھائی آپ لوگ کریں مجھے باقی سب کو بھی ناشتہ پہچانا ہے۔
شکر ہے آپ دونوں کے درمیان سب ٹھیک ہو گیا ورنہ آپ دونوں نے تو ٹینشن ہی ڈالی ہوئی تھی۔
اور ہاں بھابھی رئیلی سوری آپ سے وہ نکاح والا جھوٹ بولنے کے لیے۔
نہی میں ناراض نہی ہوں حبا۔
ہونا بھی نہی چاہیے ویسے آپ لکی ہیں جو آپ کو بھائی مل گئے۔
اوہو میں چلتی ہوں۔۔۔۔۔باتیں تو پھر بھی ہوتی رہیں گی۔
شروع کریں۔۔۔۔حبا کے جاتے ہی دانیال نے ناشتے کی پلیٹ سارہ کی طرف بڑھائی۔
میں بڑی ماما سے بات کرنا چاہتی ہوں ایک بار...
اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی؟؟؟؟
دانیال کو حیرت ہوئی۔
جی۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے ناشتہ کر کے چلتے ہیں۔
ناشتہ کرنے کے بعد وہ دونوں زلیخا بیگم کے کمرے کی طرف چل دیے۔
دروازہ ناک کیا تو وہ صوفے پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں۔
ان دونوں کو سامنے دیکھ کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
بڑی ماما پلیز مجھے معاف کر دیں۔
زلیخا بیگم سارہ کی آواز پر اس کی طرف دیکھنے لگیں وہ زمین پر بیٹھی ان کے پاوں تھامے معافی مانگ رہی تھی۔
زلیخا بیگم پر تو جیسے حیرتوں کے پہاڑ آ گرے۔
حالانکہ غلطی ان کی اپنی تھی معافی انہیں مانگنی چاہیے تھی سارہ سے مگر یہاں تو سب الٹ تھا۔
دانیال بھی حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔
میں نہی چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کے اور ان کے درمیان دوریاں پیدا ہو۔
میرے پاس کچھ نہی بچا آپ لوگوں کے سوا۔
میں اپن قیمتی رشتے کھونا نہی چاہتی۔۔۔۔آپ کو مجھ سے جو بھی اختلافات ہیں اس کی سزا مجھے دیں مگر ان سے کبھی ناراض مت ہونا آپ۔
زلیخا بیگم کا دل نرم پڑنے لگا اور وہ تیزی سے اٹھی اور سارہ کو اپنے سامنے کھڑا کیا۔
بیٹیوں کی جگہ ماں کے قدموں میں نہی دل میں ہوتی ہے اتنا بول کر سارہ کو گلے سے لگا لیا۔
معافی تو مجھے مانگنی چاہیے تم سے۔۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دو۔
نہی بڑی ماما آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت نہی ہے۔
میری دعا ہے اللہ تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔
دانیال کے ہاتھ میں سارہ کا ہاتھ تھما کر دونوں کو گلے لگا لیا۔
دانیال کے بابا اسی وقت کمرے میں داخل ہوئے اور سامنے کا منظر دیکھ کر انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔
آپ بھی مجھے معاف کر دیں۔دیں۔۔اب وہ ہاتھ جوڑے شوہر کی طرف بڑھیں۔
معافی مجھ سے نہی اللہ سے مانگو۔
وہ شرمندگی سے آنسو بہانے لگیں۔
چلو بھئی تم دونوں کی شادی ہے آج تیاری نہی کرنی۔
جی ڈیڈ۔۔۔۔دانیال مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا اور سارہ بھی۔
نہی نہی نہی۔۔۔۔۔اب آپ اپنے کمرے میں جائیں بھابھی کو اکیلا چھوڑ دیں۔
دانیال سارہ کے ساتھ اس کے کمرے میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ حبا نے ٹوک دیا۔
اب رخصتی سے پہلے آپ بھابھی سے نہی مل سکتے۔
یہ کیسی رسم ہے حبا ہٹو راستے سے،مجھے ضروری بات کرنی ہے سارہ سے۔
اب یہ ساری ضروری باتیں آپ رخصتی کے بعد کرئیے گا۔
اس سے پہلے آپ بھابھی کو دیکھ بھی نہی سکتے۔
حبا کمرے کا دروازہ بند کر چکی تھی۔
بھائی آپ کا روم ڈیکوریٹ ہو رہا آپ دیکھ لیں اگر کوئی سیٹنگ کرنی ہے تو کامران کی آواز پر وہ پلٹ گیا۔
دانیال مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
بھابی کچھ دیر تک ہمیں پارلر کے لیے نکلنا ہے تب تک آپ اپنا ڈریس دیکھ لیں۔
حبا نے بیڈ پر پھیلائے لہنگے کی طرف اشارہ کیا۔
یہ ڈریس تو۔۔۔۔
جی بھابھی یہ وہی ڈریس ہے جو آپ کو پسند آیا تھا۔
بھائی نے پیک کروا لیا تھا۔
آپ پہن کر دیکھیں گی؟
نہی تیار ہوتے وقت ہی پہنوں گی مگر آج ڈوپٹہ سر پر رکھنا ہو گا ورنہ میں نہی پہن سکتی۔
سارہ کی بات پر حبا کی ہنسی ہی نہی رک رہی تھی۔
Dont worry
آج آپ ڈوپٹہ سر پر ہی رکھیں گی۔
یہ جیولری بھی دیکھ لیں اور بیگلز۔۔۔۔یہ سب میں نے پسند کیا ہے آپ کے لیے۔
ہممم سب کچھ بہت اچھا ہے۔۔۔۔میں کبھی سوچ بھی نہی سکتی تھی کہ مجھے اتنا پیار کرنے والی فیملی ملے گی۔
وہ اس لیے بھابھی کیونکہ آپ خود بھی بہت پیاری ہیں اسی لیے ہم سب آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔
چلیں میں یہ سب پیک کر کے گاڑی میں رکھوا دیتی ہوں اور بھائی کی شیروانی بھی نکال دوں۔
وہ ڈھونڈتے ہی نہ رہ جائیں۔
ماشا اللہ۔۔۔۔۔بھائی کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔
شکریہ۔۔۔۔دانیال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
میں آپ کی بات تو نہی کر رہی ان پھولوں کی بات کر رہی ہوں۔
حبا شرارتا بولی۔
اوہ اچھا مجھے لگا میری تعریف کر رہی ہو۔
آپ کسی تعریف کے محتاج نہی ہیں البتہ کامی کو ضرورت ہے خود کو امپروو کرنے کی۔
کیا مجھے کیا ہوا ہے؟
کامی نے جلدی سے خود کو شیشے میں دیکھا۔
ہونے کیا ہے کچھ ہے ہی نہی تم میں۔۔۔۔یہ موٹی ناک بنٹے جیسی آنکھیں اور اتنی خطرناک مونچھیں۔
مونچھیں۔۔۔۔کہاں ہیں؟
یہ ہیں تو کاکروچ جیسی مونچھیں۔۔۔حبا اپنی بات مکمل کرتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی اور کامی اس کے پیچھے بھاگا۔
حبا کی بچی آج تمہیں نہی چھوڑوں گا۔
ارے یہ دونوں بھی ناں۔۔۔۔۔دانیال کی ماما کمرے میں داخل ہوئیں۔
یہ رہی تمہاری شیروانی۔۔۔حبا سے کہا تھا تمہیں د آئے اور یہ وہی چھوڑ آئی۔
Thanks mom....
سارہ کو ایکسیپٹ کر کے آپ نے مجھے بہت بڑی خوشی دی ہے۔
تمہیں شکریہ کہنے کی ضرورت نہی ہے دانی۔
٫٫جو لڑکی اپنے شوہر کی خاطر اپنی غلطی نا ہوتے ہوئے بھی جھک جائے ایسی بیوی قسمت والوں کا نصیب بنتی ہے،،
مجھے فخر ہے کہ سارہ میری بہو ہے۔
اب تم تیار ہو جانا ٹائم پر سات بچے بارات ہال پہنچنی ہے۔
میں سارہ کو بھی دیکھ لوں اسے پارلر بھیجنا ہے۔
حبا تو اپنے کاموں میں مگن ہے۔
جی مام۔۔۔۔
ٹھیک سات بجے بارات ہال پہنچ گئی۔
سب دلہن کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
حبا سارہ کو ساتھ لیے ہال میں داخل ہوئی مگر یہ کیا؟
سب کے چہرے پر حیرت تھی۔
سارہ نے گھونگھٹ اوڑھ رکھا تھا۔
دانیال کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی وہ سٹیج سے نیچے اترا اور سارہ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
سارہ نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ دانیال کے ہاتھ پر رکھا اور سٹیج کے زینے طے کرتی ہوئی اوپر آ گئی۔
سب کے چہروں پر حیرانگی آ گئی کہ آج کے دور میں گھونگٹ کون اوڑھتا ہے۔
وہ کیا ہے ناں کہ بھابھی بہت گھبرا رہی تھیں اتنے لوگوں کے درمیان آنے میں اسی لیے مجھے ایسا کرنا پڑا بھائی۔
اٹس اوکے۔۔۔۔دانیال نے گہری سانس لی۔
ارے یہ کیا ہمیں دلہن کا چہرہ تو دکھاو بھئی۔۔۔ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں۔
سارہ میں گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں۔۔۔۔گھبرانے کی ضرورت نہی ہے میں ہوں تمہارے ساتھ۔
دانیال کی تسلی پر سارہ نے سر ہاں میں ہلایا۔
دانیال نے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے اور سارہ کے چہرے سے گھونگھٹ ہٹا۔
یہ خوبصورت منظر کیمرے میں ریکارڈ ہو گیا۔
ہر طرف سے ماشا اللہ۔۔۔کی آوازیں آ رہی تھی جبکہ دانیال کی نظریں سارہ کے چہرے پر ہی جمی تھیں۔
اففف بھائی سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔حبا نے کہنی ماری تو دانیال ہوش میں آیا۔
سارہ نظریں جھکائے کھڑی رہی حبا نے اسے صوفے پر بٹھا دیا تو دانیال بھی بیٹھ گیا۔
اسی پل اسفند مہوش کے ساتھ وہاں آ گیا۔
Congractulations......
دونوں دوست گلے ملے۔
تمہیں بھی مبارک ہو آخر وہ وقت بھی آ ہی گیا جب تم بھی جورو کے غلام بن گئے۔۔۔۔دانیال نے اسفند کی کھچائی کی۔
پورے تیس منٹ لیٹ ہو تم اسفی۔۔۔
ارے کیا بتاوں یار مہوش تیار ہونے میں اتنا ٹائم لگاتی ہے کہ کیا بتاوں تمہیں۔
ہاں یہ تو ہونا ہی تھا۔۔۔۔دانیال کی بات پر دونوں نے قہقہ لگایا۔
زلیخا بیگم سٹیج پر آئیں اور سارہ کے ہاتھوں میں خوبصورت کنگھن پہنائے۔
اسی طرح سب باری باری آئے اور دونوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوتے گئے۔
رخصتی کا وقت آیا تو دانیال کے بابا نے سارہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر رخصت کیا۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہر بیٹی کو ماں باپ کی اشد ضرورت ہوتی ہے،سارہ پھوٹ پھوٹ کر آنسو بہاتی رہی۔
خیر یہ وقت بھی گزر گیا۔
سارہ رخصت ہو کر دانیال کے کمرے میں آ گئی۔گئی
گلاب کے پھولوں سے سجی اس سیج میں وہ خود بھی گلاب کا پھول لگ رہی تھی۔
سب گھر والے دعائیں دے کر کمرے سے رخصت ہوئے تو دانیال اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
مگر یہ کیا؟؟؟؟
حبا راستہ روکے دروازے میں کھڑی تھی۔
کیا؟؟؟؟
دانیال نے کندھے اچکائے۔
پیسے۔۔۔۔۔حبا نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
اس وقت تو نہی ہیں میرے پاس صبح لے لینا۔
تو پھر ٹھیک ہے بھائی جب آپ کے پاس کیش ہو تب کمرے میں چلے جائیے گا۔
کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ میں آپ کی اکلوتی بہن ہوں اور آپ کا راستہ روکنا میرا حق ہے۔
what??
جی۔۔۔
دیکھو ابھی تو میرے پاس کیش نہی ہے صبح لے لینا۔
promise???
ہاں ہاں وعدہ۔۔۔۔
تو ٹھیک ہے جائیں اب آپ کمرے میں جا سکتے ہیں۔
Thanks alot mam....
دانیال نے اس کا کان کھینچا۔
حبا مسکراتی ہوئی وہاں سے چل دی۔
دانیال کمرے میں آیا تو سارہ گھونگھٹ اوڑھے بیٹھی تھی۔
دروازہ لاک کرتے ہوئے سارہ کی طرف بڑھا۔
جیسے ہی اس نے گھونگٹ اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا سارہ نے منہ دوسری طرف موڑ لیا اور ہاتھ آگے بڑھایا۔
پہلے منہ دکھائی۔۔۔۔۔
منہ دکھائی؟
یہ کس نے سکھایا تمہیں؟
حبا نے کہا تھا جب تک آپ مجھے گفٹ نہ دیں۔میں آپ کو چہرہ نا دکھاوں۔
اوہ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بنا گفٹ کے چہرہ نہی دیکھ سکتا میں؟
جی۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔اس نے سارہ کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگایا۔
سارہ نے تیزی سے اپنا ہاتھ واپس کھینچا۔
دانیال کا قہقہ کمرے میں گونجا۔۔۔۔کیا ہوا گفٹ ہی تو دے رہا تھا۔تھا
بہت برے ہیں آپ٫پیچھے ہٹیں مجھے چینج کرنے جانا ہے۔
ایسے کیسے۔۔۔۔دانیال نے ہاتھ بڑھا کر گھونگھٹ اٹھایا۔
ابھی جی بھر کر دیکھ تو لوں تمہیں آخر کار اتنا خرچہ کیا ہے پارلر کا بار بار تھوڑی نا اتنی پیاری لگو گی تم۔
آپ کا مطلب میں ویسے پیاری نہی ہوں؟
مجھے نہی بات کرنی آپ سے جا رہی ہوں چینج کرنے۔
سارہ اٹھنے ہی والی تھی کہ دانیال نے اس کے گرد بازو پھیلا کر فرار کی راہیں بند کر دیں۔
پہلے نماز پڑھ لیں خدا کا شکر ادا کر لیں پھر چینج کر لینا۔
جی۔۔۔۔سارہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
دونوں نے شکرانے کے دو نفل ادا کیے اور اپنی نئی زندگی کے لیے دعا مانگی۔
اب چینج کر سکتی ہو۔۔۔۔
سارہ ڈریسنگ کی طرف بڑھی اور جیولری اتارنے لگی۔
i can help....
دانیال مدد کے لیے سارہ کے پاس آ رکا۔
سارہ مسکرا دی اور دانیال کے سینے پر سر رکھے خود میں سکون اترتا محسوس کرنے لگی،دانیال بھی سکون سے آنکھیں موندے ان لمحوں کو محسوس کرنے لگا۔
راستہ چاہے جتنا بھی کٹھن ہو مسافر کو منزل مل ہی جاتی ہے بس ارادے مظبوط اور خدا پر بھروسہ ہونا چاہیے۔

ختم شدہ

Thursday, May 28, 2020

مسافر قسط نمبر_23


مسافر
قسط نمبر_23
از
خانزادی

دانیال۔۔۔۔۔یہ کیا کر دیا آپ نے یہ میڈیسن۔۔۔۔؟
کیا کر دیا میں نے سارہ؟
یہ سر درد کی دوائی ہے ناں؟
وہ انجان بنتے ہوئے بولا۔
نہی یہ سر درد کی دوائی نہی تھی بلکہ نیند کی گولیاں تھیں۔
نیند کی گولیاں!
اس کا مطلب اب میں مرنے والا ہوں؟
نہی۔۔۔۔اللہ نا کرے۔
میں آپ کو کچھ نہی ہونے دوں گی۔
وہ ابھی اتنا ہی بولی تھی کہ دانیال سر تھامے بیڈ پے گر گیا۔
سارہ کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔
نہی۔۔۔۔دانیال آنکھیں کھولیں پلیز۔
میں ابھی کامران کو بلاتی ہوں۔
وہ جانے ہی لگی تھی کہ دانیال نے اس کا بازو تھام لیا اور تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
نہی تم کہی نہی جاو گی۔۔۔۔
آج جو ہو گا دیکھا جائے گا۔۔۔ویسے تم بھی تو کھاتی رہتی ہو یہ گولی تو جب تمہیں کچھ نہی ہوا تو مجھے کیوں ہو گا؟
میں تو بس ایک کھاتی ہوں روز۔۔۔۔اپنی غلطی اور دانیال کی غصے بھری نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو سارہ شرمندگی سے نظریں جھکا گئی۔
اور تمہارے خیال میں روز ایک کھانے سے اس کا کوئی نقصان نہی ہوتا؟
یہ سب ہم بعد میں دیکھ لیں گے ناں ابھی آپ میرے ساتھ ہاسپٹل چلیں ورنہ آپ کو کچھ۔۔۔۔
کچھ نہی ہو گا مجھے!
سارہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی دانیال نے اسے بولنے سے روک دیا اور ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔
چاروں گولیاں اس کے ہاتھ میں ہی تھیں۔
سارہ کی جان میں جان آئی۔
آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔
بلکل ویسے ہی جیسے تم نے مجھے ڈرا دیا آج۔۔۔سارہ تم جانتی ہو تمہاری اس غلطی کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟
آج تمہیں ہاسپٹل لے کر گیا تھا میں یہ سمجھ کر کہ تم بے ہوش ہو۔
مگر وہاں جا کر جو حقیت سامنے آئی مجھے بہت دکھ ہوا۔
کب سے چل رہا ہے یہ سب؟
کیا پوچھ سکتا ہوں میں؟
جب سے ماما کی دیتھ ہوئی۔۔۔سارہ شرمندگی سے بولی۔
ماما کی دیتھ کے بعد آنی مجھے پاکستان بھیجنے کے لیے فورس کرنا شروع کر دیا۔
دن بدن میں ڈپریشن میں جانے لگی۔۔۔آخر کار مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔
میں سکون چاہتی تھی۔۔۔دور بھاگنا چاہتی تھی پریشانیوں سے اور مجھے یہی واحد حل ملا۔
جب جب سٹریس میں ہوتی ہوں یہ ٹیبلیٹ کھا کر کر سکون محسوس ہوتا ہے۔
چند گھنٹوں کے لیے ہی سہی مگر میں سٹریس کو ہرانے میں کامیاب رہتی ہوں۔
انجام کی پرواہ کیے بغیر تم نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا سارہ؟
تم جانتی ہو اس کا انجام؟
میں بتاتا ہوں۔۔۔۔اس کا انجام یہ ہو سکتا ہے کہ شاید تم کبھی ماں نا بن سکو گی یا پھر کچھ اور جو اس سے بھی خطرناک ہے برین ہیمبرج۔
اگر تمہیں اپنی پرواہ نہی تو کم ازکم خود سے جڑے رشتوں کا ہی خیال کر لو۔
کبھی سوچا ہے میرا کیا بنے گا؟
مگر نہی تمہیں کسی کی پرواہ نہی تمہیں بس اپنے سکون کی پرواہ ہے۔
دراصل یہ ڈپریشن تمہارا اپنا بنایا ہوا ہے۔۔۔۔تم خوش رہنا ہی نہی چاہتی سارہ۔۔۔
ابھی بھی وقت ہے ایک آخری موقع دے رہا ہوں تمہں٫روک لو مجھے۔
میں ابھی کہ ابھی یہ سب روک دوں گا۔
وہ سارہ کے جواب کا منتظر تھا مگر جب سارہ نے کوئی جواب نہی دیا تو کمرے سے باہر چل دیا۔
مگر پھر رک کر پلٹا۔
کل مہوش سے نکاح ہے میرا۔۔۔۔آنا ضرور۔
سارہ نے ظبط سے آنکھیں بند کیں اور آنکھوں میں بھرتے پانی کو روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔
اب رونا کس بات پر؟
یہ راستہ تم نے خود چنا ہے اپنے لیے۔۔۔یہ ضمیر کی آواز تھی۔
اب جو ہونے جا رہا ہے بھگتنے کے لیے تیار ہو جاو۔
اگلی صبح گھر میں مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی۔
سارہ اپنے کمرے سے باہر ہی نہی آئی۔
حبا اس کے لیے ناشتہ کمرے میں ہی لے آئی۔
بھابی آپ کمرے سے باہر کیوں نہی آ رہی؟
دادو بار بار آپ کا پوچھ رہی ہیں۔
حبا میں کیسے آ سکتی ہوں۔۔۔باہر اتنے زیادہ مہمان ہیں اور میں کسی کو بھی نہی جانتی۔
ہممم ٹھیک ہے مگر ہمیں کچھ دیر تک پارلر جانا ہے۔
آپ کو پھر تو جانا ہی ہو گا۔
میرا جانا ضروری نہی ہے حبا،،،،
کیوں ضروری نہی ہے بھابی؟
میں ہم دونوں کی بکنگ کروا چکی ہوں۔
آپ جلدی سے ناشتہ کر کے تیار ہو جائیں میں آ رہی ہوں آپ کو لینے۔
سارہ نے نا چاہتے ہوئے بھی ناشتہ ختم کیا اور جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
دروازہ ناک ہوا تو وہ دروازے کی طرف پلٹی ہی تھی کہ نظر دانیال پے پڑی۔
اس کے چہرے اور ہاتھوں پر کچھ لگا تھا۔
ارے بھائی آپ یہاں۔۔۔۔وہ سارہ کو دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک حبا وہاں آ گئی۔
ہلدی کی رسم چل رہی تھی اور آپ اٹھ کر آ گئے۔
اور بھابی آپ تیار ہیں؟
ہممم سارہ نے سر ہلایا۔
میں بیگ لے کر آ رہی ہوں۔
سارہ الماری کی طرف بڑھی اپنی شال نکالنے کے لیے مگر جیسے ہی الماری بند کر کے واپس پلٹی دانیال اس کے پیچھے کھڑا تھا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے سارہ کا چہرہ تھام لیا اور بے بسی سے اسے دیکھنے لگا۔
پھر اچانک بے بسی کی جگہ غصے نے لے لی۔۔۔اس نے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے اور بنا کچھ بولے کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ نے سکھ کا سانس لیا مگر جیسے ہی اس کی نظر شیشے پے پڑی حیران رہ گئی۔
دانیال کے ہاتھوں پے لگی ہلدی اس کے چہرے پر بھی لگ گئی۔
وہ تیزی سے واش روم گئی اور چہرہ دھو کر باہر آ گئی۔
حبا اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی۔۔۔وہ شال لپیٹ کر چہرہ چھپائے گاڑی میں بیٹھ گئی۔
کامران ان دونوں کو پارلر چھوڑ آیا۔
واپسی پر سارہ بہت اداس تھی۔
زندگی میں پہلی بار پارلر آئی ہوں میں حبا۔
And it was bad experience....
حبا مسکرا دی۔
Dont worry bhabi
آہستہ آہستہ عادت ہو جائے گی۔
نہی مجھے نہی ڈالنی یہ عادت۔۔سارہ نا چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔
پورا دن ضائع ہو گیا۔
اور پورا دن ضائع ہونے کے بعد نتیجہ یہ نکلا ہے کہ۔۔۔
Now your are looking so pretty 
گھر جا کر آپ کی نظر اتاروں گی۔
لیکن میں ڈوپٹہ ایسے کندھے پے نہی رکھ سکتی حبا۔۔۔مجھے عادت نہی ہے۔
کچھ نہی ہو گا بھابھی۔
نکاح تو کب کا ہو گیا ہو گا٫پانچ بجے کا ٹائم تھا اب نو بج رہے ہیں۔
اب تو مہندی کا فنکشن شروع ہو گیا ہو گا۔
نکاح کے نام پھر سے سارہ کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔
گیراج میں سناٹا چھا رہا تھا سب مہمان گارڈن میں جا چکے تھے۔
سارہ نے پھر بھی شال چہرے کے گرد لپیٹ لی۔
بھابھی ادھر جانا ہے حبا نے اسے ٹوکا مگر وہ اندر کی طرف بڑھ گئی۔
حبا بھی ڈھیٹ تھی۔۔۔اس نے سارہ کی شال اتار کر رکھ دی اور اسے زبردستی گارڈن میں سجے ہال کی طرف لے گئی۔
وہ اس وقت لائٹ براون اور گولڈن لہنگے میں بال کھلے چھوڑے ماتھے پے بندیا لگائے سوفٹ میک کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
وہ زندگی میں پہلی بار ایسے تیار ہوئی تھی اور اتنے سارے لوگوں کے درمیان جانا میں اسے ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔
وہ جیسے ہی اینٹرس پے پہنچی حبا کو اس کی کزن لے گئی اور وہ تنہا وہاں کھڑی رہ گئی۔
سب کی نظریں سٹیج پے بیٹھی جوڑی پے جمی تھیں کسی نے اس کی طرف نہی دیکھا۔
جیسے ہی اس کی نظر دانیال اور مہوش پے پڑی اس کا ظبط جواب دے گیا اور وہ آنکھوں میں آنسو لیے وہاں سے بھاگ آئی۔
دانیال اور مہوش کے چہرے پر مسکراہٹ اور دونوں کا محبت بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنا سارہ برداشت نا کر سکی۔
کمرے میں آئی اور دروازہ لاک کر دیا۔
یہ سب جتنا آسان لگ رہا تھا اتنا آسان تھا نہی۔۔۔
کئی گھنٹے یونہی آنسو بہاتے گزر گئے۔
وہ ڈریسنگ کی طرف بڑھی۔
بندیا اتارنے ہی لگی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز پر واپس پلٹی۔
دروازے پر دانیال تھا کھانے کی ٹرے اٹھائے۔
اس نے ٹرے میز پر رکھی اور سارہ کی طرف بڑھا۔
اس کا بازو تھام کر صوفے تک لایا۔
سارہ نے آج اپنا ہاتھ واپس نہی کھینچا۔
دانیال اسے کھانا کھلا رہا تھا اور وہ چپ چاپ کھا رہی تھی۔
یہ آخری بار تھا۔۔۔اب سے تمہیں اپنا خیال خود رکھنا پڑے گا۔
سارہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
اسی میں تمہاری خوشی تھی ناں؟
سارہ نے سر نفی میں ہلایا۔
چلتا ہوں۔۔۔۔بہت تھک گیا ہوں۔
وہ جیسے ہی جانے کے لیے اٹھا سارہ اس کا بازو تھام چکی تھی۔
دانیال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اس نے پلٹ کر سارہ کی طرف دیکھا۔
واپس صوفے پر بیٹھا اور دونوں ہاتھوں میں سارہ کا چہرہ تھام کر اس کے ماتھے پر ہونٹ رکھے اور تیزی سے باہر چل دیا۔
دانیال پلیز رک جائیں۔۔۔میں غلط تھی۔
بہت بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے۔۔۔۔وہ رو رہی تھی اپنی غلطی پے پچھتا رہی تھی مگر اب سننے والا کوئی نہی تھا۔

________________________________________

کیسی لگی آج کی ایپیسوڈ۔؟
اگلی قسط آخری ہو گی۔۔۔۔



Thursday, May 21, 2020

مسافر قسط نمبر_22


مسافر
قسط نمبر_22
از
خانزادی

شام کو سارہ کمرے سے باہر آئی تو ہر طرف شور تھا٫پورے گھر کو پھولوں اور لائیٹوں سے سجایا جا رہا تھا۔
وہ چلتی ہوئی باہر لان میں چلی گئی۔
وہاں بھی ہر طرف سجاوٹ کا شور تھا۔
وہ بے دلی سے واک کرنے چلی گئی۔
واپس آئی تو حبا سے ٹکرا گئی۔
بھابی آپ وہاں باہر کیا کر رہی تھی؟
سب خیریت؟
ہاں بس تھوڑی گھبراہٹ ہو رہی تھی کمرے میں تو سوچا واک کر لوں۔
آپ اپنے کمرے میں چلیں اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیں۔
باہر کام ہو رہا ہے اس لیے آج کھانا سب کو اپنے اپنے کمرے میں ہی کھانا پڑے گا۔
آپ چلیں میں بھجواتی ہوں۔
نہی حبا مجھے ابھی بھوک نہی ہے٫تم کھا لو۔۔بس اتنا بول کر وہ تیزی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
کیا ہوا؟
ابھی سارہ وہاں سے گئی ہی تھی کہ دانیال حبا کے پاس آ رکا۔
بھائی مجھے لگتا ہے بھابی کی طبیعت ٹھیک نہی ہے۔
آپ ڈاکٹر کے پاس لے جائیں انہیں۔
ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں۔۔۔دانیال اس کے کمرے کی طرف چل دیا۔
سارہ کمرے میں گئی اور پانی کا گلاس بھرا دراز سے ایک گولی نکالی اور نگل لی۔
صوفے پر سر گرائے آنکھیں بند کیے بیٹھ گئی۔
میں پاگل ہو جاوں گی اگر مزید یہ سب دیکھا تو٫اب میں اپنے کمرے سے باہر نہی جاوں گی۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ کسی نے اس کا ماتھے کو چھوا۔
اس کی آنکھیں کھلیں تو سامنے دانیال تھا۔
کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے؟
یہ پسینہ کیوں آ رہا ہے تمہیں؟
کتنی بار بولا ہے اے سی آن رکھا کرو مگر تم سنتی ہی کہاں ہو۔۔۔دانیال کی نظر بند اے سی پر پڑی تو غصے سے بولا۔
اے سی آن کرتے ہوئے سارہ کے پاس آ بیٹھا۔
آخر کس بات کی سزا دے رہی ہو خود کو؟
کسی بات کی نہی۔۔۔۔بس مجھے اے سی میں رہنے کی عادت نہی ہے۔
آپ جائیں مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔سارہ ماتھے پر ہاتھ رکھے بولی۔
یہ کوئی ٹائم ہے سونے کا سارہ؟
بس ایسے ہی نیند آ رہی ہے٫آپ پلیز جائیں یہاں سے۔
سچ کیوں نہی کہہ دیتی سارہ؟
کہہ دو کہ تمہیں یہ سب اچھا نہی لگ رہا۔۔۔خوش نہی ہو تم اس شادی سے۔
ایسا کچھ نہی ہے میں بہت خوش ہوں۔
بس کچھ دیر سکون سے سونا چاہتی ہوں۔۔۔۔آپ جائیں میرے کمرے سے۔
میرے سر میں بہت درد ہے۔
اگر سر میں درد زیادہ ہے تو ڈاکٹر پاس چلتے ہیں۔
نہی۔۔۔کہی نہی جانا مجھے میں کچھ دیر آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاوں گی۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔میں دوبارہ آوں گا کچھ دیر تک اگر طبیعت ٹھیک نا ہوئی تو ہم ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔
وہ بے بس سا کمرے سے باہر آ گیا۔
اتنا عجیب رویہ کیوں ہے سارہ کا؟
دانیال کو اس کی حالت کچھ ٹھیک نہی لگی۔
وہ دس منٹ بعد دوبارہ کمرے میں آیا تو وہ سو رہی تھی۔
اسے پرسکون سوتے دیکھ کمرے سے باہر آ گیا۔
کامی یار کہاں تھے تم؟
کیسے بھائی ہو تم؟
گھر میں بڑے بھائی کی شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں اور تم غائب ہو۔
جی بھائی میں بس اکیڈمی تھا۔۔۔ٹیسٹ تھا تو جانا ضروری تھا۔
اب سب سنبھال لوں گا میں۔۔۔۔
ٹھیک ہے پہلے فریش ہو جاو۔۔۔کھانا کھاو اور پھر آ جاو۔
ٹھیک ہے بھائی بس دس منٹ میں آیا۔
وہ آگے بڑھا اور سجاوٹ والوں کو کچھ سمجھانے لگا۔
تب ہی فون بجنے لگا۔
اسفند کی کال تھی۔
اے بڈی کیسے ہو؟
اسفند کی پرجوش آواز فون میں گونجی۔
کیسا ہو سکتا ہوں یار۔۔۔۔؟
پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا دانی۔
کچھ فرق پڑا؟
نہی اسفی۔۔۔۔وہ اپنی ضد پر قائم ہے اور میں ہار مان چکا ہوں۔
نہی تم ہار نہی مان سکتے دانی۔
اگر وہ ضد پر ہے تو تم بھی اپنی ضد پر قائم رہو۔
مجھے لگتا ہے میں مزید یہ نہی کر پاوں گا۔۔۔۔میرا دل نہی مان رہا۔
کچھ نہی ہو گا یار دانی ہمت مت ہار۔
میں آ رہا ہوں کل شام تمہارے سامنے موجود ہو گا۔
اپنے فیصلے سے پیچھے نہی ہٹ سکتے تم۔
اب جو ہو رہا ہے اسے ہونے دو۔
ہمممم۔۔۔جلدی آ جاو میں انتظار کر رہا ہوں۔
اوکے انتظار کرو بڈی۔
اسفند نے کال کاٹ دی۔
دس بج رہے ہیں اور بھابی سو بھی گئی۔۔۔حبا کھانے کی ٹرے اٹھائے سارہ کے کمرے سے باہر آ رہی تھی۔
دانیال اور کامران ابھی ابھی فری ہوئے تھے سجاوٹ کا کام ختم کروا کر۔
کیا ہوا؟
دانیال کی نظر حبا پے پڑی۔
کھانا لے کر گئی تھی بھابھی کے لیے مگر وہ سو رہی ہیں۔
میں نے جگانے کی کوشش بھی کی مگر وہ اٹھی ہی نہیں۔
میں دیکھتا ہوں۔۔۔دانیال پریشانی سے کمرے میں گیا۔
سارہ سب سے بے فکر آرام سے سو رہی تھی۔
سارہ۔۔۔۔دانیال اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
اسے آواز دی مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نا ہوئی۔
ایسے تو کبھی نہی سوئی یہ پہلے کبھی۔۔۔کل بھی ایسے ہی سو رہی تھی۔
دانیال کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
اس نے وین چیک کی تو بہت مدھم چل رہی تھی۔
سارہ۔۔۔۔اس نے پھر سے آواز دی مگر سارہ ویسے ہی پڑی رہی۔
Ohhh shittttt......
یہ تو بے ہوش ہے۔
حبا۔۔۔۔کامی۔۔۔۔وہ پریشانی سے دونوں کو آواز دینے لگا۔
دونوں بھاگے بھاگے کمرے میں آئے۔
کامی گاڑی نکالو جلدی سے۔۔چابی میرے کمرے میں ہے۔
بھائی ہوا کیا ہے۔۔۔حبا پریشانی سے بولی۔
سارہ بے ہوش ہے اسے ہاسپٹل لیجانا پڑے گا۔
وہ سارہ کو بازوں میں اٹھائے باہر کی طرف بھاگا۔
کامی گاڑی باہر نکال چکا تھا۔
سارہ کو پچھلی سیٹ پر لٹا کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
بھائی ہم بھی ساتھ چلتے ہیں۔۔۔کامی نے آفر کی۔
نہی تم دونوں گھر جاو اور کسی کو بتانے کی ضرورت نہی ہے سب پریشان ہو جائیں گے۔
ٹھیک ہے بھائی۔۔۔۔وہ دونوں گھر واپس چلے گئے۔
Dont worry she is fine....
ڈاکٹر سارہ کی وین چیک کرتے ہوئے بولا۔
لیکن یہ بے ہوش کیوں ہے؟
یہ ابھی کچھ دیر میں پتہ چل جائے گا۔
ان کے کچھ ٹیسٹ کرنے ہو گے۔
ان کا کیا رشتہ ہے آپ سے؟
She is my wife....
ہممم دیکھئیے مسٹر دانیال ایسا دو صورتوں میں ہوتا ہے یا تو پیشنٹ کا نروس بریک ڈاون ہو یا پھر بلڈ پریشر لو ہو۔
اور ایک تیسری وجہ بھی ہے۔۔۔۔پیشنٹ ڈرگز لیتا ہو۔
کیا آپ کی مسز نشہ کرتی ہیں؟
Excuse me!
یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ؟
یہ ایسا کچھ نہی کرتیں۔
ہمممم کچھ دیر میں رپورٹ آ جائے تو آپ خود دیکھ لینا۔
ابھی یہ ہوش میں نہی آ سکتی۔۔۔آپ چاہیں تو انہیں گھر لے جا سکتے ہیں اور چاہیں تو ان کے ہوش میں آنے کا انتظار کر سکتے ہیں۔
آپ کیا کہہ رہے ہیں میری سمجھ میں کچھ نہی آ رہا۔
kindly explain.....
ٹھیک ہے۔۔۔۔
ایسا اکثر ان پیشنٹس کے ساتھ ہوتا ہے جو پریشانیوں میں گھرے ہو یا پھر یوں کہہ لیں ہر وقت ڈپریشن میں رہتے ہو۔
تو ایسے پیشنٹس خود کو اس ڈپریشن سے نجات دلانے کے لیے یا ڈرگز کا استعمال کرتے ہیں یا پھر ایسی میڈیسنز استعمال کرتے ہیں جن میں ڈرگز ہو۔
جیسے ہم عام زبان میں ایسی میڈیسنز کو نیند کی دوائی کہتے ہیں۔
ہو سکتا ہے یہ ڈرگز نا لیتی ہو مگر انہوں نے کوئی نیند کی میڈیسن ضرور کھائی ہے۔
آپ گھر جا کر ان کی الماری وغیرہ کی تلاشی ضرور کریں٫آپ کو ثبوت مل جائے گا۔
دانیال پریشانی سے سارہ کو دیکھ رہا تھا۔
i am sorry ani....
آپ سے کیا وعدہ ٹھیک سے نہی نبھا سکا میں۔
کچھ دیر بعد رپورٹ آئی تو دانیال فکر مندی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھا۔
دیکھا۔۔۔میں نے کہا تھا ناں آپ سے۔۔۔یہ رہا ثبوت۔
آپ کی مسز بہت عرصے سے ڈرگز والی میڈیسنز یوز کر رہی ہیں۔
اس کا کوئی حل؟
اس کا حل یہی ہے کہ انہیں پریشانیوں سے دور رکھا جائے اور ان کا بہت سارا خیال رکھا جائے۔
ایسے پیشنٹس تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔
آپ انہیں وقت دیں اور اس ڈپریشن سے باہر لائیں ورنہ بہت نقصان ہو سکتا ہے۔
کیسا نقصان؟
بہت کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔مثلاََ برین ہیمرج ہو سکتا ہے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کبھی ماں نا بن سکیں۔
اب آپ پر ہیں آپ کیسے انہیں زندگی کی طرف واپس لاتے ہیں۔
ہمممم۔۔۔۔۔تھینکس ڈاکٹر۔
میں انہیں گھر لے جانا چاہتا ہوں۔
Ok sure...
واپس گھر لا کر سارہ کو پھر سے بیڈ پر واپس لٹا دیا اور خود بھی وہی اس کے پاس لیٹ گیا۔
اب میں تمہیں خود سے مزید دور نہی جانے دوں گا۔
رات کے تین بجے سارہ کی آنکھ کھلی تو اس کا سر دانیال کے بازو پر تھا۔
وہ چونک کر پیچھے ہٹی اور سر تھام کر اٹھ بیٹھی۔
گلاس میں پانی ڈالا اور پی لیا۔
دانیال کی نظر سارہ پر پڑی تو اٹھ کر بیٹھ گیا۔
تمہیں بھوک لگی ہو گی۔۔۔۔میں کھانا لے کر آ رہا ہوں۔
نہی میں خود۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ سارہ کچھ بولتی دانیال کی نظروں نے اس خاموش رہنے پر مجبور کر دیا۔
وہ کھانا لے کر آیا اور اپنے ہاتھوں سے سارہ کو کھلایا۔
وہ آنسو بھی بہا رہی تھی کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ۔
آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟
کیوں میری عادتیں بیگاڑ رہے ہیں آپ؟
میں آپ سے جتنا دور جانے کی کوشش کرتی ہوں آپ میرے اتنے ہی زیادہ قریب آ جاتے ہیں۔
آپ مجھے اکیلا کیوں نہی چھوڑ دیتے؟؟؟
کیا کبھی دل دھڑکن سے جدا ہوا ہے؟
دانیال کے سوال پر سارہ دھنگ رہ گئی۔
نہی ناں؟؟؟
تو پھر تم کیوں خود کو مجھ سے دور کرنا چاہتی ہو سارہ؟
آخر کیوں؟؟؟؟
میرا قصور کیا ہے؟
کیا میں آج تک اپنی زمہ داریوں سے پیچھے ہٹا؟
تمہارے معاملے میں کبھی لاپرواہی کی؟
سارہ نے سر نفی میں ہلایا۔
تو پھر کیوں سارہ؟
کس بات کی سزا دے رہی ہو مجھے؟
روک کیوں نہی لیتی مجھے؟
ایک بار سارہ۔۔۔۔بس ایک بار۔۔۔مجھے روک کر تو دیکھو۔
میں تمہارے لیے سب چھوڑ دوں گا۔
تمہاری خوشی میں ہی میری خوشی ہے آخر تم سمجھ کیوں نہی لیتی؟
وہ سارہ کے ہاتھ تھامے اس کی آخری جواب کا انتظار کر رہا تھا سوچ رہا تھا کہ شاید اب اس کا دل پھگل جائے گا۔
مگر نہی وہ غلط تھا۔۔۔۔
سارہ نے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے۔
آپ یہاں سے چلے جائیں پلیز۔۔۔۔اور اب میرے کمرے میں مت آئیے گا۔
آپ کی نئی زندگی شروع ہونے والی ہے اپنی نئی زندگی کے آغاز کی تیاری کریں۔
تم بہت بے رحم ہو سارہ۔۔۔۔۔
میرے سر میں درد ہے پلیز مجھے میڈیسن لا دو گی؟
جی۔۔۔۔سارہ کمرے سے باہر جانے کے لیے اٹھی ہی تھی کہ دانیال نے اس کا بازو تھام لیا۔
باہر سے نہی۔۔۔۔باہر جانے کی کیا ضرورت ہے جب دوائی کمرے میں ہی موجود ہے۔
رکو میں لے کر کر آتا ہوں شاید تمہیں نہی پتہ ہو گا کہاں پڑی ہے۔
وہ آگے بڑھا اور سائیڈ ٹیبل کے دراز سے وہی میڈیسن نکالی جو سارہ نے کھائی تھی۔
اس میں سے چار گولیاں نکال کر منہ میں رکھیں اور پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔تو کیسی لگی آج کی قسط؟؟؟؟


Monday, May 18, 2020

مسافر قسط نمبر_21


مسافر
قسط نمبر_21
از
خانزادی

سارہ میں تھک چکا ہوں تمہیں سمجھا سمجھا کر مگر تم مجھ پر اعتبار ہی نہی کرتی۔
تو ٹھیک ہے اگر یہی تمہاری مرضی ہے تو جیسے تمہاری مرضی۔
اب میں وہی کروں گا جو تم چاہو گی۔
دانیال بے بسی سے اس کے کمرے پر نظر دوڑائے تیزی سے وہاں سے چل دیا۔
سارہ فجر کی نماز پڑھ کر گارڈن میں واک کے لیے چل دی۔
وہ اپنے ہی دھیان میں مگن چلتی جا رہی تھی کہ اچانک کسی سے ٹکرائی اور گرتے گرتے بچی۔
دانیال اسے گرنے سے بچا چکا تھا۔
ابھی سے قدم لڑکھڑانے لگے تمہارے؟
ابھی تو شروات ہے سارہ۔
ضروری نہی کہ ہر بار میں تمہیں بچانے آوں گا۔
اب اپنے پاوں پے چلنا سیکھنا شروع کر دو،آگے بہت کام آئے گا۔
کیونکہ اب میں کسی اور کا سہارا بننے والا ہوں۔
سارہ گم سم سی چپ چاپ دانیال کی باتوں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
مہوش سے تو مل چکی ہو تم،
اسی ہفتے شادی کر رہا ہوں مہوش سے!
اپنی مرضی سے نہی بس تمہاری ضد کی وجہ سے۔۔۔۔۔
آپ جانتے تو ہیں سب یہ میری ضد نہی ہے بلکہ سمجھوتہ ہے۔
سارہ کو چپ توڑنی ہی پڑی۔
سمجھوتہ؟
"عورت ہر چیز پر سمجھوتہ کر سکتی ہے مگر اپنے شوہر کے معاملے میں وہ بہت کمزور ہوتی ہے اس کے معاملے میں وہ کوئی سمجھوتہ نہی چاہتی"
"عورت ہر چیز بانٹ سکتی مگر اپنا شوہر نہی"
لیکن کوئی فائدہ نہی تمہیں سمجھانے کا کیونکہ تمہاری نظر میں میری کوئی اہمیت نہی ہے اگر تمہاری زندگی میں کسی کی اہمیت ہے تو وہ ہے تمہاری ضد۔۔۔
جب تک تمہیں ان باتوں کی سمجھ آئے گی تم سب کچھ ہار چکی ہو گی۔
تب تمہارے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہی بچے گا۔
تم اپنی ضد پر قائم رہو اور میں تمہاری ضد نبھانے کی کوشش کروں گا۔
کوشش کروں گا کہ میرے قدم تمہاری طرح لڑکھڑائیں ناں۔
وہ اپنی بات مکمل کرتے ہی وہاں سے چلا گیا۔
کیسے سمجھاوں آپ کو یہ میری ضد نہی ہے بڑی ماما کی ضد ہے اور میں ماں اور بیٹے میں جدائی کا سبب نہی بننا چاہتی۔
وہ آنسو پونچھتی ہوئی واک کرنے میں مصروف ہو گئی۔
سارے گھر میں شور سا پھیلا ہوا تھا کہی جانے کی تیاری میں تھے سب۔۔۔ظہر کی نماز پڑھ کر سارہ کمرے سے باہر آئی تو سب تیار تھے کہی جانے کے لیے۔
دادو آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں سب؟
وہ ہچکچاتے ہوئے بولی۔
تمہارے شوہر کی منگنی پر!
دادو نے کھرا جواب سنایا۔
اب اگر یہی تمہاری مرضی ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
اگر ساتھ چلنا چاہتی ہو تو آ جاو۔
نہی آپ لوگ جائیں میں یہی ٹھیک ہوں۔
وہ اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔
ابھی کمرے میں واپس آئی ہی تھی کہ دروازہ ناک ہوا اور دانیال کمرے میں داخل ہوا۔
کیسا لگ رہا ہوں؟
وہ وائٹ شلوار قمیض پر ڈارک براون واسکٹ پہنے تیار سارہ کا ظبط آمانے کو تیار تھا۔
اااچھے لگ رہے ہیں۔۔۔۔وہ مختصر جواب دے کر کمرے سے باہر جانے ہی لگی تھی کہ دانیال نے اسے بازو سے کھیچ کر اپنے قریب کیا۔
اگر اچھا لگ رہا ہوں تو مجھ سے دور کیوں بھاگ رہی ہو؟
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولو کہ تم بہت خوش ہو۔
سارہ نے ظبط سے آنکھیں زور سے بند کیں اور مسکرا کر دانیال کی طرف دیکھا۔
میں بہت خوش ہوں۔۔۔۔
دانیال کے ہاتھ کی گرفت اس کے بازو پر ڈھیلی پڑی اور اس کی آنکھوں میں نفرت ابھرنے لگی۔
مگر اگلے ہی پل وہ مسکرا دیا۔
میں بھی بہت خوش ہوں آج بہت خوش۔۔۔۔۔
اپنے درد کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ کمرے سے باہر چل دیا۔
سب گھر سے چلے گئے تو سارہ نے ملازمہ کو ایک پیپر دیا۔
مجھے یہ میڈیسن منگوا دیں۔
جی میڈم میں ابھی کسی کو بھیج کر منگوا دیتی ہوں۔
کچھ دیر بعد ملازمہ نے اس کے کمرے کا دروازہ ناک کیا اور میڈیسن دے کر چلی گئی۔
سارہ نے ایک گولی نکالی اور پانی کے ساتھ نگل لی۔
یہ کوئی عام دوائی نہی تھی نیند کی گولی تھی باقی اس نے سنبھال کر دراز میں چھپا دیں۔
وہ تھک چکی تھی اور کچھ دیر آرام چاہتی تھی۔
کمرے کی لائیٹس آف کی اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔
سارہ کی آنکھ کھلی تو کمرے میں ہر طرف اندھیرا تھا۔
اس نے جیسے ہی فون اٹھانے کے لیے سائیڈ ٹیبل کی طرف ہاتھ بڑھایا کسی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
سارہ نے ایک زور دار چیخ مارنے کی کوشش کی مگر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس چیخ کو دبا دیا گیا۔
فون کی روشنی جلی اور سارہ نے سکھ کا سانس لیا۔
وہ دانیال تھا ایک ہاتھ میں فون تھامے اور دوسرا ہاتھ سارہ کے ہونٹوں پر رکھے اس کی طرف جھکے ہوئے۔
آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔
سارہ نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی مگر دانیال نے اس کی یہ کوشش ناکام کر دی۔
اتنی گہری نیند میں سو رہی تھی تم کہ میری موجودگی کا احساس ہی نہی ہوا تمہیں۔۔۔کب سے تمہارے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔
وہ سارہ کے چہرے پر آئے بال کان کے پیچھے سمیٹتے ہوئے بولا۔
اور اتنا اندھیرا کیوں کمرے میں؟
وہ بول رہا تھا مگر سارہ اس کے دل کی دھڑکن تک محسوس کر رہی تھی۔
اتنی قربت پر اس کا چہرہ پسینے سے تر ہونے لگا۔
آپ یہ کیا۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ سارہ کچھ اور بولتی دانیال نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کر دیا۔
شششش۔۔۔۔آج میں بولوں گا اور تم سنو گی۔
وہ فون کی ٹارچ لائٹ بند کرتے ہوئے سارہ کے ہونٹوں پر جھک گیا۔
سارہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہی تھی اور بچنے کی ساری امیدیں دم توڑ چکی تھیں اس نے اپنا آپ دانیال کو سونپ دیا۔
سارہ پڑھ کر صوفے پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔
یہ کیسا امتحان ہے میرے اللہ۔۔۔۔میں جتنا ان سے دور جانے کی کوشش کرتی ہوں یہ میرے اتنے ہی زیادہ قریب آ جاتے ہیں۔
دانیال کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر سارہ پر پڑی۔
وہ صوفے پر بیٹھی سر گھٹنوں پے گرائے آنسو بہا رہی تھی۔
وہ مسکراتے ہوئے اس کے پاس آ بیٹھا۔
کیا ہوا سارہ رو کیوں رہی ہو؟
سارہ نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
آپ نے جو کیا وہ سب سہی نہی ہے۔
کیا سہی نہی ہے سارہ؟
میرا تمہارے پاس آنا٫تمہیں چھونا سب غلط نہی ہے۔۔۔۔۔بلکہ میرا حق ہے اور جتنا حق میرا تم پر ہے اتنا ہی حق مہوش۔۔۔۔باقی تم خود سمجھدار ہو۔
مجھے سمجھانے کی ضرورت نہی پڑے گی۔
وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ کو سوچ کے سمندر میں دھکیل کر وہ وہاں سے جا چکا تھا۔
Ohhh shitt.....
اتنا بے وقوف کیسے ہو سکتا ہوں میں؟
اتنی بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے۔۔۔یہ سب ایسے نہی ہونا چاہیے تھا۔
میں خود پر کنٹرول نہی کر سکا۔۔۔اپنے کمرے میں آتے ہی دانیال احساس شرمندگی میں سر تھامے بیٹھ گیا۔
نہی۔۔کچھ غلط نہی کیا میں نے سارہ بیوی ہے میری اور حق رکھتا ہوں میں اس پر۔۔۔۔لیکن اس کی مرضی کے بغیر ایسا قدم نہی اٹھانا چاہیے تھا مجھے۔
گیا تو تھا اسے اپنی اور مہوش کی پکچرز دکھانے اور یہ سب ہو گیا۔
خیر۔۔۔۔۔کوئی بات نہی جو بھی ہوتا ہے ہمارے اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے۔
شاید میری قربت سارہ کو مجھے خود سے دور جانے سے روک دے اور اسے احساس ہو جائے کہ میاں بیوی کا رشتہ بس نام کا نہی ہوتا احساس جڑتے ہیں ایک دوسرے سے۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد سارہ کمرے میں آئی ہی تھی کہ حبا وہاں آ گئی۔
بھابی جلدی تیار ہو جائیں ہمیں شاپنگ پر جانا ہے۔
شاپنگ پر؟
جی بھابی شادی کی شاپنگ پر۔۔۔۔بھائی نے کہا ہے آپ بھی ساتھ چلیں۔
مگر میں کیسے۔۔۔۔۔
حبا تم تم جاو جاو تیار ہو کر گاڑی میں بیٹھو ہم آ رہے ہیں۔
جی بھائی۔۔۔۔حبا مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
سارہ نظریں چراتی ہوئی کمرے سے باہر جانے ہی لگی تھی کہ دانیال کی آواز پر رک گئی۔
لگتا ہے تمہیں جلن ہو رہی ہے مہوش سے اور تم خوش نہی لگ رہی اس شادی سے۔
ایسا کچھ نہی ہے۔۔۔۔وہ دانیال کی طرف دیکھے بنا بولی۔
تو پھر ٹھیک ہے اگر ایسا کچھ نہی ہے تو ثابت کرو۔
میں گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں جلدی آ جانا۔۔۔پانچ منٹ سے زیادہ انتظار نہی کروں گا۔
ok...i am coming....
سارہ غصے سے الماری کی طرف بڑھی اپنی شال اوڑھی اور ہینڈ بیگ اٹھائے کمرے سے باہر چل دی۔
دانیال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔وہ بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
جیسے ہی شاپنگ مال میں داخل ہوئے سارہ کی نظریں آج بھی اس برائیڈل ڈریس پر جم سی گئیں۔
بھابی چلیں۔۔۔۔حبا کی آواز پر وہ چونک گئی۔
یہ تو برائیڈل ڈریسز ہیں سارے ہمیں پارٹی ڈریسز چاہیے۔
ہممم۔۔۔۔سارہ مسکرا دی۔
ہاں چلو چلتے ہیں۔
وہ دونوں آگے چلی گئیں جبکہ دانیال وہی فون کان سے لگائے کسی سے باتیں کرنے میں مصروف کھڑا رہا۔
ٹھیک دو گھنٹے بعد وہ دونوں ڈھیر سارے شاپنگ بیگز اٹھائے واپس آئیں۔
اتنی دیر لگا دی؟
میں کب سے انتظار کر رہا ہوں۔
بھائی اب تو آپ کو عادت ڈال لینی چاہیے کیونکہ مہوش شاپنگ کی شوقین ہے اور مجھے امید ہے کہ ہفتے میں چار دن تو آپ کو شاپنگ مالز میں ہی گزارنے پڑیں گے۔
Ofcource.....
میں تیار ہوں۔۔۔اب اتنا پیار کرنے والی بیوی کی بات کوئی پاگل شوہر ہی ہو گا جو جھٹلائے گا۔
لاو یہ شاپنک بیگز مجھے دو اور باہر انتظار کرو میں گاڑی لے کر آتا ہوں۔
اس نے حبا کے ہاتھ سے بیگز تھام لیے مگر سارہ کے بیگز اٹھانے کے لیے جگہ ہی نہی تھی۔
I will manage.....
نہی بھابی آپ ایسا کریں بھائی کے ساتھ چلی جائیں میں باہر انتظار کرتی ہوں آپ دونوں کا۔
دانیال وہاں سے چل دیا اور مجبورا سارہ کو اس کے پیچھے چلنا پڑا۔
پوری سیٹ پر تو شاپنگ بیگز بھر چکے ہیں تم دونوں پیچھے نہی بیٹھ سکتی۔
تم فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جاو۔۔۔
سارہ چپ چاپ دانیال کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
حبا کو پک کرتے ہوئے وہ گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
بھائی ویٹ۔ویٹ۔۔۔۔یہ روڈ پر جو پارلر ہے وہاں گاڑی روک دیں۔
پارلر کے لیے بکنک کروانی تو یاد ہی نہی رہی۔۔۔
اوکے جاو۔۔۔۔دانیال نے پارلر کے باہر گاڑی پارک کر دی۔
میں بس پانچ منٹ میں آئی۔۔۔۔
سارہ۔۔۔۔۔
جی۔۔۔۔دانیال کی آواز پر سارہ ایک دم چونک اٹھی۔
سارہ ابھی بھی وقت ہے سوچ لو۔۔۔وہ سارہ کا ہاتھ تھامے بولا۔
سارہ نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
میں کوئی بھی فیصلہ بنا سوچے نہی کرتی۔
ہمممم ٹھیک ہے اب دوبارہ تم سے نہی پوچھوں گا آج ایک آخری موقع تھا تمہارے لیے جو تم نے گنوا دیا۔
اب آنے والی مشکلات کے لیے مجھے زمہ دار مت ٹہرانا۔
ہو گئی بکنگ۔۔۔۔چلیں بھائی۔
حبا آئی تو دانیال نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔

________________________________________

کیسی لگی آج کی قسط؟








Thursday, May 14, 2020

مسافر قسط نمبر_20


مسافر
قسط نمبر_20
از
خانزادی

بھائی یہ لیں مل گئی چابی۔۔۔حبا گھبرائی ہوئی پھولتے ہوئے سانس کو بحال کرتے ہوئے بولی اور چابی دانیال کی طرف بڑھائی۔
اس کی ضرورت نہی ہے اب۔
بھابی ٹھیک تو ہیں؟
حبا کمرے میں جانے ہی لگی تھی کہ دانیال نے اسے روک دیا۔
اسے کچھ دیر اکیلا چھوڑ دو۔
میرا مطلب ہے اسے آرام کی ضرورت ہے سفر سے تھک گئی ہے۔
ہممم اچھا ٹھیک ہے بھائی۔
آپ بھی تھک گئے ہو گے آپ بھی آرام کر لیں۔
ہاں میں جا ہی رہا تھا اپنے کمرے میں۔
ویسے بھائی مام اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں بھابی سے؟
i mean....
وہ تو پہلے کبھی ملی بھی نہی ایک دوسرے سے تو پھر اتنی نفرت۔
اس سوال کا جواب تو میں بھی جاننا چاہتا ہوں کہ آخر ایسا کیا ہے جو مام کا رویہ سارہ کے ساتھ اس قدر نفرت بھرا ہے۔
خیر اس بارے میں مام سے بات کرتا ہوں آج۔
ٹھیک ہے بھائی آپ جائیں اپنے کمرے میں مجھے بھی اسائنمنٹ بنانی ہے میں زرا کامی کا سر کھا لوں۔
ٹھیک ہے دانیال نے ایک نظر سارہ کے کمرے پر ڈالی اور پھیکی سی مسکراہٹ لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
رات کو کھانے کی میز پر سب موجود تھے۔
ڈیڈ مجھے آپ سے۔۔۔۔بلکہ آپ سب سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
دانیال کی آواز پر سب اس کی طرف متوجہ ہوئے سوائے سارہ کے وہ پلیٹ سامنے رکھنے بس اسی کو گھورنے میں مصروف تھی۔
ہاں کہو کیا کہنا چاہتے دادا جی نے بات شروع کی۔
دراصل بات یہ ہے کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔
دانیال کی نظریں سارہ پر ہی جمی تھیں اسی پل سارہ نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
ہاں بھئی ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے نکاح ہو چکا ہے شادی بھی کر دیتے ہیں۔
دانیال کے بابا مسکراتے ہوئے بولے۔
نہی ڈیڈ۔۔۔۔۔مجھے سارہ سے نہی کسی اور سے شادی کرنی ہے۔۔۔۔وہ سارہ پر جمی نظریں ہٹائے ڈیڈ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
اس رشتے کو نکاح تک محدود رکھنے میں بھلائی ہے۔
مجھے دوسری شادی کرنی ہے۔۔۔۔اب اس کی نظریں پھر سے سارہ کے چہرے پے آ رکیں جو نظریں جھکائے چپ چاپ بیٹھی تھی۔
اگر یہ مزاق ہے تو بہت ہی گھٹیا مزاق ہے دانی۔۔۔دادی جان نے اسے ٹوکا۔
نہی دادو یہ مزاق نہی حقیقت ہے۔
مجھے کوئی اور پسند ہے۔۔۔۔اب تک میں جو کچھ کر رہا تھا آپ سب کی خوشی کی خاطر ہی کر رہا تھا۔
میری اپنی زندگی بھی ہے٫کچھ خواہشات ہیں اور یہ فیصلہ میں سارہ کی مرضی سے کر رہا ہوں۔
اسے میرے فیصلے پر کوئی اعتراض نہی ہے۔
آپ لوگ اگر چاہیں تو سارہ سے خود پوچھ سکتے ہیں۔
سب سارہ کی طرف متوجہ ہوئے۔
بیٹا کیا یہ سچ ہے؟
تمہیں کوئی اعتراض نہی دانیال کے اس فیصلے پر؟
سارہ نے سب کو اپنی طرف متوجہ دیکھا تو اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہوا ایسا لگا جیسے سانس گلے میں ہی اٹک گیا ہو۔
ججججی۔۔۔۔جی بڑے پاپا مجھے کوئی اعتراض نہی۔
سارہ کے الفاظ اس کا ساتھ نہی دے پا رہے تھے۔
دانیال کی غصے سے بھری نگاہوں کی تپش اس کا چہرہ جھلسا رہی تھی۔
وہ تیزی سے وہاں سے اٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
یہ سب کیا ہے دانیال؟
ڈیڈ غصے سے چلائے۔
چاہے سارہ جو بھی کہے مجھے تم سے یہ امید ہرگز نہی تھی۔
وہ بچی ہے ابھی مگر تم تو میچور ہو۔
اسے سمجھانے کی بجائے اس کا ساتھ دے رہے ہو۔
ڈیڈ اب وہ بچی نہی ہے بیس سال کی ہے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق رکھتی ہے۔
جو بھی ہو ہم تمہیں یہ نا انصافی نہی کرنے دیں گے سارہ کے ساتھ۔۔۔۔دادی جان بھی غصے میں بولیں۔
مگر یہ میرے بیٹے کے ساتھ نا انصافی ہے۔۔۔زلیخا بیگم جو اب تک بے یقینی سے اس سارے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں چلا اٹھیں۔
دانی تم فکر مت کرو جیسا تم چاہو گے ویسا ہی ہو گا٫تمہاری ماں ہے تمہارے ساتھ۔
تھینکس مام۔۔۔وہ بے دلی سے مسکرا دیا۔
جو دل میں آتا ہے کرو مگر ہم میں سے کوئی بھی اس فیصلے میں تمہارا ساتھ نہی دے گا۔
دادا جی غصے سے بولے تو سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
چھوڑو ان سب کو تم فکر مت کرو۔
مجھے بتاو کون ہے وہ میں خود جاوں گی تمہارا پرپوزل لے کر۔
اس کی ضرورت نہی پڑے گی مام!
میرا پرپوزل ایکسیپٹ ہو چکا ہے آپ بس شادی کی تیاریاں کریں۔
میں آپ کی بات مان رہا اس لیے آپ کو بھی میری ایک بات ماننی پڑے گی۔
کیا؟
تم جو کہو گے میں مانوں گی٫میں آج بہت خوش ہوں۔
مام آپ کو سارہ کے ساتھ اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔۔۔
ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی۔
تمہاری خالہ کو یہ خوشخبری سنا کر آتی ہوں۔۔۔وہ خوشی خوشی وہاں سے چلی گئیں۔
دانیال اٹھ کر دادی کے کمرے میں چلا گیا۔
حسب توقع سب وہی موجود تھے۔
ڈیڈ آپ سب سمجھنے کی کوشش کریں۔
میں نے آج تک کسی بات کے لیے ضد نہی کی آپ سے۔
میری بات ماننے میں برائی ہی کیا ہے آخر؟
دوسری شادی کرنا کوئی گناہ تو نہی ہے۔
ٹھیک ہے اماں جان مان لیتے ہیں اس کی بات۔۔۔باقی اس کی اپنی زندگی ہے جو چاہے فیصلہ کر سکتا ہے۔
Thanks dad....
وہ وہاں سے سارہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔
وہ کھڑکی کے پاس کھڑی آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
قدموں کی آہٹ پر جلدی سے اپنے آنسو پونچھ دیے۔
خوش ہو تم؟
دانیال کی آواز پر اس نے سر ہاں میں ہلایا۔
دانیال نے غصے سے اسے اپنی طرف کھینچا۔
یہ بات میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول سکو گی؟
سارہ نے نظریں جھکا لیں۔
میں نے کہا ناں میں خوش ہوں۔۔۔۔
مگر تمہارے الفاظ تمہارا ساتھ کیوں نہی دے رہے؟
تمہاری آنکھیں تو کچھ اور ہی کہہ رہی ہیں سارہ۔
ایسا کچھ نہی ہے میں بہت خوش ہوں آپ کے اس فیصلے پر٫آپ نے میری بات مان کر میرا مان بڑھا دیا۔
جھوٹ،،،،،!
بلکل جھوٹ۔۔۔۔!
جھوٹ بول رہی ہو تم۔۔۔۔دانیال اسے چھوڑتے ہوئے پیچھے ہٹا۔
اپنی اس جھوٹی خوشی کی وجہ سے بہت پچھتانے والی ہو تم سارہ۔
وہ غصے میں کمرے سے باہر نکل گیا۔
میں پچھتانے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔مگر اپنے مرے ہوئے ماں باپ کی توہین برداشت کرنے کی ہمت نہی ہے میرے اندر۔
دانیال اسفی کا نمبر ڈائل کر رہا تھا مگر وہ کال پک نہی کر رہا تھا۔
آخر کار آدھے گھنٹے بعد اس نے خود کال کی۔
کب سے کال کر رہا ہوں کہاں بزی تھے تم؟
یار میں آفس تھا ابھی گھر پہنچا ہوں٫خیریت؟
ہاں خیریت ہی ہے٫میں اس ہفتے شادی کر رہا ہے تم پاکستان پہنچو جلدی۔
او بھائی کیا ہو گیا اتنی جلدی؟
بھابی مان گئیں؟
اور توں یہ بتا یہ ترکی ہے آنے میں دو دن تو لگیں گے مجھے۔
چھٹی لینی پڑے گی۔
جو بھی کرنا ہے جلدی کرو اور میں سارہ سے نہی مہوش سے شادی کر رہا ہوں۔
باقی تفصیل جب پاکستان آو گے تب ہی بتاوں گا۔
اسفند کے سر پر بم پھوڑتے ہوئے اس نے فون بند کر دیا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔





Tuesday, May 12, 2020

مسافر قسط نمبر_19


مسافر
قسط نمبر_19
از
خانزادی

ٹھیک دو بجے اسفند گیٹ پر موجود تھا اور ہارن پے ہارن دے رہا تھا۔
دانیال نے بیگز گاڑی میں رکھے اور سارہ کو ساتھ لیے باہر چل دیا۔
دروازہ اچھی طرح لاک کیا اور گاڑی کی طرف بڑھا۔
یہ اسفند ہے۔۔۔دانیال نے سارہ سے اسفند تعارف کروایا۔
اسلام و علیکم بھابھی۔۔۔۔اسفی نے گال پر ہاتھ رکھا ڈر تھا کہی پھر سے تھپڑ نا پڑ جائے۔
وعلیکم اسلام۔۔۔۔سارہ نے مختصر جواب دیا۔
اسفی نے شکر ادا کیا۔
دانیال نے سارہ کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا۔
Ooooo what a romantic moment....
اسفی نے داد دی۔
دانیال نے اس کی داد سن لی اور بدلے میں اسفی کو گھورا۔
سارہ گاڑی میں بیٹھ گئی تو دانیال نے سکھ کا سانس لیا اور فرنٹ سیٹ پر اسفی کے ساتھ والی خالی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
اسفی نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔
تمہیں نہی لگتا تمہیں بھابی کے ساتھ بیٹھنا چاہیے تھا؟
اسفی کے سوال پر دانیال کے اسے چونک کر دیکھا کیونکہ اس کی نظریں فون پر تھیں۔
ہاں لگتا تو یہی ہے مگر کیا کروں پھر اپنے اکلوتے دوست کے تنہا ہونے کا خیال آ گیا۔
سوچا کیوں ناں دوست کی ساتھ والی خالی سیٹ میں ہی بھر دوں کیونکہ یہ سیٹ تم نے خالی ہی رکھنی ہے۔
دانیال کے جواب پر اسفند نے قہقہ لگایا۔
فکر مت کرو بہت جلد یہ سیٹ بھرنے والی ہے۔
Really?
دانیال کو اس کی بات مزاق لگی۔
ہاں ہے ایک۔۔۔۔پھر کبھی بتاوں گا٫اسفی نے آنکھ دبائی۔
ہممم ٹھیک ہے مسٹر چھپے رستم۔۔۔۔دانیال بھی مسکرا دیا۔
پاکستان کب آنا ہے واپس تم نے؟
یا پھر یہی بسنے کے ارادے ہیں؟
نہی جب سے وہ ملی ہے ناں تب سے یہاں دل نہی لگ رہا۔
ہمم مطلب میری ہونے والی بھابی پاکستانی ہے۔۔۔واہ کیا کہنے جناب کے۔
دانیال نے خوب داد دی۔
ہاں بس یہ بزنس وائینڈ اپ کر لوں پھر آ رہا ہوں پاکستان۔
دو ماہ ہیں کنٹریکٹ ختم ہونے میں پھر واپسی کی تیاریاں۔
اچھی پلاننگ ہے۔۔۔دانیال بیک مرر سے سارہ پر نظر ڈالتے ہوئے بولا۔
سارہ سو رہی تھی۔
دانیال کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
تم کب کر رہے ہو شادی؟
اسفی کے سوال پر وہ چونک گیا۔
شادی کا فلحال کوئی پلان نہی ہے میرا بڑی مشکل سے مسز گھر جانے کے لیے تیار ہوئی ہے پھر سے واپس بھگانے کا کوئی ارادہ نہی ہے میرا۔
مطلب نکاح شدہ رہنا چاہتے ہو؟
افففف میں ترس گیا ہوں تمہیں شادی شدہ بولنے کے لیے پتہ نہی کب وہ وقت آئے گا جب میں فخر سے یہ کہہ سکوں گا کہ میرا دوست شادی شدہ ہے۔
باز نہ آنا تم۔۔۔۔دانیال نے اس کے سر پر ہلکی سی تھپکی دی۔
تو اور کیا میرا دل نہی کرتا تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہو جو مجھے انکل انکل بلائیں؟
اسفی۔۔۔۔دانیال نے اسے ٹوکا۔
سن لے گی۔۔۔۔اس نے سارہ کی موجودگی کا احساس دلایا۔
وہ سو رہی ہے۔۔۔اسفی نے سر ناں میں ہلایا۔
تم تو ابھی سے ڈرنے لگے۔
اسفی کی بات پر دانیال نے اسے گھورا۔
اس کی نیند خراب نہ ہو اس لیے کہہ رہا ہوں۔۔اس نے بات پلٹ دی۔
Oooooo.....
جورو کا غلام۔۔۔۔۔اسفی نے داد دی۔
تم پاگل ہو بس۔۔۔۔دانیال اس کے جملے پر ہنس دیا۔
ہاں ہاں اپنی دفعہ میں پاگل۔
بیٹے تمہارا بھی پتہ چل جائے گا جب تمہیں لگام ڈالنے والی تمہاری زندگی میں آئے گی۔
سہی کہہ رہے ہو ویسے مجھے ابھی سے ڈر لگ رہا ہے پتہ نہی وہ میرا پرپوزل بھی قبول کرے گی یا نہی؟
دونوں نے ایک ساتھ قہقہ لگایا۔
دیکھ لو تم ابھی سے ڈرنے لگے۔۔۔دانیال نے بھی پورا بدلہ لیا۔
ہاں بھئی ڈرنا پڑتا ہے اسی میں ہم مرد ذات کی بھلائی ہے۔
لیں جناب آ گیا ائیرپورٹ۔۔۔۔اسفی نے گاڑی کو بریک لگائی۔
تم لوگ چلو اندر میں گاڑی پارک کر کے آتا ہوں۔
نہی اٹس اوکے۔۔۔۔ابھی فلائٹ میں دو گھنٹے ہیں۔
تم کیا کرو گے یہاں بیٹھ کر۔
جا کر آرام کرو۔
Thanks for yor time....
دانیال گاڑی سے بیگز باہر نکالتے ہوئے بولا۔
اسفی بھی اس کی مدد کرنے لگا۔
مطلب تم چاہتے ہو کہ میں کباب میں ہڈی نا بنوں....
دانیال بس مسکرا دیا۔
سارہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ گاڑی سے باہر آ گئی۔
میں چاہتا ہوں تم گھر جا کر آرام کرو تھک گئے ہو گے بہت۔
گھر پہنچ کر مجھے میسیج ضرور کر دینا۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔دانیال نے اسے گلے لگایا اور سارہ کو ساتھ لیے اندر کی طرف چل دیا۔
بس کر پگلے رلائے گا کیا۔۔۔اسفی آنکھوں سے آنسو پونچھنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے دونوں کو ایک ساتھ جاتے دیکھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔
جیسے ہی دونوں اپنی سیٹ پر بیٹھے اسفی کا میسیج موصول ہوا۔
دانیال نے اسے رپلائے دیا اور فون بند کر دیا۔
لمبے سفر کے بعد آخر وہ دونوں پاکستان پہنچ ہی گئے۔
دوپہر کے چار بجے وہ گھر کے باہر تھے۔
دانیال نے بیگز گاڑی سے باہر نکالے پیمنٹ کی اور ڈور بیل بجائی۔
گیٹ کیپر نے گیٹ کھولا۔
سلام سر۔۔۔۔
وعلیکم اسلام کیسے ہو عمران؟
میں ٹھیک ہوں آپ کیسے دانی بھائی۔
میں بھی ٹھیک ہوں الحمدللہ۔۔۔۔یہ بیگز اندر رکھو دیں پلیز۔۔۔
دانیال مسکراتے ہوئے گھر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا جبکہ سارہ وہی کھڑی تھی۔
دانیال واپس پلٹا۔
سارہ؟
جی۔۔۔۔سارہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
چلیں اندر۔۔۔۔؟
جی سارہ بھی اس کے ساتھ قدم سے قدم ملاتی اندر چل دی۔
ٹی وی لاونج میں سب موجود تھے۔
دونوں کو اندر آتے دیکھ کر سب کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔
دانی بھائی۔۔۔۔سب سے پہلے کامران آگے بڑھا۔
آپ مجھے انفارم کر دیتے میں ائیرپورٹ آ جاتا رسیو کرنے۔
دونوں بھائی گلے ملے۔
اگر تم ائیر پورٹ آ جاتے تو یہ خوشی جو اب نظر آ رہی ہے سب کے چہروں پر یہ دیکھنے کو نہی ملتی۔
میں نے سوچا کیوں ناں سرپرائز دوں۔
سارہ دادو کے ساتھ لپٹ کر آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
دانیال سب سے مل کر اس کی طرف بڑھا ہی تھا کہ کچن سے زلیخا بیگم باہر آ گئیں۔
 آ گیا میرا بیٹا واپس۔۔وہ تیزی سے بیٹے کی طرف بڑھیں۔
کیسی ہیں آپ مام؟
دانیال ماں کا ماتھا چومتے ہوئے بولا۔
تمہیں دیکھ لیا اب ٹھیک ہوں میں۔۔۔وہ ابھی اتنا ہی بولی تھیں کہ نظر سارہ پر پڑی۔
یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟
ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے مام ابھی نہی۔
وہ ماں کو کچن کی طرف لے گیا۔
بہت بھوک لگی ہے کھانے کو ملے گا کچھ؟
ہاں تم فریش ہو جاو کھانا لگاتی ہوں میں وہ خوشی خوشی بولیں۔
دانیال کچن سے باہر نکل گیا۔
بھابی پلیز سنبھالیں خود کو ہم سب ہیں ناں آپ کے ساتھ حبا اسے تسلی دے رہی تھی۔
ہاں بیٹا ہم سب ہیں تمہارے ساتھ دادا جی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
حبا۔۔۔۔دانیال نے حبا کا نام پکارا۔
جی بھائی۔۔۔حبا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
تم سارہ کو اس کے کمرے میں لے جاو۔
جی بھائی۔۔۔۔حبا اسے ساتھ لیے اس کے کمرے کی طرف بڑھی۔
ابھی آج ہی سیٹنگ کروائی ہے میں نے آپ کے کمرے کی مگر مجھے نہی پتہ تھا آپ واپس آ رہی ہیں۔
آپ فریش ہو جائیں میں آپ کے کپڑے نکال دیتی ہوں۔
حبا الماری کی طرف بڑھی۔
آپ یہ سارے ڈریسز یہی چھوڑ گئی تھیں لیکن اب آپ کو یہ پہننے ہو گے۔
سارہ مسکرا دی۔
حبا نے اس کی طرف گرے ڈریس بڑھایا۔
سارہ فریش ہونے چلی گئی۔
سارہ فریش ہو کر باہر آئی تو حبا کمرے سے جا چکی تھی۔
وہ شیشے کے سامنے آ رکی اور بال ڈرائی کرنے لگی۔
تب ہی دانیال کمرے میں آیا سفید شلوار قمیض پہے وہ جاذب دید لگ رہا تھا۔
سارہ پہلی مرتبہ اسے شلوار قمیض پہنے دیکھ رہی تھی۔
وہ نظر لگ جانے کی حد تک ہینڈسم لگ رہا تھا۔
سارہ نے نظریں دوسری طرف پھیر لیں۔
اتنی گرمی ہے اور تم نے اے سی بھی آن نہی کیا۔
دانیال بول رہا تھا مگر وہ سن ہی کہاں رہی تھی وہ تو بس اسے دیکھنے میں مصروف تھی۔
وہ اے سی آن کرتے ہوئے کھڑکیاں بند کرنے لگ گیا۔
جب تم تیار ہو جاو تو بتا دینا حبا کھانا دے جائے گی کمرے میں۔
وہ مجھے بھوک نہی ہے۔۔۔۔سارہ نے بے تکا بہانا بنایا۔
بھوک ہو یا نہ ہو کھانا تو کھانا پڑے گا۔۔۔وہ جواب دے کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
حبا تم ایسا کرو سارہ کو کھانا دے آو کمرے میں۔
جی بھائی میں جاتی ہوں۔۔۔حبا کچن کی طرف بڑھ گئی۔
دادا جی اور دادی جان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی دانیال کی سارہ کے لیے فکر مندی دیکھ کر۔
شکر ہے خدا کا۔۔دادی جان نے خدا کا شکر ادا کیا۔
دانیال اسفی کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
ہاں ہاں خیریت سے پہنچ گیا ہوں۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے جواب دے رہا تھا جبکہ دوسری طرف اسفی کچھ اور ہی بول رہا تھا۔
جاتے ہی بھول گئے دوست کو۔۔۔۔کب سے انتظار کر رہا تھا تمہاری کال کا۔
اب فرصت ملی ہے جناب کو۔۔۔
ایسی بات نہی ہے یار بس ابھی ابھی گھر پہنچا ہوں۔
وہ ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ کھانے کی ٹرے واپس لا رہی حبا پر نظر پڑی۔
میں کھانا کھا کر بات کرتا ہوں وہ کال بند کرتے ہوئے حبا کی طرف بڑھا۔
کیا ہوا؟
بھابی کہہ رہی ہیں کہ انہیں بھوک نہی ہے۔
لاو مجھے دو۔
دانیال کھانے کی ٹرے اٹھائے سارہ کے کمرے کی طرف بڑھا۔
سارہ بال باندھ رہی تھی۔
منع کیا تھا میں نے مگر تم سنتی ہی کہاں ہو۔
وہ کھانے کی ٹرے میز پر رکھتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا دروازہ لاک کیا اور سارہ کا بازو تھامے صوفے تک لے آیا۔
بیٹھو یہاں اور ختم کرو ورنہ میں زبردستی کھلاوں گا۔
جی۔۔۔۔سارہ چپ چاپ پلاو کھانے لگ گئی۔
یہ کباب بھی کھاو۔۔۔اس نے چکن چپلی کباب والی پلیٹ سارہ کی طرف بڑھائی۔
سارہ نے پلیٹ تھام لی۔
دروازہ ناک ہوا۔
سارہ نےگھبرا کر دانیال کی طرف دیکھا۔
تم کھاو میں دیکھتا ہوں۔
وہ دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھولا تو باہر حبا تھی کھانے کی ٹرے اٹھائے۔
آپ یہاں ہیں تو میں نے سوچا آپ کا کھانا بھی یہی لے آوں۔
ہاں اچھا کیا لیکن مام نے کچھ کہا تو نہی؟
نہی تو۔۔۔۔مام نے کیا کہنا ہے،،،حبا جھوٹ بول رہی تھی۔
آو تم بھی بیٹھو ہمارے ساتھ کھانا کھاو۔
نہی بھائی میں نے ابھی لنچ کیا ہے آپ لوگ کھا لیں۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔وہ کھانے کی ٹرے لیے کمرے میں آ گیا اور خود بھی کھانا کھانے لگا۔
سارہ نے نا چاہتے ہوئے بھی پلاو کی پوری پلیٹ ختم کی اور برتن اٹھائے کمرے سے باہر نکل گئی۔
دانیال مسکرا دیا۔
پیار سے بات ماننے والی نہی یہ۔۔۔۔
سارہ کو برتن اٹھائے کمرے سے باہر آتے دیکھا تو حبا تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔
بھابی آپ جائیں کمرے میں یہ برتن مجھے دیں۔
میں لے جاوں گی کچن میں۔۔۔
حبا کو ڈر تھا کہی وہ کچن میں نہ چلی جائے کیونکہ وہاں زلیخا بیگم تھیں۔
آپ جائیں اپنے کمرے میں آرام کریں۔
سارہ مسکر کر اپنے کمرے کی طرف پلٹ گئی۔
ملازمہ بن جاو اس کی۔۔۔۔جیسا ہی حبا کچن میں داخل ہوئی زلیخا بیگم غصے سے چلائیں۔
مام کیا کہہ رہی ہیں آپ؟
بڑی بہو ہیں وہ اس گھر کی اور میری بھابی ہیں۔
ان کے کام کرنے سے مجھے خوشی ملتی ہے۔
آپ ایسا تو نہ بولیں۔
ہاں ہاں میں ہی غلط لگتی ہوں تم سب کو اور تمہارا بھائی کہاں ہے وہ بیگم کے کمرے سے باہر آیا یا نہی۔
بھائی کھانا کھا رہے ہیں مام۔۔۔۔اور آپ یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں میرے ساتھ؟
چپ رہو تم!
اس لڑکی نے پتہ نہی کیا جادو کر دیا ہے میرے بیٹے پر۔۔۔۔آتے ہی اس کے کمرے میں گھس کر بیٹھ گیا ہے۔
یہاں ماں انتظار کر رہی ہے اور اسے ماں کی زرا فکر نہی۔
مام پلیز۔۔۔۔۔آپ ٹپیکل ساس مت بنیں۔
سارہ بھابھی کو ایکسیٹ کر لیں۔
ہرگز نہی!
میں اس لڑکی کو ہرگز قبول نہی کروں گی۔
حبا کی نظر کچن کے دروازے پر کھڑی سارہ پے پڑی۔
بھابی آپ یہاں؟
میں لے آتی برتن آپ نے کیوں زخمت کی۔
حبا نے اس کے ہاتھ سے برتن لے کر ٹیبل پر رکھے۔
اسلام و علیکم بڑی ماما۔
جیسا آپ سمجھ رہی ہیں ویسا کچھ نہی ہے۔
یہ معصومیت مجھے مت دکھاو۔۔۔۔میں تمہاری میٹھی میٹھی باتوں کے جال میں نہی پھنسنے والی۔
بڑی ماما۔۔۔۔۔
بس!
وہ غصے سے سارہ کی طرف بڑھی۔
آخر کس بات کا بدلہ لے رہی ہو تم مجھ سے؟
وہ سارہ کو کندھے سے جھنجوڑتی ہوئی بولیں۔
مام۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتی دانیال وہاں آ گیا۔
سارہ کو چھوڑیں مام۔۔۔۔۔
وہ نظریں جھکائے بولا۔
لو چھوڑ دیا۔۔۔۔جاو لے جاو اسے اپنے کمرے میں اور بیٹھ جاو اس کے قدموں میں غلام بن کر۔
سارہ اپنے کمرے میں جاو۔۔۔۔۔دانیال کی آواز پر سارہ چونک کر اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔
حبا بھی اس کے پیچھے چل دی۔
آپ سے اس بے رحمی کی ہرگز امید نہی تھی مجھے۔۔۔۔۔دانیال افسردگی سے بولا۔
مجھے بھی اپنے بیٹے سے ایک غیر لڑکی کے لیے ماں سے بدزبانی کرنے کی ہرگز امید نہی تھی۔
وہ غصے سے چلائیں۔
وہ کوئی غیر نہی میری بیوی ہے۔۔۔۔۔
آپ سے اونچی آواز میں بات کی اس کے لیے معزرت مام مگر آپ کا رویہ سہی نہی ہے سارہ کے ساتھ۔
آخر اس کی غلطی کیا ہے؟
وہ آپ کی وجہ سے یہاں آنا نہی چاہتی تھی۔۔۔۔میں زبردستی لایا ہوں اسے پاکستان۔
اگر آپ کا رویہ ایسا ہی رہا اس کے ساتھ تو وہ پھر سے واپس چلی جائے گی اور اگر اس بار وہ واپس گئی تو دوبارہ کبھی یہاں نہی آئے گی۔
تم اس لڑکی کے لیے ماں کو دھمکا رہے ہو؟
نہی مام میں بس آپ کو سمجھا رہا ہوں۔
بھائی۔۔۔۔سارہ بھابھی نے کمرہ لاک کر لیا ہے۔۔۔حبا پریشان سی وہاں آئی۔
تم دوسری چابی لے کر آو کمرے کی۔۔۔وہ حبا سے بول کر سارہ کے کمرے کی طرف بھاگا۔
سارہ دروازہ کھولو۔۔۔۔۔وہ دروازہ بجا رہا تھا مگر سارہ دروازے کے ساتھ بیٹھی سر گھٹنوں پے گرائے آنسو بہا رہی تھی۔
Open the door
سارہ۔۔۔۔دانیال مسلسل دروازہ بجا رہا تھا۔
وہ کھڑکی کی طرف بڑھا دو تین پنچ مارے تو کھڑکی کھل گئی۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو سارہ دروازے کے ساتھ بیٹھی تھی۔
سارہ۔۔۔۔وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور اس کے دونوں بازو تھام کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔
سارہ کے بہتے آنسو پونچھے اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
میں نے بولا تھا کہ میں ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔
کیا تمہیں مجھ پر یقین نہی ہے سارہ؟
مجھے ڈر لگتا ہے بڑی ماما کی نفرت سے۔۔۔
ادھر آو بیٹھو یہاں۔۔۔۔دانیال اسے بیڈ تک لے آیا۔
وہ مجھے کبھی پسند نہی کریں گی۔
وہ جو کہتی ہیں آپ ان کی بات مان لیں ورنہ مجھے واپس بھیج دیں۔
سارہ۔۔۔۔دانیال بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا۔
تو کیا میں ان کی مرضی سے دوسری شادی کر لوں؟
جی۔۔۔۔۔یہی بہتر ہے۔
تو پھر ٹھیک ہے اگر تمہیں لگتا ہے ایسا کرنے سے سب ٹھیک ہو جائے گا تو میں آج ہی بات کرتا ہوں مام سے۔
وہ غصے میں کمرے سے باہر نکل گیا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔۔کیسی لگی آج کی قسط کمنٹ ضرور کریں۔



Friday, May 8, 2020

مسافر قسط نمبر_18


مسافر
قسط نمبر_18
از
خانزادی

یا اللہ رحم۔۔۔میری عزت کی حفاظت فرما اے رب۔
سارہ نے صدق دل سے اللہ سے مدد مانگی۔
اچانک اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پے رکھے گلدان پر پڑی۔
آنکھوں میں امید کی ایک کرن جاگی۔
اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور وہ گلدان اٹھا کر پوری قوت سے عنہب کے سر پر مارا۔
وہ کراہتے ہوئے سر تھام کر بیٹھ گیا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور سر سے خون بہتا چلا گیا۔
سارہ تیزی سے اٹھی اور باہر کی طرف بھاگی۔
اس نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور لگیج گھسیٹتی ہوئی تیزی سے گھر سے باہر نکل گئی۔
عنہب کا خون سے لتھ چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا اس کا دل چاہا کہ اس کی مدد کر دے مگر نہی اس وقت انسانیت سے بڑھ کر اس کی عزت تھی۔
ایک ٹیکسی اس کے سامنے آ رکی۔
اس نے اپنا بیگ ڈگی میں رکھا اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔
گھر پہنچ کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔
گھر میں داخل ہوئی تو پورا گھر اندھیرے میں ڈوب رہا تھا۔
موبائل کی ٹارچ آن کی اور ساری لائیٹس جلاتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی۔
پانی کا گلاس بھرا اور ایک ہی سانس میں پی گئی۔
یہ کیا ہو گیا مجھ سے؟
اگر عنہب کو کچھ ہو گیا تو پولیس مجھے نہی چھوڑے گی۔
کیا کروں کچھ سمجھ نہی آ رہا۔
یہ سب میری ہی غلطی تھی دانیال سہی کہہ رہے تھے مجھے عنہب پر بھروسہ ہی نہی کرنا چاہیے تھا۔
میری ہی غلطی تھی جو میں نے ان پے بھروسہ کیا۔
ممانی تو سب جانتی تھیں اپنے بیٹے کی عادات سے واقف تھیں تو پھر وہ عنہب کی موجودگی میں مجھے اکیلی کیسے چھوڑ کر جا سکتی تھیں۔
یہ سب ان دونوں کی سازش تھی۔۔۔۔
وہ آنسو بہاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔
فون پر دانیال کا نمبر ڈائل کر رہی تھی وہ جانتی تھی کہ اب ان کے درمیان کوئی رشتہ نہی مگر پھر بھی دل میں امید تھی۔
نمبر بند تھا۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر کمرے کی لائٹ آن کی اور کمرے سے باہر جانے کے لیے پلٹی مگر اس کے قدم رک گئے وہ تیزی سے واپس پلٹی۔
یہ اس کی نظر کا دھوکا نہی تھا وہ سچ میں یہی تھا۔
دانیال۔۔۔۔۔سارہ تیزی سے بھاگتی ہوئی اس سے لپٹ کر آنسو بہانے لگی۔
دانیال وہی اپنی جگہ پے کھڑا رہا اس نے دونوں ہاتھ سارہ کی طرف بڑھائے اور اسے خود سے الگ کر دیا۔
مجھے نہی لگتا اب ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی کی گنجائیش ہے۔
دانیال منہ کھڑکی کی طرف موڑے بولا۔
چاہے ہمارے درمیان کوئی گنجائیش باقی ہو یا نہ ہو اس بات سے کوئی فرق نہی پڑتا مجھے۔
آپ یہاں ہیں میرے ساتھ یہی کافی ہے میرے لیے۔
سارہ کی بات پر دانیال اس کی طرف پلٹا۔
اب یہ ساری باتیں بے مقصد ہیں۔۔۔۔جیسے ہی دانیال کی نظر سارہ کے پھٹے بازو پر پڑی اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی۔
یہ کیسے ہوا؟
سارہ نے ہاتھ لگا کر چھوا تو اسے یاد آیا کہ شاید عنہب نے بازو کھینچا تو اس وقت یہ شرٹ پھٹ گئی ہو گی۔
یہ خراش کیسے آئی تمہیں؟
دانیال اس کا بازو ہاتھ میں تھامے جائزہ لے رہا تھا اور صرف کپڑا ہی نہی پھٹا عنہب کی درندگی کے نشان بھی سارہ کے بازو پر عیاں تھے۔
سارہ کچھ پوچھا ہے تم سے؟
دانیال کی گرجدار آواز پر سارہ چونک گئی اور آنسو بہانے لگی۔
جب مجھے تانیہ کی میل رسیو ہوئی تو میں گھر آنے کے لیے تیار ہو کر کمرے سے باہر آئی تو ممانی گھر نہی تھیں۔
عنہب نشے میں تھا اور اس نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش۔۔۔۔
بس۔۔۔۔۔دانیال نے سارہ کو مزید بولنے سے روک دیا۔
میں اسے زندہ نہی چھوڑوں گا۔۔۔مجھے ایڈریس دو اس گھر کا۔
نہی۔۔۔۔۔رک جائیں آپ وہ پہلے ہی آدھا مر چکا ہے میں اس کے سر میں گلدان مار کر اپنی عزت بچا کر وہاں سے بھاگی ہوں۔
اس کے سر سے بہت خون نکل رہا تھا اگر وہ مر گیا تو پولیس آپ کو نہی چھوڑے گی۔
مجھے اپنی پرواہ نہی ہے سارہ تم مجھے لوکیشن دو جلدی۔۔۔۔۔
دانیال باہر کی طرف بڑھا اور سارہ کا ہینڈ بیگ ٹٹولنے لگا آخر کار اسے ممانی کے گھر کا ایڈریس لکھا مل گیا۔
اس کی جو آخری بچی سانسیں ہیں وہ میں نکالوں گا۔
تم دروازہ بند کر لو اور جب تک میں نہ کہوں دروازہ مت کھولنا۔
آپ ایسا مت کریں۔۔۔۔مجھے اکیلی چھوڑ کر مت جائیں۔
میرے پاس بس آپ بچے ہیں اور کوئی نہی ہے میرا٫سارہ دانیال کا بازو مظبوطی سے تھامے کھڑی تھی۔
میں واپس آوں گا سارہ۔۔۔۔میرا انتظار کرنا۔
دانیال اپنا بازو کھینچتے ہوئے تیزی سے باہر نکل گیا۔
جیسے ہی وہ مطلوبہ ایڈریس پر پہنچا وہاں سے ایمبولینس جا رہی تھی۔
جس کا مطلب یہ تھا کہ عنہب کو ہاسپٹل لے جایا جا رہا تھا۔
دانیال نے گاڑی گھر کی طرف واپس موڑنے کو بولا۔
قسمت اچھی تھی آج میرے ہاتھوں مرنے سے بچ گیا مگر آخر کب تک!
اگر زندہ بچ بھی گئے تم تو میرے ہاتھوں سے ہی مرو گے میرا وعدہ ہے تم سے۔
گھر پہنچ کر دروازہ کھول کر اندر گیا تو سارہ وہی بیٹھی تھی ٹی وی لاونج کے صوفے پر۔
آج بچ گیا میرے ہاتھ سے مگر میرا وعدہ ہے تم سے سارہ تمہاری طرف بڑھے اس کے ہر ایک غلط قدم کا بدلہ چکانا پڑے گا اسے۔
اس کی ہمت کیسے ہوئی میری بیوی پر غلط نگاہ ڈالنے کی۔
بیوی کے نام پر سارہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
آپ تو مجھے طل۔۔۔۔۔
خبردار!
اس سے پہلے کہ سارہ پورے الفاظ بولتی دانیال نے اسے وارن کیا۔
بے وقوف لڑکی!
سوچ بھی کیسے لیا تم نے کہ میں ایسا کروں گا؟
دانیال دروازے کی طرف بڑھا اور اھر ادھر نظر دوڑائی آخر اسے وہ انویلپ مل گیا۔
وہ انویلپ اٹھائے سارہ کی طرف بڑھا۔
کھولو اسے۔۔۔
سارہ نا سمجھی سے اس انویلپ کو کھولنے لگی۔
جیسے ہی اس نے وہ انویلپ کھولا تو اس کے اندر کچھ نہی تھا۔
اس کا مطلب۔۔۔۔
ہاں اس کا مطلب وہی ہے جو تم سمجی ہو۔
جھوٹ بولا تھا میں نے تمہیں واپس بلانے کے لیے۔
سچ تو یہ ہے کہ میں ایسا تصور بھی نہی کر سکتا۔
مگر تم نے جو غلطی کی اس کے لیے کبھی معاف نہی کروں گا تمہیں۔
کیا یہ بات سہی ہے کہ تم بڑی ماما کو تو خوش رکھ سکتی ہو مگر اپنے شوہر کے جزبات کا کوئی احساس نہی؟
وہ ماں ہیں آپ کی ان کا زیادہ حق ہے آپ پر۔
ہاں سہی ہے۔۔۔۔دانیال نے افسردگی سے جواب دیا۔
بے شک ماں باپ کا زیادہ حق ہوتا ہے اپنی اولاد پر لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہی کہ بیوی کا شوہر پر کوئی حق نہی۔
مگر بڑی ماما مجھے پسند نہی کرتیں۔۔۔۔سارہ شرمندہ سی بولی۔
اس بات سے مجھے فرق نہی پڑتا سارہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں کیا یہ کافی نہی تمہارے لیے؟
لیکن وہ ماما اور بابا کے حوالے سے بہت بدگمان ہیں۔
مجھ سے ان کے خلاف کوئی بات برداشت نہی ہوتی اس لیے میں نے یہ قدم اٹھایا تھا تا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں۔
ان کی ہر بات ماننا آپ کا فرض ہے۔
اچھا۔۔۔۔۔؟
اگر ایسا ہے تو وہ مجھے فورس کر رہی ہیں کہ میں تمہیں چھوڑ کر دوسری شادی کر لوں۔
تو کیا مجھے ان کی ہر بات مان لوں؟
سارہ نے سر نفی میں ہلایا۔
آپ ان کی دوسری بات تو مان ہی سکتے ہیں جس میں ان کی خوشی ہے۔
مطلب میں تمہیں بھی ساتھ رکھوں اور دوسری شادی بھی کر لوں؟
جی اس میں برائی ہی کیا ہے؟
سارہ کے اس جواب پر دانیال کا دل چاہا اپنا سر دیوار میں دے مارے۔
حد ہوتی ہے بے وقوفی کی بھی٫یہ ایسے نہی مانے گی اسے سبق سکھانا ہی پڑے گا۔
تو پھر ٹھیک ہے اگر تمہیں کوئی اعتراض نہی تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
پاکستان چلتے ہیں اور مام سے کہہ دیتے ہیں وہ میرے لیے لڑکی تلاش کریں۔
بات ختم!
یہ دنیا کی پہلی بے وقوف لڑکی ہے جو اپنے شوہر کو دوسری شادی کا مشورہ دے رہی ہے۔
اففف۔۔۔کیسے زندگی گزرے گی اس بے وقوف کے ساتھ٫یا پھر یہ کہنا بہتر ہو گا بیٹا دانیال کے اس لڑکی کو سمجھاتے سمجھاتے توں بوڑھا ہونے والا۔
دانیال دل ہی دل میں سوچوں میں گم ہو چکا تھا۔
تب ہی اسفند کی کال آ گئی۔
yes plan succeed....
چلو یار پھر مبارک ہو،،،،اسفی کا قہقہ گونجا۔
تو پھر ٹکسٹس کنفرم کر دو؟
hmmm ok....
اور ہاں ہمیں ائیرپورٹ بھی ڈراپ کرنا ہو گا۔
خادم حاضر ہے جناب۔۔۔۔۔اسفی نہایت ادب سے بولا۔
دانیال بھی مسکرا دیا۔
چلو پھر میں ٹکٹس کنفرم کر کے میسیج کرتا ہوں۔
کچھ دیر بعد اسفند کا میسیج آیا۔
صبح چھ بجے کی فلائٹ تھی۔
سارہ کہاں ہو؟
وہ سارہ کو ڈھونڈنے کمرے میں گیا تو سارہ ابھی ابھی شاور لے کر آئی تھی۔
وہ شیشے کے سامنے اپنے بال ڈرائی کر رہی تھی۔
دانیال اس کے پیچھے جا رکا تو سارہ چونک کر پلٹی اور ڈرائیر اس کے ہاتھ سے گر گیا اور وہ اپنا توازن کھو کر دانیال پر جا گری اور دانیال جو اس آفت کے لیے تیار ہی نہی تھا وہ دھڑام سے نیچے گرا اور سارہ اس کے اوپر۔
سارہ کی لمبی گھنی سیاہ زلفیں دانیال کے چہرے پر گر گئیں۔
آپ ٹھیک تو ہیں؟
i am sorry....
سارہ بول رہی تھی مگر دانیال تو بس اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
سارہ نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کے کچھ بال دانیال کے بازو تلے تب چکے تھے۔
دانیال نے ہاتھ بڑھا کر سارہ کے چہرے پر آتے بال کان کے پیچھے سمیٹے۔
سارہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی کچھ عجیب سی کشش محسوس ہوئی اسے دانیال کی آنکھوں میں۔
وہ آنکھیں بند کیے ان لمحوں کو محسوس کرنے لگی مگر تب ہی دانیال کا فون بجا اور وہ ہوش میں آیا۔
دانیال نے چٹکی بجائی۔۔۔۔
سارہ نے آنکھیں کھول دیں۔
میڈم پیچھے ہٹیں گی؟
میرا فون بج رہا ہے وہ بیڈ کے نیچے۔۔۔۔
جی۔۔۔۔سارہ اٹھنے ہی لگی تھی کہ پھر سے بال اٹک گئے۔
اوہ سوری۔۔۔۔دانیال نے اٹھا تو سارہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی مگر جیسے ہی اٹھنے لگی تو کچھ بال دانیال کی شرٹ کے بٹن میں اٹک گئے۔
کیوں میرا ظبط آزمانے پے لگی ہو لڑکی۔۔۔۔دانیال بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرا دیا اور سارہ کے بال آزاد کیے۔
سارہ تیزی سے اٹھ کر ڈرائیر کی طرف بڑھی۔
خراب تو نہی ہو گیا۔۔۔۔وہ پریشان ہو رہی تھی۔
دانیال نے افسردگی سے سر ہلایا۔
ڈرائیر کی فکر ہے مگر میرے دل کی نہی۔۔۔وہ دل پے ہاتھ رکھے بے قابو دھڑکن کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔
جی۔۔۔۔سارہ تیزی دانیال کی طرف پلٹی۔
کککچھ نہی۔۔۔۔۔میرا فون بیڈ کے نیچے چلا گیا اسی کا سوچ رہا ہوں۔
کہاں؟
سارہ بیڈ کے نیچے دیکھنے لگی تو فون پاس ہی تھا۔
سارہ نے فون اٹھایا اور دانیال کی طرف بڑھا دیا۔
سوری میری وجہ سے آپ کا فون گر گیا۔
آپ اچانک سے آئے تو میں ڈر گئی تھی۔
ٹھیک تو ہے ناں؟
کیا؟
دانیال فون کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔
فون۔۔۔۔
ہاں فون ٹھیک ہے مجھے لگا میرا پوچھ رہی ہو۔
آپ تو ٹھیک ہیں میرے سامنے ہیں آپ کا نہی فون کا پوچھ رہی تھی۔
اور تمہارا ڈرائیر؟
ٹھیک ہے۔۔۔سارہ ڈرائیر آن کیے بال سکھانے لگ گئی۔
صبح پانچ بجے کی فلائٹ ہے ہماری٫جو پیکنگ کرنی ہے جلدی کر لو سارہ ابھی ایک بجا ہے اور ہمیں دو بجے یہاں سے نکلنا ہے۔
ہممم سارہ نے سر ہاں میں ہلایا۔
تو کیا میں دوبارہ کبھی واپس نہی آ سکتی؟
ایسا نہی ہے سارہ تم جب چاہو یہاں آ سکتی ہو مگر میرے ساتھ۔
البتہ ریسٹورنٹ اب نہی چل سکے گا وہ تم چاہو تو بیچ سکتی ہو۔
کوئی زبردستی نہی ہے جیسا تمہیں بہتر لگے۔
جی۔۔۔۔سارہ نے مختصر جواب دیا۔
میں اپنا بیگ پیک کر چکا ہوں تم بتا دو اگر کچھ مدد چاہیے؟
نہی میں کر لوں گی۔
ٹھیک ہے میں باہر انتظار کر رہا ہوں۔
دانیال کمرے سے باہر نکل گیا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔تو کیسی لگی یہ قسط؟
کمنٹ لازمی کیا کریں اور بلاگ کو فالو بھی کر لیں تا کہ آنے والی قسط کا نوٹیفکیشن مل سکے۔

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...