Wikipedia

Search results

Tuesday, April 21, 2020

مسافر قسط نمبر_14


مسافر
قسط نمبر_14
از
خانزادی

اگلی صبح دانیال جلدی گھر آ گیا۔
سارہ نماز پڑھ کر ابھی جائے نماز پر ہی بیٹھی تھی کہ دانیال کمرے میں آیا۔
سارہ۔۔۔۔
اس نے سارہ کو پکارا تو سارہ نے دعا مانگ کر چہرے پر ہاتھ پھیر لیے اور جائے نماز تہہ لگا کر الماری میں رکھ دی۔
میں اپنا بیگ لے لوں لوں زرا۔۔۔۔سارہ الماری کی طرف بڑھی۔
سارہ میری بات سنو۔۔۔دانیال آگے بڑھا اور اسے بازو سے کھینچ کر رخ اپنی طرف کیا۔
ہاسپٹل جانے کی ضرورت نہی ہے۔۔۔بہ مشکل وہ اتنا بول پایا۔
کیوں آنی گھر آ گئی ہیں کیا؟
مگر اتنی جلدی کیسے ابھی تو ان کے زخم بھی ٹھیک نہی ہوئے۔
She is no more.....
آخر اس نے ہمت کرتے ہوئے بول دیا۔
سارہ شاکڈ سی دانیال کو گھورنے لگی جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
No more???
ایسا کیسے ہو سکتا ہے دانیال میں ابھی رات کو ملی تھی ان سے۔۔۔سارہ جیسے صدمے میں تھی۔
اتنی دیر میں ایمبولینس کی آواز آئی۔
سارہ سنبھالو خود کو۔۔۔۔آو ایک نظر آخری بار دیکھ لو آنی کو اس کے تدفین کے لیے جانا ہے۔
سارہ کو لگا جیسے کسی نے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو۔
وہ گرتے گرتے بچی۔
دانیال اس کے کندھوں کے گرد بازو پھیلائے اسے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے باہر تک لایا۔
تابوت سے کور ہٹایا گیا اور سامنے کا منظر دیکھ کر سارہ نے سر نفی میں ہلایا اور ایک دلخراش چیخ اس کے گلے سے ابھری۔
ایسا کیسے ہو سکتا آنی آپ مجھے چھوڑ کر نہی جا سکتیں۔
سارہ سنبھالو خود کو۔۔۔۔دانیال نے اس کا سر کندھے سے لگایا اور اسے چپ کروانے کی ناکام کوشش کی۔
دیکھتے ہی دیکھتے ریسٹورنٹ کا سارہ سٹاف وہاں پہنچ گیا۔
دانیال نے سارہ کو تانیہ کے حوالے کیا اور میت کو کندھا دینے کے لیے آگے بڑھا۔
ہر طرف رونے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔پورا سٹاف اس حادثے سے شدید رنج میں تھا۔
جیسے ہی آنی کے چہرے کو پھر سے ڈھانپ دیا گیا اور سارہ ان کو خود سے دور جاتے دیکھنے لگی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین بوس ہو گئی۔
تانیہ اور باقی گرلز اسے گھر لے آئیں اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگیں۔
کچھ دیر بعد سارہ کو ہوش تو آ گیا مگر وہ بے سدھ بستر پے پڑی آنسو بہا رہی تھی۔
دانیال کے آتے ہی وہ سب وہاں سے چلی گئیں۔
سنبھالو خود کو سارہ۔۔۔۔وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھتے ہوئے ہاتھ تھام کر بولا۔
سارہ نے کوئی جواب نہی دیا اور نہ ہی اپنا ہاتھ واپس کھینچا۔
میں ناشتہ بنا کر لاتا ہوں تمہارے لیے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ نے سائیڈ ٹیبل سے اپنا فون اٹھایا اور میسیج ٹائپ کیا سینڈ پر کلک کیا اور فون واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
دانیال ناشتہ لے کر آیا تو سارہ نے کھانے سے صاف انکار کر دیا۔
دانیال نے اسے زبردستی اپنے ہاتھ سے کھلانا شروع کر دیا۔
وہ زاروقطار آنسو بہاتی ہوئی کھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
دانیال خود کو قصورور سمجھ رہا تھا اس سارے حاثے کا۔
وہ بھی بہت دکھی تھا مگر کمزور نہی پڑنا چاہتا تھا۔
کیونکہ اگر وہی کمزور پڑ جاتا تو سارہ کو کون سنبھالتا۔
سارہ کو ناشتہ کھلا کر میڈیسن دے کر کمرے سے باہر آ گیا۔
کچن میں برتن سمیٹ کر باہر آیا ہی تھا کہ فون بجنے لگا۔
ڈیڈ کی کال۔۔۔۔۔اس نے کال اٹینڈ کی اور ٹی وی لاونج کے صوفے پر بیٹھ گیا۔
جی ڈیڈ سارہ ٹھیک ہے ابھی میڈیسن کھلائی ہے اسے اب سو رہی ہے۔
ٹھیک ہے بیٹا اس کا خیال رکھو اور اسے تنہا مت چھوڑنا۔
اس وقت اسے سب سے زیادہ ضرورت ہے تمہاری۔
کچھ وقت لگے گا اسے سنبھلنے میں پھر وہ ضرور تمہیں سمجھے گی۔
جی ڈیڈ میں سمجھ سکتا ہوں۔
ڈیڈ گھر پے سب خیریت؟
ہاں بیٹا سب خیریت کیوں ہوا؟
ڈیڈ کل رات مام کی کال آئی تھی۔۔۔۔
وہ سارہ کو لے کر بہت بدگمان ہیں٫مجھے فورس کر رہی ہیں کہ میں سارہ کو چھوڑ کر پاکستان آ جاوں۔
تمہاری ماں کبھی نہی بدلے گی۔۔۔۔
تم اس کی فکر مت کرو میں سنبھال لوں گا۔
پرانی عادت ہے اس کی۔
تم بس اپنی زندگی کا سوچو اور اپنا گھر بسانے کا سوچو۔
سارہ تمہاری بیوی ہے اور اسے تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔
مگر مام کا کیا؟؟
میں نے تم سے کہا نہ اپنی مام کی فکر کرنا چھوڑ دو اسے میں سنبھال لوں گا۔
اب اگر تمہاری ماں کی کال آئے تو تم اٹینڈ ہی نہ کرنا۔
ٹھیک ہے ڈیڈ جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔اس نے گہری سانس لی اور کال کاٹ دی۔
وہی صوفے پر نیم دراز ہو گیا پتہ ہی نہی چلا کب نیند آ گئی۔
مسلسل ڈور بیل بجنے کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی تو بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا۔
کی ہول سے باہر دیکھا تو ایک خاتون تھیں۔
جیسے ہی دانیال نے دروازہ کھولا وہ اندر داخل ہوئیں۔
سارہ کہاں ہے؟
بنا سلام کیے وہ دانیال کو اگنور کرتی ہوئیں آگے بڑھ گئیں۔
وہ اپنے کمرے میں ہے۔۔۔دانیال دروازہ بند کرتے ہوئے واپس پلٹا۔
اس سے پہلے کہ دانیال ان سے کچھ پوچھتا وہ تیزی سے سارہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
پھر سے ڈور بیل ہوئی دانیال نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک لڑکا کھڑا تھا پینٹ کوٹ میں ملبوس۔
جی آپ کون؟
دانیال نہایت ادب سے بولا۔
Myself Anheb....
سارہ کا کزن۔۔۔۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔ویلکم
دانیال نے اسے اندر آنے کی دعوت دی۔
وہ ہاتھ ملا کر چہرے پر مسکراہٹ سجائے اندر آ گیا۔
دانیال کو عجیب سا لگا ان کا اچانک یہاں آنا۔
وہ سارہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔
وہ خاتون سارہ کو گلے سے لگائے مگر مچھ کے آنسو بہانے میں مصروف تھیں۔
چلو باہر آو کمرے سے عنہب بھی آیا ہے ساتھ میں اسے دیکھ لوں زرا۔
دانیال نے انہیں گزرنے کا راستہ دیا۔
سارہ شال اوڑھتی ہوئی کمرے سے باہر جانے لگی ہی تھی کہ دانیال نے اس کا بازو تھام لیا۔
کون ہیں یہ لوگ؟
یہ میری ممانی ہیں۔۔۔۔سارہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔
ممانی!
مگر آنی نے تو کبھی ذکر نہی کیا ان کا؟
ہاں وہ نانا نے دوسری شادی کی تھی تو اس رشتے سے ممانی ہیں یہ میری اور آنی سے ان کی دوستی کم تھی کبھی کبھار ملتے تھے ہم۔
اب میں جاوں؟؟؟
ہممم دانیال سوچ میں پڑ چکا تھا۔
سارہ سلام کرتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔
عنہب تو بس اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔
میں آتی ہوں۔۔۔۔سارہ وہاں سے اٹھ گئی۔
کیسی لگی سارہ؟
سارہ کے وہاں سے جاتے ہی وہ عنہب کو کہنی مارتی ہوئی سرگوشی کرنے لگیں۔
She is beautiful mom....
وہ نظریں جھکائے مسکراتے ہوئے بولا۔
دیکھا کہہ رہی تھی ناں میں تمہیں پسند آئے گی۔
آگے کیا کرنا ہے بات کیسے آگے بڑھانی ہے یہ تم جانو۔۔۔وہ پورے گھر پر نظر ڈالتی ہوئی بولیں۔
یہ سب ہاتھ سے نہی جانا چاہیے عنہب۔۔۔۔۔
وہ سب تو ٹھیک ہے مگر یہ لڑکا کون ہے مام؟
کون وہ جو دروازے پے تھا؟
چھوڑو اس کی فکر مت کرو کرایہ دار ہے وہ یہاں۔
ایک منٹ لگے گا اسے یہاں سے باہر نکالنے میں۔
سارہ ان کے لیے جوس لے کر آئی۔
اس کی کیا ضرورت تھی میری جان؟
ہم تو بس تم سے ملنے آئے ہیں۔
دانیال بھی وہی آ گیا۔۔۔۔عنہب کی سارہ پر جمی نظریں دیکھ کر چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔
سنو!
اب تم اپنا انتظام کہی اور کر لو٫اب تم یہاں نہی رہ سکتے۔
وہ دانیال کو گھورتی ہوئی بولیں۔
دانیال نے سارہ کی طرف دیکھا۔
سارہ نے منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
جی ضرور۔۔۔۔بس مجھے دو دن کا وقت دے دیں پھر میں چلا جاوں گا یہاں سے۔
دانیال کے جواب پر سارہ شاکڈ رہ گئی۔
اسے تو لگا تھا دانیال ان کے سامنے نکاح کا اعتراف کرے گا مگر ایسا کچھ نہی ہوا۔
ٹھیک ہے سارہ ہم چلتے ہیں پھر آئیں گے۔
جی۔۔۔۔سارہ نے مختصر جواب دیا۔
وہ دونوں ماں بیٹا دانیال کو گھور کر باہر کی طرف بڑھ گئے۔
سارہ اپنے کمرے میں چلی گئی کیونکہ وہ اس وقت دانیال کے کسی بھی سوال کا جواب نہی دینا چاہتی تھی۔
دانیال نے بھی تذکرہ کرنا ضروری نہی سمجھا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔

Follow my blog friends...



Saturday, April 18, 2020

مسافر قسط نمبر_13


مسافر 
قسط نمبر_13
از
خانزادی

سارہ کو لگا دنیال اس کے غلط رویے کی وجہ سے گھر چلا گیا اور اب واپس نہی آئے گا۔
مگر ایسا بس وہ سوچ رہی تھی۔
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد وہ فریش ہو کر اور کپڑے چینج کرنے کے بعد واپس آ گیا۔
everything is ok?
سارہ سفر کی تھکن اور پریشانی سے چور دیوار سے سر ٹکائے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی کہ دانیال کی آواز پر چونک گئی۔
کیا ہوا اتنی حیران کیوں ہو رہی ہو؟
اوہ۔۔۔تو تمہیں لگا میں اب واپس نہی آؤں گا۔
so listen mrs daniyal
میں ایک زمہ دار مرد ہوں۔
اپنی زمہ داریاں نبھانا اچھی طرح جانتا ہوں۔
رات ہو رہی ہے اور تم بہت تھکی تھکی سی لگ رہی ہو۔
چلو میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں صبح آ جانا۔
کوئی ضرورت نہی۔۔۔۔میں یہی ٹھیک ہوں۔
آنی کو چھوڑ کر نہی جا سکتی۔۔۔
آنی کے پاس میں ہوں یہاں۔۔۔۔
بس!
اس سے پہلے کہ دانیال کچھ اور بولتا سارہ نے ہاتھ کے اشارے سے بولنے سے روک دیا۔
ایک بار پہلے تم پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ بھگت چکی ہوں میں اب اور نہی۔
Its Enough.....
اب بس!
میں تم سے پیار سے بات کر رہا ہوں اس کا یہ مطلب نہی کہ تمہاری ہر بات برداشت کروں گا۔
ایک بار کہہ دیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی۔
اپنی غلطی مان رہا ہوں مگر تم میری کوئی بات سمجھ ہی نہی رہی۔
چلو یہاں سے۔۔۔۔دانیال اس کا بازو تھامے اپنے ساتھ کھینچتا چلا گیا۔
گھر پہنچ کر سارہ کو اس کے کمرے میں لے آیا۔
چپ چاپ بیٹھو یہاں۔۔۔۔صبح میں تمہیں خود لینے آوں گا۔
میری خاموشی سے فائدہ مت اٹھاو۔
ابھی تم نے بس میری محبت دیکھی ہے کوشش کرو کہ میرا دوسرا روپ نہ دیکھنا پڑے تمہیں۔
بس یہی ہوتی ہے تم مردوں کی اصلیت۔۔۔۔۔
"عورت پر ظلم کرنا مرد کی فطرت ہے"
اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم اس طرح مجھ پر حکمرانی کر سکتے ہو تو یہ غلط فہمی اپنے دل سے نکال دو۔
"غلط فہمی نہی حق رکھتا ہوں میں تم پر حکمرانی کا"
تمہیں اچھے برے سے ٹوکنا فرض ہے میرا اور اچھی بیوی کا فرض بھی یہی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ہر بات پر جی حضوری کرے۔
ہونہہہ اچھا شوہر!
یہ اچھا شوہر تب کہاں تھا جب اس کی بیوی کی تزلیل کی جا رہی تھی؟
کیا مطلب کس نے تزلیل کی ہے تمہاری؟
جہاں تک مجھے پتہ ہے تمہیں سب گھر والوں سے محبت ملی ہے پھر بھی اگر کسی سے کوئی گلا ہے تو تمہاری عزت کی حفاظت میری زمہ داری ہے٫اس لحاظ سے بے فکر ہو جاو تم۔
________________________________________

جی دادو بھائی ترکی میں ہیں بھابی کے ساتھ۔
ڈیڈ کی بات ہوئی ہے ان سے۔
حبا آہستہ آواز میں دادی کو بتا رہی تھی۔
شکر ہے خدا کا میری بچی ٹھیک ہے۔
دانی اس کے ساتھ ہے تو فکر کی کوئی بات نہی۔
دادو آہستہ پلیز۔۔۔۔ماما سن لیں گی تو طوفان مچا دیں گی٫کامران نے سرگوشی کی۔
ارے مچانے دو طوفان اسے تمہاری ماں کی پرانی عادت ہے۔
مام۔۔۔۔حبا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
دانی کہاں ہے؟
وہ حبا اور کامران کو غصے سے گھورتی ہوئی بولیں۔
کچھ پوچھا ہے میں نے تم دونوں سے!
جب دونوں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ چلائیں۔
کامی!!!!
جججی۔۔۔۔جی مام
کچھ بولو گے تم؟
بھائی تو ملائیشیا میں ہیں۔۔۔جواب حبا نے دیا۔
تم چپ رہی بھائی کی چمچی تم سے میں بعد میں نمٹوں گی۔
تم بتاو مجھے کامی کہاں گیا ہے دانی؟
ترکی گیا ہے۔۔۔۔تمہیں کیا تکلیف ہے جواب دادی جی نے دیا۔
کس کی اجازت سے گیا ہے وہ وہاں؟
اپنی بیوی کے ساتھ ہے وہ اور وہ اب دودھ پیتا بچہ نہی ہے جو ہر کام کے لیے تمہاری اجازت ضروری ہو گی۔
آپ کی وجہ سے ہو رہا ہے یہ سب اماں جان!
آپ مجھ سے میرے بچے دور کر رہی ہیں۔۔۔۔اس لڑکی کی خاطر۔
بس کر دو زلیخا!
زرا لحاظ نہی ہے تمہیں بچوں کے سامنے کیا بات کرنی ہے۔
تمہارے دل میں زرا رحم نہی ہے اس بچی کے لیے؟
آخر اس نے بگاڑا کیا ہے تمہارا؟
اس کی ایک خالہ ہی تو ہے اس کا مائیکہ اور کون ہے اس کا وہاں؟
وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ایسے حالات میں وہ بچی ٹوٹ چکی ہے۔
دانی نے بہت اچھا کیا جو اس کے پاس چلا گیا۔
اپنا فرض بہت اچھے سے نبھا رہا ہے۔
یہ فرض وہ اپنی مرضی سے نہی نبھا رہا۔۔۔آپ سب مجبور کر رہے ہیں میرے بھولے بھالے بیٹے کو۔
مگر میری ایک بات اچھی طرح سن لیں آپ!
میں اس لڑکی کو یہاں ہرگز برداشت نہی کروں گی۔
تو پھر ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔۔۔دانی وہی رہے گا اس کے ساتھ۔
اب تم خود ہی سوچ لو کیا کرنا ہے تمہیں۔
اماں جی کی بات پر وہ غصے سے وہاں سے چلی گئیں۔
ابھی بات کرتی ہوں دانی سے۔۔۔اپنے کمرے میں آئیں اور دانیال کا نمبر ڈائل کیا۔
________________________________________

سو جاو آرام سے۔۔۔۔۔صبح میں خود لینے آوں گا تمہیں۔
دانیال اتنا بول کر دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ فون کی رنگ ٹون بجی۔
کال ایسکسپٹ کی اور فون کان سے لگا لیا۔
اسلام و علیکم۔۔مام کیسی ہیں آپ؟
کیسی ہو سکتی ہوں؟؟؟
کیا ہوا سب ٹھیک؟؟؟
وہ بات کرتے ہوئے کھڑکی کے پاس آ رکا۔
کہاں ہو تم اس وقت؟
ماں کے پوچھے گئے سوال پر دانیال نے سارہ کی طرف دیکھا اور نظریں چراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
ہونہہہہ سارہ طنزیہ مسکرائی۔
مام میں ملائیشا۔۔۔۔۔
جھوٹ بول رہے ہو تم مجھ سے دانی۔۔۔اس سے پہلے کہ دانیال اپنی بات مکمل کرتا وہ چلائیں۔
تم اس لڑکی کے ساتھ ہو ترکی میں!
جی مام میں آپ کو کال کرنے ہی والا تھا۔۔۔۔مجھے ایمرجنسی یہاں آنا پڑا۔
نہی نہی کیا ضرورت تھی مجھے بتانے کی؟
اپنے ڈیڈ اور دادی کو بتا دیا کافی ہے٫میری کیا اہمیت ہے تمہاری نظر میں۔
مام ایسا نہی ہے آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔
تو پھر ٹھیک ہے اگر میں غلط سمجھ رہی ہوں تو تم پہلی فلائٹ سے پاکستان واپس آ جاو۔
مام ابھی کیسے آ سکتا ہوں؟
سارہ اور آنی اکیلی ہیں یہاں۔۔۔انہیں تنہا چھوڑ کر کیسے آ سکتا ہوں۔
آنی ٹھیک ہو کر گھر شفٹ ہو جائیں پھر آ جاوں گا۔
تو پھر ٹھیک ہے کرتے رہو اس لڑکی کی غلامی۔۔۔ناچتے رہو اس کے اشاروں پر۔
مام۔۔۔۔اس سے پہلے کہ دانیال کچھ بولتا وہ کال کاٹ چکی تھیں۔
دانیال جیسے ہی کمرے کی طرف واپس پلٹا سارہ اسی کی منتظر تھی۔
بہتر یہی ہو گا کہ گھر واپس چلے جائیں کیونکہ بڑی ماما کو خطرہ ہے کہ میں ان سے ان کا بیٹا چھیننا چاہتی ہوں۔
Sarah listen....
دانیال کمرے میں داخل ہونے ہی لگا تھا کہ سارہ نے دروازہ بند کر دیا۔
اس نے بے بسی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور ہاسٹل کے لیے نکل گیا۔

________________________________________

Follow and subscribe my block for latest episode notifcation....





Friday, April 17, 2020

مسافر قسط نمبر_12


مسافر
قسط نمبر_12
از
خانزادی
سارہ میری بچی میری زندگی کا کیا بھروسہ ہے,آج ہوں کل نہی۔
تم دانیال کے لیے اپنے دل سے بدگمانیاں ختم کر دو۔
وہ تمہاری خاطر یہاں تک آیا ہے اب اور بدلے لینا بند کر دو اس سے,ماضی میں جو کچھ ہوا اس میں وہ قصور وار نہی ہے۔
جو زیادتیاں تمہارے ساتھ ہوٸیں ہیں اس کے لیے اسے زمہ دار مت ٹہراو۔
اگر اسے واقعی تمہاری پرواہ نہ ہوتی تو یہاں دھکے نا کھا رہا ہوتا۔
لاکھوں کی جاٸیداد کا وارث ہوتے ہوٸے بھی تمہارے ریسٹورنٹ میں معمولی سی جاب کر رہا تھا اور وہ ہمارا سہارا اس وقت بنا جب ہم دونوں تنہا رہ گٸیں تھیں۔
آنی آپ چاہت ہیں کہ میں اس کے اس احسان کے بدلے اپنی پوری زندگی اس کے نام کر دوں؟
غلام بن جاوں اس کی؟
نہی سارہ وہ تمہیں غلام نہی ملکہ بناناچاہتا ہے اپنی۔
آنی آپ آرام کریں ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے,وہ وارڈ سے باہر چلی گٸی۔
کیا ہوا سب خیریت؟
دانیال سارہ کو آتے دیکھ اس کی طرف بڑھا۔
تمہارے ہوتے ہوٸے خیریت ہو سکتی ہے بھلا۔۔۔وہ بے بسی سے بینچ پر بیٹھی آنسو بہانے لگی۔
دانیال وارڈ میں چلا گیا۔
Feling better?
وہ آنی کے ہاتھ آنکھوں سے لگاٸے بولا
ہممم انہوں نے سر ہاں میں ہلایا۔
بہت ضدی ہے یہ لڑکی کوٸی بات سمجھنے کو تیار نہی ہے۔
کوٸی بات نہی آنی آپ فکر مت کریں,جلد سمجھ جاٸے گی۔
بس آپ جلدی سے ٹھیک ہو جاٸیں پھر دونوں مل کر سمجھاٸیں گے اسے۔
ایک وعدہ کرو مجھ سے دانیال چاہے کچھ بھی ہو جاٸے تم سارہ کا۔
Don't worry aniii
میں ہمیشہ آپ دونوں کے ساتھ ہوں۔
آپ جلدی ٹھیک ہو جائیں پھر گھر چلیں ہم,دانیال ان کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگائے باہر چلا گیا۔
کھانا کھایا تم نے؟
دانیال کی آواز پر سارہ نے سر اٹھا کر دانیال کی طرف دیکھا۔
ان حالات میں تمہیں کھانے کی پڑی ہے،سارہ تپ گئی۔
مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھانے جا رہا تھا سوچا تم سے بھی پوچھ لوں،تم تو پوچھو گی نہی کبھی مجھ سے۔
امید بھی مت رکھنا مجھ سے۔۔۔۔
میں کھانا کھا چکی ہوں تمہیں کھانا ہے تو کھا  لو مگر مجھے کچھ دیر سکون سے بیٹھنے دو پلیز۔۔۔
As you wish....
وہ کندھے اچکائے وہاں سے چل دیا۔
یہ کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں میں؟
آنی کو بھی اپنے طرف کر لیا ہے اس نے
۔
میرا آنی کے سوا اور کوئی نہی ہے اور دانیال نے میری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا ہے۔
آنی ٹھیک ہو کر گھر آ جائیں ایک بار میں اسے ایک منٹ برداشت نہی کروں گی اسے یہاں۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ دانیال نے اس کی طرف کافی کا کپ بڑھایا۔
بدلے میں سارہ نے اسے گھورا۔
جانتا تھا تم نہی پئیو گی اسی لیے ایک ہی لایا ہوں وہ ہاتھ واپس کھینچتے ہوئے بینچ پر بیٹھ گیا۔
تم نے پھر سے حجاب پہن لیا جبکہ تم ڈوپٹہ اوڑھ کر زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔
مجھے کوئی شوق نہی ہے دنیا کو اپنی خوبصورتی دکھانے کا۔۔۔وہ بے رخی سے جواب دے کر فون پر مصروف ہو گئی۔
ہممم اچھی سوچ ہے مگر بیوی کو شوہر کی پسند نا پسند کا خیال رکھنا چاہیے۔
بیوی کو ویسا لباس پہننا چاہیے جو اس کے شوہر کو پسند ہو۔
بشرطیکہ وہ شوہر بھی بیوی کو پسند ہو،بنا کوئی لحاظ کیے وہ جواب دے گئی۔
اس سے پہلے کہ دانیال کچھ کہتا اس کے فون کی رنگ ٹون بجی۔
ڈیڈ کی کال۔۔۔کال اٹینڈ کرتے ہوئے فون کان سے لگا لیا۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔جی ڈید
جی یہاں سب ٹھیک ہے اب آنی کی طبیعت بہت بہتر ہے اب پہلے سے۔
جی سارہ کے ساتھ ہی ہوں میں۔
جی یہ لیں کر لیں بات اس سے,اسنے فون سارہ کیطرف بڑھا دیا۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔
جی بڑے پاپا میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟
جی آنی ٹھیک ہیں اب پہلے سے الحمدللہ۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔۔
بس اتنا بول کر سارہ نے فون دانیال کی طرف بڑھا دیا۔
I can't believe .....
بڑے پاپا بھی شامل تھے اس سب معاملے میں۔
ہاں تو؟؟؟
ڈیڈ نے بہت سپورٹ کیا ہے مجھے،آج اگر میں تمہارے ساتھ ہوں تو ڈیڈ کی وجہ سے۔
کاش تم میرے ساتھ نہ ہی ہوتے۔
You know???
زہر لگ رہے ہو مجھے۔۔۔نفرت ہو رہی ہے تمہارے چہرے سے۔
بہتر یہی ہو گا کہ یہاں سے اٹھ کر کہی اور چلے جاو۔
دانیال نے ایک گہری سانس لی اور وہاں سے چلا گیا۔

باقی اگلی قسط میں۔۔۔امید ہے اب تک کی کہانی پسند آئی ہو گی آپ سب کو۔۔۔۔میرے بلاگ کو سسکرائب اور فالو کر دیں شکریہ


Wednesday, April 15, 2020

مسافر قسط نمبر_11


مسافر
قسط نمبر_11
از
خانزادی

کیا؟؟؟؟؟
اسفند بھنویں سکوڑتے ہوئے بولا۔
تم سفر سے تھک گئی ہو آرام کرو میں ہاسپٹل جا رہا ہوں وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا۔
بھاگ کیوں رہے ہو؟
سارہ کی آواز پر اس کے قدم رک گئے اور وہ واپس پلٹا۔
بس کر دو اب یہ ڈرامے بازی دانیال!
بہت بے وقوف بنا لیا تم نے مجھے اور آنی کو مگر اب اور نہی۔۔۔۔
شاید مجھے کبھی پتہ نا چلتا۔۔۔۔مگر شکریہ حبا کا جس کی وجہ سے تمہاری سچائی سامنے آ گئی۔
بڑے پاپا کے فون سے میں نے ڈائل تو نمبر اسفند کا کیا تھا مگر نام دانیال کا آ گیا۔
پہلے تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہ آیا کیونکہ اس وقت میں پریشان تھی مگر زیادہ وقت نہی لگا مجھے سچ کو سمجھنے میں۔
واوووو کیا کھیل کھیلا ہے تم نے ہمارے ساتھ۔
سارہ کی ساری بات وہ چپ چاپ سن رہا تھا ایک حہری سانس لیتے ہوئے آگے بڑھا۔
ہاں یہ سچ ہے سارہ۔
"میں اسفند نہی دانیال ہوں"
تم کھانا کھا کر آرام کرو ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے ابھی مجھے ہاسپٹل جانا ہے آنی اکیلی ہیں وہاں۔
بعد میں نہی ابھی!
سارہ اس کا راستے میں آ رکی۔
کیوں کیا تم نے یہ سب؟
اور وہ کون تھا گھر پر جو دانیال بن کر میرے سامنے آیا؟
wait wait....
اس دن ڈائینگ ٹیبل پر بھی تم تھے جب میرے آتے ہی تم وہاں سے اٹھ گئے؟
ہاں سارہ میں ہی تھا وہ مجھے ڈر تھا کہ تم مجھے دیکھ نہ لو۔
دراصل جو دانیال تھا وہاں وہ اسفند ہے میرا دوست۔۔۔یہی ہوتا ہے ترکی میں،خوامخواہ تم نے اس بیچارے کو تھپڑ رسید کر دیا۔
تمہیں اس کے تھپڑ کی زیادہ پرواہ ہے اور جو تم نے میرے ساتھ کیا اس پر کوئی شرمندگی نہی تمہیں؟
کیسی شرمندگی سارہ؟
میں نے جو کچھ کیا تمہارے بھلے کے لیے کیا۔
نہی تم نے میرے بھلے کے لیے نہی کیا!
تم نے اپنا فائدہ سوچا بس۔۔۔تم نے مجھے پاکستان جانے پر اکسایا اور بولا کہ میں تم سے خلع مانگوں،مطلب تم گھر والوں کے سامنے میری تزلیل کروانا چاہتے تھے اور خود نیک نام بن کر رہنا چاہتے تھے۔
کہہ دو کہ یہ سب جھوٹ ہے اور میں کوئی برا خواب دیکھ رہی ہوں وہ سر تھامے صوفے پر بیٹھ کر آنسو بہانے لگی۔
دانیال اس کی طرف بڑھا اور گھٹنوں کے بل اس کے سامنے فرش پر بیٹھ گیا۔
سارہ کے ہاتھ چہرے سے ہٹا کر آنسو پونچھے اور اد کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔
نہی سارہ یہ خواب نہی حقیقت ہے۔۔۔۔تم مجھے غلط مت سمجھو۔
میں نے جو کچھ بھی کیا ہم دونوں کے بھلے کے لیے ہی کیا۔
سوچو اگر میں دانیال بن کر تمہارے سامنے آتا تو کیا تم مجھے ایک منٹ کے لیے بھی اس گھر میں برداشت کرتی؟
تم کسی بھی صورت پاکستان جانے پر راضی نہی تھی تو مجھے تمہیں خلاع کا کہنا پڑا۔
میں بس یہ چاہتا تھا کہ تم ایک بار پاکستان چلی جاو،وہاں جا کر دیکھو سب کتنا پیار کرتے ہیں تم سے۔
اور میں۔۔۔۔میں نے کہاں کہاں نہی ڈھونڈا تمہیں،میں تمہیں کھونا نہی چاہتا تھا اس لیے مجھے جھوٹ بولنا پڑا۔
یہ بھی جھوٹ؟
سارہ نے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے۔
مجھے اب اعتبار ہی نہی رہا تم پر۔۔۔تم نے دوستی جیسے رشتے کو چکنا چور کر دیا۔
کاش تم دانیال بن کر اس گھر میں آتے کم ازکم تم سے کوئی امید تو نہ لگاتی میں۔
ایک بار آنی گھر آ جائیں پھر تم یہاں سے جا سکتے ہو،خلع دو یا نہ دو اس بات سے مجھے کوئی فرق نہی پڑتا۔
ابھی تم غصے میں ہو اور غصے میں انسان کا دماغ ماوف ہو جاتا ہے بعد میں سوچنا اس بارے میں دانیال گہری سانس لیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ کچھ دیر آنسو بہاتی رہی اور پھر الماری سے کپڑے نکال کر فریش ہونے چلی گئی۔
دانیال ہاسپٹل میں آنی کے حوش میں آنے کا انتظار کرتا رہا۔
چند گھنٹے بعد ان کو حوش آ ہی گیا۔
وہ جیسے ہی ان سے ملنے گیا وہ سارہ کو پکارنے لگیں۔
آنی میں ہوں ناں آپ کے پاس،سارہ کو کال کرتا ہوں وہ ابھی آ جائے گی۔
اس نے جلدی سے فون آن کیا اور سِم ایکسچینج کرنے کے بعد سارہ کو میسیج کیا کیونکہ وہ جانتا تھا وہ اس کی کال اٹینڈ نہی کرے گی۔
آنی آپ ٹھیک ہو جائیں گی انشا اللہ۔
سارہ ابھی آ جائے گی کچھ دیر میں آپ آرام کریں۔
وہ پاکستان سے کب آئی؟
وہ لڑکھڑاتی سی آواز میں بہ مشکل بولیں۔
آج ہی آئی ہے،آپ زیادہ مت بولیں پلیز۔
دس منٹ بعد سارہ وہاں آ گئی اور آنی کو اس حالت میں دیکھ کر آنسو بہانے لگی۔
آنی یہ سب کیا ہو گیا؟
آپ کو کیا ضرورت تھی ریسٹورنٹ جانے کی،اسفی تھا ناں یہاں وہ سنبھال لیتا سب۔۔۔بے خیالی میں اس کے منہ سے اسفند کا نام نکل گیا۔
دانیال کمرے سے باہر چلا گیا۔
کچھ نہی ہوتا میری جان میں ٹھیک ہوں،تم فکر مت کرو۔
تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی مگر وعدہ کرو میری بات پوری سنے بغیر یہاں سے نہی جاو گی۔
جی آنی بتائیں آپ۔
دراصل یہ جو اسفی ہے ناں یہ اسفی نہی "دانیال ہے تمہارا شوہر"
آنی آپ جانتی تھیں؟؟؟
سارہ حیرت زدہ سی بولی۔
ہاں مجھے پتہ تھا اور وہ یہ سب میرے کہنے پر ہی کر رہا تھا۔
آنی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟
ہاں بلکل سچ کہہ رہی ہوں میں۔۔۔جب تمہاری ماں کی وفات ہوئی تو میں نے پاکستان کال کی اطلاع دینا میرا فرض تھا۔
خوش قسمتی سے وہ کال دانیال نے اٹینڈ کی۔
ایک طرف وہ خوش تھا اور دوسری طرف اپنی چچی کی موت کی خبر سن کر دکھی ہو گیا۔
خوشی اس بات کی تھی کہ وہ تم دونوں تک پہنچ گیا۔
اس نے بہت سال تم دونوں کی ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی سب بتایا اس نے مجھے،پھر اس نے مجھ دے کہا کہ تم سے ملنا چاہتا ہے۔
مگر میں نے منع کر دیا کیونکہ تمہاری ضد میں جانتی تھی تم ایک منٹ نہ برداشت کرتی اسے اپنے سامنے۔
ایک ماہ بعد اسے ترکی بلایا میں نے دانیال بن کر نہی بلکہ اسفند بن کر۔
کرایہ دار کے بہانے اسے اپنے گھر رہنے دیا اور پھر اسے ریسٹورنٹ میں جاب دی تا کہ وہ تمہارے قریب رہ سکے تم اسے جان سکو اور وہ تمہیں۔
مگر تم صدا کی ضدی تم نے بات آگے بڑھنے ہی نہی دی۔
میں چاہتی تھی کہ جب تم دونوں کی اچھی دوستی ہو جائے تو دانیال تمہیں سچ بتا دے مگر تم ہمیشہ اسے پرایا بول دیتی تھی تو مجبوراً تمہیں پاکستان بھیجنے کا سوچا ہم نے۔
دانیال چاہتا تھا کہ وہاں جا کر تمہیں سچ بتا دے گا۔
آنی اس نے ہم دونوں کے ساتھ دھوکا کیا ہے وہ یہ سچائی کبھی نہی بتانے والا تھا مجھے۔
تم غلط سوچ رہی ہو سارہ وہ ایک سچا انسان ہے۔
جب میری دانیال سے پہلی ملاقات ہوئی اس دن مجھے فخر محسوس ہوا تمہارے بابا کی چوائس پر۔
بہت محبت کرتا ہے تم سے۔۔۔ہمیشہ خوش رکھے گا۔
میری زندگی کا کچھ بھروسہ نہی میں چاہتی ہوں تم اس کی طرف سے اپنا دل صاف رکھو۔
پلیز آنی ایسی باتیں مت کریں آپ،مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔

Tuesday, April 14, 2020

مسافر قسط نمبر_10

مسافر
قسط نمبر_10
از
خانزادی

ناشتے کے بعد حبا سارہ کے کمرے میں آ گئی اور ساری الماری سیٹ کر دی۔
یہ والا ڈریس۔۔۔اس نے سارہ کی طرف بے بی پنک کلر ڈریس بڑھایا۔
یہ پہنیں گی آپ ابھی،جائیں جلدی سے تیار ہو جائیں بھابی۔
لیکن ابھی کیا ضرورت ہے حبا؟
میں پھر کسی دن پہن لوں گی۔۔۔
نہی بھابھی میں یہ آپ کے پہننے کے لیے لائی ہوں الماری میں سجانے کے لیے نہی۔
جلدی کریں بھابی پلیز۔۔۔۔حبا نے اسے واش روم کی طرف دھکیلا۔
مجبوراً سارہ کو وہ ڈریس تھامنا ہی پڑا۔
کچھ دیر بعد وہ فریش ہو کر باہر آئی تو حبا کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
O My God....
ماشا اللہ۔۔۔۔بھابی آپ کے بال کتنے لمبے اور خوبصورت ہیں۔
آئیں یہاں بیٹھیں میں ڈرائیر آن کرتی ہوں حبا اسے زبردستی ڈریسنگ کے سامنے لے گئی۔
ڈرائیر آن کر کے بال ڈرائی کیے اور پھر سٹریٹنگ کی۔
ماشا اللہ بھابی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔
اب میں حجاب پہن لوں؟
سارہ کو تھوڑا عجیب محسوس ہو رہا تھا کیونکہ اس نے آج سے پہلے کسی کے سامنے اپنے بال نہی کھولے تھے۔
No way....
حجاب لینے کا سوچیے کا بھی مت،یہ آپ کا اپنا گھر ہے اور اپنا ملک ہے یہاں ٹینشن والی کوئی بات نہی ہے۔
مگر مجھے عادت نہی ہے حبا۔۔۔
کوئی بات نہی آہستہ آہستہ ہو جائے گی عادت۔
آپ لائٹ سا میک اپ بھی کر لیں۔
نہی۔۔۔مجھے میک اپ سے سخت الرجی ہے۔
آج تک کبھی میک اپ نہی کیا میں نے۔
مجھے اندازہ ہے بھابی آپ بنا میک اپ کے ہی بہت پیاری ہیں یقیناً آپ کو کبھی ضرورت ہی نہی پڑی ہو گی۔
چلیں رہنے دیں جب بھائی واپس آ جائیں تب کر لیجیے گا۔
حبا۔۔۔۔سارہ نے اسےگھورا۔
مزاق کر رہی تھی۔۔حبا ہنسنے لگی۔
حجاب نہی لینے دے رہی تم اور ایسے بالوں کو کیسے سنبھالوں گی میں سارا دن؟
ہممم اس کا علاج بھی ہے میرے پاس،میں ابھی پیارا سا جوڑا بنا دیتی ہوں۔
امممم۔۔۔۔چلیں باہر؟
کہاں سارہ حیران سی بولی۔
باقی سب کو دکھانے کل آپ شلوار قمیض میں کتنی خوبصورت لگ رہی ہیں۔
نہی۔۔۔میں یہی ٹھیک ہوں۔
مطلب اب آپ کمرے سے باہر نہی جائیں گی؟
اففف بھابی۔۔۔آپ اتنی ریزرو کیوں ہیں؟
میں ایک کال کر لوں زرا۔
آنی کو رات سے کال کر رہی ہوں مگر وہ پک نہی کر رہیں۔
اوکے۔۔۔آپ کر لیں کال،میں بعد میں آتی ہوں۔
سارہ پھر سے آنی کا نمبر ڈائل کرنے لگی مگر وہ کال پِک نہی کر رہی تھیں۔
پھر اس نے لیپ ٹاپ آن کیا اور اسفی کو سکائپ پر کال کرنے لگی مگر وہ آن لائن نہی تھا۔
تب ہی حبا کمرے میں آئی،ہو گئی بات؟
ننہی۔۔۔۔آنی کال اٹینڈ نہی کر رہیں،سارہ نے تیِ سے لیپ ٹاپ شٹ ڈاون کیا۔
حبا مسکرا دی۔
Dont worry....
ہو سکتا ہے وہ کہی باہر گئی ہو۔۔۔یا پھر بزی ہو۔
پہلے کبھی ایسا نہی ہوا حبا میں کل رات سے انہیں کال کر رہی ہوں اگر وہ کہی جائیں تو اپنا فون ہمیشہ ساتھ رکھتی ہیں۔
ہممم تو آپ کسی اور کو کال کر لیں۔۔۔میرا مطلب اپنے ریسٹورنٹ سٹاف میں سے کسی کو۔
ہاں یاد آیا تانیہ کو کرتی ہوں کال۔
یاد آنے پر سارہ نے جلدی سے تانیہ کا نمبر ڈائل کیا۔
ہیلو۔۔۔۔تانیہ نے کال اٹینڈ کی۔
سارہ بات کر رہی ہوں۔۔۔۔تانیہ آنی کہاں ہیں؟
سارہ تم کہاں ہو؟
یہاں بہت گڑ بڑ ہو گئی ہے۔تانیہ رو رہی تھی۔
میں کب سے تمہیں کال کر رہی تھی مگر تمہارا نمبر ہی بند جا رہا ہے۔
کیا ہوا ہے تانیہ؟
تم رو کیوں رہی ہو،سب خیریت تو ہے ناں؟
آنی کہاں ہیں میری بات کروا سکتی ہو ان سے؟
میم تو ہاسپٹل میں ان کو گولی لگی ہے۔۔۔۔تانیہ روتے ہوئے بولی۔
whattttttt?
کیسے؟
آنی ٹھیک تو ہیں اور اسفی؟
اسفی کہاں ہے؟
اس سے پہلے کہ تانیہ جواب دیتی کال ڈراپ ہو گئی۔
بیلنس۔۔۔۔ختم ہو گیا۔
اس نے حبا کی طرف دیکھا۔
ایک منٹ ٹہریں بھابی میں ابھی آئی حبا تیزی سے کمرے سے باہر گئی اور فون لا کر سارہ کو دے دیا۔
سارہ نے جلدی سے تانیہ کا نمبر ڈائل کیا۔
تانیہ آنی کیسی ہیں اب؟
یہ سب کیسے ہوا؟
ریسٹورنٹ میں چور آ گئے تھے میم نے مزاحمت کی اور بدلے میں انہوں نے گولیاں چلائیں۔
آنی کے سینے میں گولی لگی ہے اور باقی سٹاف کو بھی گولیاں لگی ہیں۔
میرے بازو پر لگی تھی آج ہاسپٹل سے گھر آئی ہوں۔
تم اسفی کو کال کرو وہ ہاسپٹل ہے۔
سارہ نے کال ڈسکنیکٹ کی اور کانپتے ہاتھوں سے اسفی کا نمبر ڈائل کیا مگر اس کا نمر بند تھا۔
حبا تم کامران سے بولو میری ترکی کے لیے ٹکٹ کنفرم کرے۔
مجھے ابھی جانا ہو گا۔
جی بھابی میں ابھی جاتی ہوں۔
سارہ حیرت زدہ سی کبھی اپنے فون کو دیکھ رہی تھی اور کبھی اسفی کے ڈائل نمبر کو جو مسلسل بند جا رہا تھا۔
وہ سر تھامے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟
لگتا ہے ابھی میرا دل پھٹ جائے گا درد سے،اتنا سب کچھ ہو گیا اور مجھے پتہ ہی نہی چلا۔
بھابی بارہ بجے کی فلائٹ ہے ابھی دس بجے ہیں۔
آپ جلدی ریڈی ہو جائیں میں آپ کو ائیرپورٹ ڈراپ کر دوں گا،کامران اچانک کمرے میں آیا۔
یہ فون۔۔۔۔حبا نے فون سارہ کی طرف بڑھایا۔
یہ ڈیڈ کا فون ہے جلدی میں یہی نظر آیا،ڈیڈ ڈائیننگ ٹیبل پر ہی بھول گئے تھے۔
حبا جلدی کرو باتوں کے لیے وقت نہی ہے،تم بیگ پیک کرو بھابھی کا۔
ہاں میں ابھی کرتی ہوں،حبا الماری کی طرف بڑھ گئی،جبکہ سارہ وہی بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔
Don't worry bhabi....
سب ٹھیک ہو جائے گا آپ پریشان نہ ہو۔
حبا نے بیگ پیک کر کے کامران کی طرف بڑھایا۔
آ جائیں بھابی میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔
میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔
ٹھیک ہے تم مام کو بتا دینا یاد سے دادا جان اور دادو تو گھر پے نہی ہیں۔
ٹھیک ہے۔۔۔حبا نے سارہ کا ہینڈ بیگ اس کی طرف بڑھایا اور اپنے کمرے سے اپنے فون اور ہینڈ بیگ لے کر گاڑی کی طرف بڑھی۔
حبا سارے راستے اسے تسلیاں دیتی رہی۔
کامران نے اس کی ٹکٹ خریدی اور سارہ کے حوالے کر دی۔
وہ دونوں کو خدا حافظ بول کر آنسو بہاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
جیسے ہی سارہ کی فلائٹ کا اعلان ہوا وہ دونوں گھر واپسی کے لیے چل دیے۔
سارے رستے سارہ دکھ،قرب اور بے چینی میں مبتلا رہی۔
اس کا بس نہی چل رہا تھا ورنہ دل چاہ رہا تھا اڑ کر آنی کے پاس پہنچ جائے۔
طویل سفر کے بعد وہ ترکی پہنچ ہی گئی۔
ائیر پورٹ سے ٹیکسی لی اور پہلے گھر پہنچی۔
خالی خالی گھر اسے خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔
اس نے بیگ وہی ٹی وی لاونج میں چھوڑا اور ہاسپٹل کے لیے چل دی۔
ہاسپٹل پہنچ کر مطلوبہ وارڈ کی طرف بڑھی تو کاریڈور میں بینچ پر پریشان حال اسفی پر اس کی نظر پڑی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اس کی جانب بڑھی۔
اتنا سب ہو گیا اور تم نے مجھے بتانا بھی ضروری نہی سمجھا؟
اس آواز پر اسفی نے نظریں اٹھا کر سارہ کی جانب دیکھا آواز تو جانی پہچانی تھی مگر چہرہ؟
چند پل لگے اسے سمجھنے میں۔
سارہ تم یہاں؟؟؟
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا وہ حیران تھا سارہ کو اس حلیے میں اچانک سامنے دیکھ کر۔
ہاں میں یہاں۔۔۔وہ تو شکر ہے خدا کا کہ تانیہ نے مجھے سب بتا دیا ورنہ مجھے تو کچھ پتہ ہی نہ چلتا۔
سارہ کے لہجے میں تلخی سی تھی۔
اسفی سمجھ نہی پایا اس کے لہجے کو۔
تمہارے زمے چھوڑ کر گئی تھی میں آنی کو اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم اتنے غیر زمہ دار نکلو گے تو میں کبھی اتنا بڑا قدم نہ اٹھاتی۔
کہاں ہیں آنی مجھے ملنا ہے ان سے؟
وہ آئی سی یو میں ہیں،کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہی ہے۔
سارہ آنسو بہاتی ہوئی بینچ پے بیٹھ گئی۔
I am sorry....
میں شہر سے باہر تھا اس وقت کسی کام سے۔
تمہاری سوری سے سب ٹھیک تو نہی ہو جائے گا۔
تم گھر چلو،یہاں بس ایک کو رکنے کی اجازت ملے گی۔

تو پھر تم چلے جاو گھر،میں یہی رکوں گی۔
سارہ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو تم اتنے لمبے سفر سے تھک گئی ہو گی۔
گھر جا کر کچھ کھا لو اور آرام کرو۔
میں ہوں یہاں۔۔۔۔
تم پر اب اعتبار نہی رہا مجھے۔۔
دیکھو سارہ میں جانتا ہوں میری غلطی ہے مگر تم خود کو سزا کیوں دے رہی ہو؟
گھر جاو کچھ دیر آرام کرو پھر آ جانا واپس۔
آنی کو دو گھنٹے سے پہلے حوش نہی آنے والا،آپریٹ ہوا ہے ابھی ابھی۔
گولی ان کے دل کے پاس لگی ہے مگر شکر ہے خدا کا ہارٹ کو کوئی نقصان نہی پہنچا۔
میری ڈاکٹر سے بات ہو گئی ہے اب ان کی حالت بہتر ہے۔
پلیز تم گھر چلی جاو۔۔۔بلکہ میں خود چھوڑ آتا ہوں تمہیں حالات ٹھیک نہی ہیں۔
سارہ نا چاہتے ہوئے بھی باہر کی طرف چل دی۔
سارہ کو گھر چھوڑ کر اسفی دروازے سے ہی واپس پلٹ گیا۔
سارہ منہ ہاتھ دھو کر بیٹھ گئی۔
کچھ ہی دیر بعد اسفی کھانے کے ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوا۔
تم کھانا کھا کر آرام کرو،جیسے ہی آنی کو ہوش آئے گا میں کال کر دوں گا تمہیں۔
اتنی ہمدردی کیوں؟
رشتہ کیا ہے تمہارا میرے ساتھ؟
سارہ یہ سب کیا بول رہی ہو تم؟
دوست ہیں ہم اب مجھے یہ بتانے کی ضرورت پڑے گی کیا؟؟؟
دوست نہی ہو تم۔۔۔۔تم دشمن ہو میرے،سارہ چلائی۔
Cool down....
ایسا کیا کر دیا ہے میں نے جو تم اتنا غصہ کر رہی ہو؟
یہ سوال تم خود سے پوچھو مسٹر اسفند عرف دانیال۔۔۔۔۔۔

________________________________________
باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔امید ہے ناول آپ سب کو پسند آ رہا ہو گا،سب کو شکایت رہتی ہے قسط دیر سے ملنے کی😕
لاک ڈاون کی وجہ سے بچے اور ہبی گھر پے ہیں،ان سب کو سنبھالنا اور گھر کے کام اففففف۔۔۔۔ایسے حالات میں لکھنے کا ٹائم ہی نہی ملتا آپ لوگ ہی بتائیں کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟؟؟
تو بتائیں کیسا لگا سرپرائز اسفند عرف دانیال😁؟
جس کو سمجھ آ گئی کمنٹ کریں💞

مسافر قسط نمبر_9

مسافر
قسط نمبر_9
از
خانزادی

میری بات ہو گئی ہے حبا سے بھابی ہم امپوریم مال چلیں گے لنچ کے بعد۔۔۔کامران اچانک وہاں آیا تو سارہ چونک گئی۔
ہممم ٹھیک ہے۔۔بے دلی سے جواب دے کر وہ اندر چلی گئی۔
دادو آ جائیں لنچ تیار ہے،کامران ان دونوں کو ساتھ لیے اندر چل دیا۔
بھابی آ جائیں لنچ کر لیں۔۔۔سارہ ابھی کمرے میں آئی ہی تھی کہ کامران دروازہ ناک کرتے ہوئے بولا اور واپس پلٹ گیا۔
سارہ نے سب کے ساتھ لنچ کیا اور پھر تیار ہونے چلی گئی۔
کچھ دیر بعد وہ تیار ہو کر نیچے آئی تو کامران اور حبا اسی کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
سب کو خدا حافظ بول کر وہ تینوں باہر چلے گئے۔
وہ چپ چاپ گاڑی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھی۔
یہاں کی بھیڑ بھاڑ اور راستے میں لوگوں کی نوک جونک سارہ بہت انجوائے کر رہی تھی۔
________________________________________
میری ایک بات غور سے سن لیں آپ!
میں اس لڑکی کو اب مزید برداشت نہی کروں گی،ان تینوں کے جاتے ہی زلیخا کی بخث شروع ہو گئی۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟
دانیال کے بابا غصے سے بولے۔
مطلب یہ ہے کہ میں اپنے بیٹے کی زندگی برباد نہی ہونے دوں گی۔
اس لڑکی سے بولیں جہاں سے آئی ہے وہی واپس چلی جائے۔
یہ فیصلہ کرنے والی تم کون ہوتی ہو؟
اماں جی بولے بنا نہ رہ سکیں۔
اس کی وراثت ہے اس گھر میں،دانیال کے نکاح میں آنے سے پہلے وہ اس گھر کی بیٹی ہے۔
اس کے وارث ابھی زندہ ہیں تم اس کی فکر مت کرو۔
خبردار جو آئیندہ سارہ کے خلاف کوئی بات کی تو اچھا نہی ہو گا تمہارے لیے۔
اماں جی آپ خود کو ہائپر مت کریں میں بات کرتا ہوں۔
زلیخا آخر تمہیں مسئلہ کیا ہے بچی سے؟
ابھی اسے یہاں آیا ہفتہ بھی نہی ہوا اور تم اس سے حسد کرنا شروع ہو گئی۔
حسد؟
حسد وہ بھی اس دو ٹکے کی لڑکی سے جس کی ماں ساری زندگی ویٹرس کی نوکری کرتی رہی ہے اور وہ خود بھی تو یہی کرتی ہے اس کا کیا مقابلہ ہے مجھ سے؟
زلیخا دراصل غلطی تمہاری نہی ہے تمہاری سوچ ہی غلط ہے۔
جسے تم ویٹرس کا درجہ دے رہی ہو ناں،دراصل وہ ترکی کے ایک مشہور ہوٹل کی اکلوتی مالکن ہے اس کی ایک مہینے کی انکم لاکھوں میں ہے اور اسے تم کم تر سمجھ رہی ہو۔
افسوس ہے مجھے تمہاری سوچ پر اگر تم اسے بیٹی کی نظر سے دیکھتی تو کبھی ایسا ناں بولتی۔
تو کیا ہوا وپ ریسٹورنٹ بھی تمہارء بھائی نے خریدا ہو گا اس میں کونسی بڑی بات ہے؟
یہ کوئی جواز نہی کہ وہ کتنا کماتی ہے،میں بس یہ چاہتی ہوں کہ وہ یہاں سے واپس چلی جائے۔
دانیال اس میں انٹرسٹڈ ہی نہی ہے تو کیا فائدہ اس کے یہاں رکنے کا۔
کس نے کہا تم سے کہ دانیال اس میں انٹرسٹڈ نہی ہے؟
کیا دانیال نے تم سے کہا؟
وہ کہے یا ناں کہے میں سب سمجھتی ہوں۔
میرا معصوم بچہ مجبور ہے اس رشتے کو نبھانے پر آپ سب کے دباو میں ہے وہ۔
دانی کوئی دودھ پیتا بچہ نہی ہے زلیخا!
اگر اسے سارہ سے کوئی مسئلہ ہوا تو ہم جانیں اور وہ جانے،تم اس معاملے سے دور ہی رہو تو بہتر ہو گا۔۔۔اماں جی غصے سے چلائیں۔
ایک بار دانی واپس آ جائے پھر ہم خود بات کر لیں گے اس سے،تم فکر نہ کرو۔
زلیخا غصے میں وہاں سے چلی گئی۔
تینوں پریشان سے بیٹھ رہے۔
________________________________________
کامران گاڑی پارک کر رہا تھا کہ تب ہی حبا کا فون بجا۔
دانی بھائی کی کال ہے وہ سارہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔
جی بھائی۔۔۔اس نے کال پک کر کے فون کان سے لگایا۔
اوکے بھائی۔۔۔۔خدا حافظ۔
بھابی آپ کا فون کیوں بند جا رہا ہے؟بھائی کہہ رہے ہیں وہ کب سے آپ کو کال کر رہے ہیں۔
ہاں وہ چارج نہی ہے شاید۔۔۔سارہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
ہممم کوئی بات نہی میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں۔
چلیں۔۔۔؟
وہ ابھی باتیں کر ہی رہی تھی کہ کامران وہاں آ گیا اور تینوں مال کی طرف بڑھ گئے۔
اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔حبا کی نظر برائیڈل ڈریس پے پڑی۔
واووو بھابی کتنا خوبصورت ڈریس ہے،آپ پر بہت سوٹ کرے گا۔
نہی حبا میں اتنے ہیوی ڈریسز نہی پہنتی۔
I know..
آپ جینز اور ٹاپس پہنتی ہیں مگر شادی پر تو ہیوی ڈریس ہی پہننا پڑے گا آپ کو۔
کس کی شادی؟
سارہ ڈریس کو چھوتے ہوئے بولی۔
اوہو بھابی آپ کی شادی اور کس کی۔
میری شادی؟؟؟؟
سارہ حیرت زدہ انداز میں بولی۔
Ofcource...
آپ کی اور دانی بھائی کی شادی۔۔۔بس نکاح ہوا تھا آپ دونوں کا رخصتی تو ابھی باقی ہے۔
آپ کا دلہن بننا باقی ہے ابھی اور مجھے اپنے بھائی کے سر پے سہرا بھی تو سجانا ہے۔
میری خواہش ہے کہ وہ دن جلدی آئے۔۔۔۔
اور میری خواہش ہے کہ وہ دن کبھی نا آئے۔۔۔سارہ دل ہی دل میں جلتی ہوئی سوچ میں پڑ گئی۔
تو پھر پیک کروا لوں یہ ڈریس؟
حبا کے سوال پر وہ مسکرا دی۔
چلو یہاں سے مجھے ابھی شادی کی کوئی جلدی نہی ہے مِس حبا وہ حبا کو کان سے کھینچ کر شاپ سے باہر لے گئی جس پر کامران نے قہقہ لگایا۔
ویری گڈ بھابی یہ ایسے ہی سہی ہو گی۔
تمہیں تو میں دیکھ لوں گی بعد میں کامی کے بچے۔۔۔۔حبا نے کامران کو گھورا۔
میرے بچے فلحال تو نہی ہیں جب ہو گے تب دیکھ لینا۔۔۔کامی نے مزید قہقہ لگایا۔
سارہ بھی مسکرا دی۔
چلیں بھابی شادی کا ڈریس تو آپ نے خریدا نہی یہ ہی خرید لیں بہت خوبصورت ڈریسز ہیں لائٹ ویٹ۔
نہی میں نے کبھی ایسے کپڑے پہنے ہی نہی،سارہ نے سر نفی میں ہلایا۔
پہلے آپ پاکستان بھی تو نہی آئی کبھک مگر اب آپ کو پکی پاکستانی بننا ہے اور یہ ڈریس ہی پہننے پڑیں گے۔
آپ سلیکٹ کریں۔
I have no idea..
ٹھیک ہے میں سلیکٹ کر دیتی ہوں مگر آپ کو پہننے پڑیں گے بہت سوٹ کریں گے آپ پر۔
اوکے۔۔۔سارہ نے فقط مسکرانے پر اکتفا کیا۔
تینوں نے خوب شاپنگ کی اور آئسکریم کھا کر واپسی کے لیے چل دیے۔
کامی پلیز واپسی پر ریس کورس بھی لے جاو۔
اوکے۔۔۔کامی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
کیا ہم ریس دیکھنے جائیں گے؟
نہی نہی مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔سارہ نے معصومیت سے جواب دیا۔
نہی بھابی اس ٹائم ریس نہی ہوتی وہاں اور ریس کے لیے ایک الگ استنبول ہے وہاں۔
دراصل یہ ایک پارک ہے اور اس پارک کا اصل نام جیلانی پارک ہے۔
ان دنوں فیسٹیولز ہو رہے ہیں تو مزہ آئے گا۔
ہممم اوکے،سارہ نے مختصر جواب دیا۔ریس کورس پہنچ کر حبا نے پھر سے شاپنگ کی،گول کپے کھائے اور مکڈونلڈ سے ڈنر کرنے کے بعد گھر واپس آ گئے۔
بھابی میں آپ کے سارے ڈریسز صبح الماری میں سیٹ کروا دوں گی آپ ابھی آرام کر لیں بہت تھک گئی ہوں میں تو۔
سارہ نے اپنا فون آن کیا اور آنی کا نمبر ڈائل کیا مگر وہ کال پک نہی کر رہی تھیں۔
شاید بزی ہو گی صبح کال کرتی ہوں۔

________________________________________
باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔

مسافر قسط نمبر_8

مسافر
قسط نمبر_8
از
خانزادی

کیا دادو؟
آپ ہر وقت میرے ناولز کے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔حبا رونے کو تھی۔
سارہ جھولا جھولتے ہوئے دونوں کی تکرار پر مسکرا رہی تھی۔
ہاں تو اور کیا؟
پڑھائی میں تو دھیان لگتا نہی ہے تمہارا،اگر تمہارے باپ کو پتہ چل گیا تو درگت بنا دے گا۔
اسائمنٹ کیسی ہے تمہاری؟؟
کیا مطلب کیسی ہے دادو؟
سہی تو کہہ رہی ہوں،پچھلی بار جو تم نے دو دن میں اسائمنٹ مکمل کی تھی جو بیچاری اسائمنٹ کا حال ہوا تھا اس لحاظ سے تو مجھے یہی پوچھنا چاہیے۔
کیونکہ ہر بار کی طرح اب بھی تمہارا وہی رونا دھونا ہو گا اسائمنٹ سبمٹ کروانے سے دو دن پہلے اور پھر تم ہمیشہ کی طرح میرے دانی کو تنگ کرو گی اور وہ بے چارہ پوری پوری رات جاگے گا تمہاری اسائمنٹ کے چکر میں۔
دادو آپ میرے ساتھ زیادتی کر جاتی ہیں ہمیشہ پوتوں سے بہت پیار ہے اور پوتی کی زرا فکر نہی ہے آپ کو،حبا میگزین میز پر رکھتی ہوئی منہ پھلائے بولی۔
ارے پگلی یہ زیادتی نہی تمہیں سمجھا رہی ہوں۔
میرے لیے تم سب برابر ہو۔
"بیٹی کو لاپرواہ نہی ہونا چاہیے"
"ایک خاندان کی زمہ داری ہوتی ہے بیٹی کے سر پر،پہلے وہ بیٹی ہوتی ہے پھر بیوی بنتی اور پھر ماں ان سب رشتے کو سنبھالنے کے لیے وہ بیٹی سے عورت بننے کا سفر طے کرتی ہے اور یہ سفر آسان نہی ہوتا اس کے لیے سب سے پہلا مرحلہ ہے "زمہ دار" ہونا۔
اگر ایک بیٹی زمہ دار نہی ہو گی تو گھر گرہستی کیسے سنبھال سکے گی؟
اس کا گھرانہ تو بکھر کہ رہ جائے گا۔
تم بیٹی ہو،کل کو بیاہ کر دوسرے گھر جانا ہے تمہیں اگر ایسے ہی لاپرواہ رہی تو کیسے سنبھالو گی سب؟
اب لاڈلے خول سے باہر نکل آو اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے،تمہاری ماں نے تو کچھ سمجھانا نہی تمہیں کم ازکم میری باتوں پر غور کر لیا کرو۔
کیا تم بچی کو پریشان کر رہی ہو بیگم،دیکھو تو سہی رلا دیا بچی کو،دادا جان حبا کے پاس آ گئے۔
مجھے آپ سب کے ساتھ رہنا ہے ہمیشہ،کہی نہی جاوں گی میں۔۔۔۔وہ آنسو بہاتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی۔
لو کر لو بات اور سمجھاو۔۔۔۔دادا جی مسکراتے ہوئے اپنی سیٹ پر واپس بیٹھ گئے۔
اب آپ ہی بتائیں میں نے کچھ غلط کہا ہے؟
بیٹیوں کا اتنا لاپرواہ ہونا درست نہی ہے اب اپنی سارہ کو ہی دیکھ لیں یہ پردیس میں پلی بڑھی ہے مگر اکیلی سارا گھر بھی سنبھالتی ہے اور ریسٹورنٹ بھی،یہ ساری تربیت ماں کی ہوتی ہے۔
سارہ اپنے ذکر پر محض مسکرا دی۔
وہ بات تو ٹھیک ہے تمہاری نیت سہی ہے مگر طریقہ غلط ہے,یہ باتیں اسے تنہائی میں سمجھایا کرو۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔پرجوش آواز پر وہ سب متوجہ ہوئے۔
وعلیکم اسلام آ گئے خیریت سے۔۔۔دادا جی خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بیٹے کو گلے لگا گیا۔
سارہ جھولے سے اتر کر ادب سے کھڑی ہو گئی۔
کیسی ہیں اماں جان۔۔۔وہ ماں کا بوسہ لیتے ہوئے جیسے ہی پلٹے ان کی نظر سارہ پر پڑی۔
اسلام و علیکم۔۔۔سارہ نے سلام کیا۔
یہ سارہ ہے تمہارے مرحوم بھائی کی اکلوتی نشانی۔
جیسے ہی اماں جان نے بتایا وہ خوشی سے سارہ کی طرف بڑھے۔
میری بچی انہوں نے سارہ کے سر پر ہاتھ رکھا تو سارہ خود کو روک نا سکی اور ان کے کندھے پر سر گرائے آنسو بہانے لگی۔
ناں ناں رونا نہی میری جان ہم سب ہیں تمہارے ساتھ سارہ کو خود سے الگ کر کے اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھتے ہوئے بولے۔
میں چینج کر لوں پھر سب لنچ پر ملتے ہیں وہ انرونی حصے کی جانب چل دیے۔
ادھر آو میرے پاس میری جان۔۔۔دادو نے بلایا تو سارہ ان کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہی ہے تمہارے بڑے پاپا آ گئے ہیں ناں یہ دانی کو سیٹ کر دیں گے۔
ویسے دانی ہے کہاں؟
پتہ نہی اس کا نمبر بند ہے شاید کسی کام سے باہر گیا ہو گا۔
کس کا نمبر بھائی کا وہ تو گئے ملائیشیا۔۔۔۔کامران اچانک وہاں آ گیا۔
اچانک؟
دادا جان حیرت سے بولے۔
یہ کوئی پہلی بار تھوڑی ہے؟'وہ ہمیشہ ایسے ہی تو کرتے ہیں۔
رات کو کمرے میں جاتے ہیں اور صبح ان کا ٹیکسٹ وصول ہوتا ہے"Going to America"
ہاں یہ تو ہے خیر کب تک واپسی ہے اس کی؟
No idea dado..
ابھی بھی ان کا میسیج آیا کچھ دیر پہلے کہ "Going to Malyasia"۔
اچھا چلو ٹھیک ہے خیریت سے جائے اور خیریت سے واپس آئے۔
آمین۔
بھابی کہاں چلیں گی پھر آپ؟
بھائی تو گئے اور اگر ان سے اب پوچھنے کی کوشش بھی کی تو وہ کال ہی پک نہی کریں گے۔
I have no idea..
تم حبا سے پوچھ لو جہاں تم دونوں چلو گے میں بھی چل دوں گی۔
That's great...
میں پوچھتا ہوں حبا سے۔

سارہ دوبارہ جھولے پر بیٹھ کر جھولا جھولنے لگ گئی کیونکہ اسے اپنے فون پر ایک میسیج وصول ہوا تھا اور اسے لگا اسفی کا ہو گا اور وہ ابھی کال کرے گا اس لیے وہ پہلے ہی دور چلی گئی۔
Hi Sweetheart❤
کسی انجان نمبر سے میسیج تھا۔
یہ کون ہے؟
سارہ کو حیرت سی ہوئی مگر اگلے ہی پل یاد آ گیا کہ یہ سم دانیال کی ہے۔
ضروت کسی لڑکی کا میسیج ہس گا لوفر کہی کا،اس نے غصے سے میسیج ڈیلیٹ کر دیا۔
Are you Angry with me?
پھر سے میسیج آیا۔
سارہ نے میسیج پڑھا اور ڈیلیٹ کر دیا۔
میری سم بند ہے اففف سب سے کیسے بات کروں گی،پتہ نہی ریسٹورنٹ میں سب ٹھیک چل رہا ہے یا نہی۔۔۔سارہ پریشان ہو گئی۔
I am daniyal.....
پھر سے میسیج موصول ہوا۔جیسے ہی سارہ نے میسیج پڑھا اسے حیرت ہوئی۔
دانیال اور وہ بھی مجھ سے اتنے پیار سے بات کر رہا ہے۔کہی میں خواب تو نہی دیکھ رہی۔
Dont' worry mister daniyal,i'm in home at this time...itni jaldi chor k nahi jany wali main,jis maqsad k liye aye hun wo poora kr k hi wapis jaoun gi.
سارہ نے میسیج ٹائپ کیا اور سینڈ کر دیا۔
Whatever.....Tum jo b maqsad ly kr ae ho i dont' care..socha tha tum sy pyar sy bat krun After all bivi ho tum meri,mgr tum bht dheet ho aik bat samjh lo ab tum yahan sy jany ka sochna b mat...Malaysia jarha h aik hafty baf wapis aoun ga ya phr thora aur late ho skta hun,if you need anything'kamran aur hiba sy kh deina aur mjhy apna account number b send kr do Shopping kr leina apny liye,socha to tha khud jaou tmhary sath mgr majburi h..tum hiba aur kami k sath.
میسیج پڑھ کر سارہ کو ہنسی آ گئی۔۔۔تو مسٹر فلرٹ مجھے پیسوں کا لالچ دینا چاہتا ہے جیسے میں بہت ہی غریب لڑکی ہوں۔
سوری مسٹر دانیال آپ کا یہ پلان کامیاب نہی ہو پائے گا اور اتنا پیار جو دکھا رہے ہو سب سمجھتی ہوں میں،سارے گھر والوں کے سامنے اچھے بننا چاہتے ہو۔
اس نے کوئی رپلائے نہی کیا اور فون بند کر کے سائیڈ پر رکھ دیا۔
________________________________________
باقی اگلی قسط میں۔۔۔
کیا واقعی دانیال کو فکر ہے سارہ کی یا پھر چل رہا ہے وہ کوئی چال؟

مسافر
قسط نمبر_8
از
خانزادی

کیا دادو؟
آپ ہر وقت میرے ناولز کے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔حبا رونے کو تھی۔
سارہ جھولا جھولتے ہوئے دونوں کی تکرار پر مسکرا رہی تھی۔
ہاں تو اور کیا؟
پڑھائی میں تو دھیان لگتا نہی ہے تمہارا،اگر تمہارے باپ کو پتہ چل گیا تو درگت بنا دے گا۔
اسائمنٹ کیسی ہے تمہاری؟؟
کیا مطلب کیسی ہے دادو؟
سہی تو کہہ رہی ہوں،پچھلی بار جو تم نے دو دن میں اسائمنٹ مکمل کی تھی جو بیچاری اسائمنٹ کا حال ہوا تھا اس لحاظ سے تو مجھے یہی پوچھنا چاہیے۔
کیونکہ ہر بار کی طرح اب بھی تمہارا وہی رونا دھونا ہو گا اسائمنٹ سبمٹ کروانے سے دو دن پہلے اور پھر تم ہمیشہ کی طرح میرے دانی کو تنگ کرو گی اور وہ بے چارہ پوری پوری رات جاگے گا تمہاری اسائمنٹ کے چکر میں۔
دادو آپ میرے ساتھ زیادتی کر جاتی ہیں ہمیشہ پوتوں سے بہت پیار ہے اور پوتی کی زرا فکر نہی ہے آپ کو،حبا میگزین میز پر رکھتی ہوئی منہ پھلائے بولی۔
ارے پگلی یہ زیادتی نہی تمہیں سمجھا رہی ہوں۔
میرے لیے تم سب برابر ہو۔
"بیٹی کو لاپرواہ نہی ہونا چاہیے"
"ایک خاندان کی زمہ داری ہوتی ہے بیٹی کے سر پر،پہلے وہ بیٹی ہوتی ہے پھر بیوی بنتی اور پھر ماں ان سب رشتے کو سنبھالنے کے لیے وہ بیٹی سے عورت بننے کا سفر طے کرتی ہے اور یہ سفر آسان نہی ہوتا اس کے لیے سب سے پہلا مرحلہ ہے "زمہ دار" ہونا۔
اگر ایک بیٹی زمہ دار نہی ہو گی تو گھر گرہستی کیسے سنبھال سکے گی؟
اس کا گھرانہ تو بکھر کہ رہ جائے گا۔
تم بیٹی ہو،کل کو بیاہ کر دوسرے گھر جانا ہے تمہیں اگر ایسے ہی لاپرواہ رہی تو کیسے سنبھالو گی سب؟
اب لاڈلے خول سے باہر نکل آو اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے،تمہاری ماں نے تو کچھ سمجھانا نہی تمہیں کم ازکم میری باتوں پر غور کر لیا کرو۔
کیا تم بچی کو پریشان کر رہی ہو بیگم،دیکھو تو سہی رلا دیا بچی کو،دادا جان حبا کے پاس آ گئے۔
مجھے آپ سب کے ساتھ رہنا ہے ہمیشہ،کہی نہی جاوں گی میں۔۔۔۔وہ آنسو بہاتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی۔
لو کر لو بات اور سمجھاو۔۔۔۔دادا جی مسکراتے ہوئے اپنی سیٹ پر واپس بیٹھ گئے۔
اب آپ ہی بتائیں میں نے کچھ غلط کہا ہے؟
بیٹیوں کا اتنا لاپرواہ ہونا درست نہی ہے اب اپنی سارہ کو ہی دیکھ لیں یہ پردیس میں پلی بڑھی ہے مگر اکیلی سارا گھر بھی سنبھالتی ہے اور ریسٹورنٹ بھی،یہ ساری تربیت ماں کی ہوتی ہے۔
سارہ اپنے ذکر پر محض مسکرا دی۔
وہ بات تو ٹھیک ہے تمہاری نیت سہی ہے مگر طریقہ غلط ہے,یہ باتیں اسے تنہائی میں سمجھایا کرو۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔پرجوش آواز پر وہ سب متوجہ ہوئے۔
وعلیکم اسلام آ گئے خیریت سے۔۔۔دادا جی خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بیٹے کو گلے لگا گیا۔
سارہ جھولے سے اتر کر ادب سے کھڑی ہو گئی۔
کیسی ہیں اماں جان۔۔۔وہ ماں کا بوسہ لیتے ہوئے جیسے ہی پلٹے ان کی نظر سارہ پر پڑی۔
اسلام و علیکم۔۔۔سارہ نے سلام کیا۔
یہ سارہ ہے تمہارے مرحوم بھائی کی اکلوتی نشانی۔
جیسے ہی اماں جان نے بتایا وہ خوشی سے سارہ کی طرف بڑھے۔
میری بچی انہوں نے سارہ کے سر پر ہاتھ رکھا تو سارہ خود کو روک نا سکی اور ان کے کندھے پر سر گرائے آنسو بہانے لگی۔
ناں ناں رونا نہی میری جان ہم سب ہیں تمہارے ساتھ سارہ کو خود سے الگ کر کے اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھتے ہوئے بولے۔
میں چینج کر لوں پھر سب لنچ پر ملتے ہیں وہ انرونی حصے کی جانب چل دیے۔
ادھر آو میرے پاس میری جان۔۔۔دادو نے بلایا تو سارہ ان کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہی ہے تمہارے بڑے پاپا آ گئے ہیں ناں یہ دانی کو سیٹ کر دیں گے۔
ویسے دانی ہے کہاں؟
پتہ نہی اس کا نمبر بند ہے شاید کسی کام سے باہر گیا ہو گا۔
کس کا نمبر بھائی کا وہ تو گئے ملائیشیا۔۔۔۔کامران اچانک وہاں آ گیا۔
اچانک؟
دادا جان حیرت سے بولے۔
یہ کوئی پہلی بار تھوڑی ہے؟'وہ ہمیشہ ایسے ہی تو کرتے ہیں۔
رات کو کمرے میں جاتے ہیں اور صبح ان کا ٹیکسٹ وصول ہوتا ہے"Going to America"
ہاں یہ تو ہے خیر کب تک واپسی ہے اس کی؟
No idea dado..
ابھی بھی ان کا میسیج آیا کچھ دیر پہلے کہ "Going to Malyasia"۔
اچھا چلو ٹھیک ہے خیریت سے جائے اور خیریت سے واپس آئے۔
آمین۔
بھابی کہاں چلیں گی پھر آپ؟
بھائی تو گئے اور اگر ان سے اب پوچھنے کی کوشش بھی کی تو وہ کال ہی پک نہی کریں گے۔
I have no idea..
تم حبا سے پوچھ لو جہاں تم دونوں چلو گے میں بھی چل دوں گی۔
That's great...
میں پوچھتا ہوں حبا سے۔

سارہ دوبارہ جھولے پر بیٹھ کر جھولا جھولنے لگ گئی کیونکہ اسے اپنے فون پر ایک میسیج وصول ہوا تھا اور اسے لگا اسفی کا ہو گا اور وہ ابھی کال کرے گا اس لیے وہ پہلے ہی دور چلی گئی۔
Hi Sweetheart❤
کسی انجان نمبر سے میسیج تھا۔
یہ کون ہے؟
سارہ کو حیرت سی ہوئی مگر اگلے ہی پل یاد آ گیا کہ یہ سم دانیال کی ہے۔
ضروت کسی لڑکی کا میسیج ہس گا لوفر کہی کا،اس نے غصے سے میسیج ڈیلیٹ کر دیا۔
Are you Angry with me?
پھر سے میسیج آیا۔
سارہ نے میسیج پڑھا اور ڈیلیٹ کر دیا۔
میری سم بند ہے اففف سب سے کیسے بات کروں گی،پتہ نہی ریسٹورنٹ میں سب ٹھیک چل رہا ہے یا نہی۔۔۔سارہ پریشان ہو گئی۔
I am daniyal.....
پھر سے میسیج موصول ہوا۔جیسے ہی سارہ نے میسیج پڑھا اسے حیرت ہوئی۔
دانیال اور وہ بھی مجھ سے اتنے پیار سے بات کر رہا ہے۔کہی میں خواب تو نہی دیکھ رہی۔
Dont' worry mister daniyal,i'm in home at this time...itni jaldi chor k nahi jany wali main,jis maqsad k liye aye hun wo poora kr k hi wapis jaoun gi.
سارہ نے میسیج ٹائپ کیا اور سینڈ کر دیا۔
Whatever.....Tum jo b maqsad ly kr ae ho i dont' care..socha tha tum sy pyar sy bat krun After all bivi ho tum meri,mgr tum bht dheet ho aik bat samjh lo ab tum yahan sy jany ka sochna b mat...Malaysia jarha h aik hafty baf wapis aoun ga ya phr thora aur late ho skta hun,if you need anything'kamran aur hiba sy kh deina aur mjhy apna account number b send kr do Shopping kr leina apny liye,socha to tha khud jaou tmhary sath mgr majburi h..tum hiba aur kami k sath.
میسیج پڑھ کر سارہ کو ہنسی آ گئی۔۔۔تو مسٹر فلرٹ مجھے پیسوں کا لالچ دینا چاہتا ہے جیسے میں بہت ہی غریب لڑکی ہوں۔
سوری مسٹر دانیال آپ کا یہ پلان کامیاب نہی ہو پائے گا اور اتنا پیار جو دکھا رہے ہو سب سمجھتی ہوں میں،سارے گھر والوں کے سامنے اچھے بننا چاہتے ہو۔
اس نے کوئی رپلائے نہی کیا اور فون بند کر کے سائیڈ پر رکھ دیا۔
________________________________________
باقی اگلی قسط میں۔۔۔
کیا واقعی دانیال کو فکر ہے سارہ کی یا پھر چل رہا ہے وہ کوئی چال؟

مسافر قسط نمبر_7

مسافر
قسط نمبر_7
از
خانزادی

بڑی ماما آپ۔۔۔۔۔سارہ کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔
ہاں میں۔۔۔تو کیا کہہ رہی تھی تم؟
وہ اپنے رعب دار انداز میں چلتی ہوئیں صوفے پر براجمان ہوئیں۔
کیا؟؟؟
سارہ کو کچھ سمجھ نہی آ رہا تھا کہ وہ کیا بات کرے،اسے ڈر تھا کہ وہ اس کی اسفی کے ساتھ ہونے والی ساری باتیں سن چکی ہیں۔
یہی جو تم ابھی بول رہی تھی کہ تم نے یہاں آ کر بہت بڑی غلطی کر دی۔
سہی کہہ رہی تھی تم!
تم نے واقعی یہاں آ کر بہت بڑی غلطی کر دی۔۔۔بہتر ہے واپس چلی جاو۔
کیونکہ دانیال تم میں انٹرسٹڈ نہی ہے اور نہ ہی میں اور میرا بیٹا وہی کرے جو میں چاہوں گی۔
طلاق کے پیپرز تمہیں وہاں پہنچ جائیں گے۔
سارہ ہکا بکا سی ان کو دیکھتی رہ گئی۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟
سہی ہی تو کہہ رہی ہوں میں۔۔۔۔کوئی فائدہ نہی ہونے والا تمہارا اس رشتے سے۔
میں تمہیں تمہارے مقصد میں ہرگز کامیاب نہی ہونے دوں گی۔
کیسا مقصد بڑی ماما؟
سارہ کو اپنی آواز دبی ہوئی محسوس ہوئی،وہ بہت ہمت کرتے ہوئے بولی۔
تم کیا سمجھتی ہو مجھے پتہ نہی چلے گا؟
میں باقی گھر والوں کی طرح اندھی نہی ہوں جو تمہارے اچانک پاکستان آنے کا مقصد نہ پہچان سکوں۔
تم وہ کرنے آئی ہو جو تمہاری ماں نہ کر سکی۔
آج سے کئی سال پہلے وہ آئی تھی یہاں اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر میرے بھولے بھالے دیور اور اس گھر پر حق جمانے اور آج تم آئی ہو۔
سارہ کو لگا شاید اس کے پیروں تلے کسی نے زمین کھینچ لی ہو۔
بڑی آئی اس گھر پے حق جمانے والی۔
تمہاری ماں کو لگا تھا یہاں قدم جما لے گی مگر میرے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
کیا سمجھی تھی تمہاری ماں کہ اس گھر میں راج کرے گی۔
جھونپڑیوں میں بسنے والے محلوں کے خواب نہی دیکھا کرتے۔۔۔۔
میرے دیور نے نیشنیلٹی کے لیے نکاح کیا کر لیا وہ خود کو اس گھر کی مالکن ہی سمجھ بیٹھی۔
مگر مجھے اس کو اس کی اوقات یاد دلانی پڑی۔
میں بے بس تھی مجھے کمرے میں بند کر کے میرے معصوم بیٹے کو اس جال میں پھنسا دیا گیا۔
اس وقت تو میں اپنے بیٹے کے لیے کچھ نہی کر سکی مگر اب مزید میں کوئی زیادتی برداشت نہی کروں گی اپنے بیٹے کے ساتھ۔
بہتر یہی ہو گا تم جس راستے سے پاکستان آئی ہو اسی راستے سے واپس ترکی چلی جاو۔
اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔
وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چل دیں۔
آپ کو یہ دولت اور آپ کا بیٹا بہت بہت مبارک۔۔۔۔
سارہ کی آواز پر وہ واپس پلٹیں۔
مجھے نہ تو یہ دولت چاہیے اور نہ ہی آپ ک دولتمند بیٹا۔
سچ تو یہ ہے کہ میں یہاں آپ کے بیٹے سے خلع لینے ہی آئی ہوں۔
مگر آپ کا فرمانبردار بیٹا مجھے طلاق دینے سے انکار کر چکا ہے۔
اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟
دیکھتے ہیں آپ کا بیٹا آپ کا کتنا فرمانبردار بنتا ہے۔
تو جائیے اور کہیے اس سے کہ مجھے طلاق دے۔
تم مجھے چیلنج کر رہی ہو؟
وہ غصے سے سارہ کی طرف بڑھیں۔
ناں ناں ناں ناں۔۔۔۔۔۔مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کیجیے گا۔
میں کوئی مظلوم سی پاکستانی لڑکی نہی ہوں جو چپ چاپ آپ کا ظلم برداشت کرتی چلی جائے گی۔
میں ڈائریکٹ پولیس کو کال کروں گی،آپ کو اور آپ کے لاڈلے بیٹے کو مجھے گھر میں قید کرنے پر جیل بھجواوں گی۔
تمہاری اتنی ہمت۔۔۔۔۔وہ ابھی سارہ پر ہاتھ اٹھانے کی غرض سے آگے بڑھی ہی تھیں کہ ایک کرخت آواز پر واپس پلٹیں۔
زلیخا۔۔۔۔۔۔
یہ دادی جان تھیں۔
یہ کیا کر رہی تھی تم بچی کے ساتھ؟
ان کو آتے دیکھ سارہ تیزی سے ان سے لپٹ کر آنسو بہانے لگی۔
بہو تم سے اس رویے کی امید نہی تھی مجھے۔۔۔دادا جی بھی ساتھ کمرے میں آئے۔
ابا جان وہ میں۔۔۔۔۔انہوں نے کچھ بولنا چاہا مگر دادی جی بول پڑیں۔
بس زلیخا تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہی ہے ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔
شرم آنی چاہیے تمہیں یتیم بچی کے سر پر ہاتھ رکھنے کی بجائے اس پر ہاتھ اٹھ رہی ہو۔
نہی اماں جان دراصل میں۔۔۔۔
بس۔۔۔۔بہو جاو یہاں سے۔۔۔۔۔دادا جی کا چہرہ غصے سے سرخ ہونے لگا۔
آخر کار زلیخا بیگم کو کمرے سے باہر جانے میں ہی آفیت نظر آئی۔
ناں میری بچی رونا نہی۔۔۔ہم ہیں ناں تمہارے ساتھ۔
وہ سارہ کے سر پر ہاتھ رکھے بولے۔
یہ دانی کہاں ہے؟
بلائیں اسے کال کر کے،سارہ اس کی زمہ داری ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اس کی بیوی پر ظلم ہو رہا ہے اور وہ انجان بنے پھرتا ہے۔
دادی جی کا غصہ جوش پروش تھا۔
ہاں میں کرتا ہوں۔۔۔وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔
سارہ دادی جی کی گود میں سر رکھے آنسو بہاتی رہی۔
دادو آپ سے ایک بات پوچھوں؟
ہاں میری جان پوچھو۔۔۔۔وہ سارہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں۔
کیا آپ کو بھی ایسا لگتا ہے کہ میری ماما نے جائیداد کے لیے بابا سے شادی کی تھی اور بابا نے نیشنیلٹی کے لیے؟
یہ کس نے کہہ دیا تم سے سارہ؟
وہ چونک گئیں سارہ کے سوال پر۔
بڑی ماما نے۔۔۔وہ ان کی گود سے سر اٹھا کر اٹھ بیٹھی اور اپنا حجاب درست کرنے لگی۔
یہ بہتان ہے زلیخا کا اور اس سے بڑھ کر وہ کر بھی کیا سکتی ہے۔
تمہارے بابا نے یہ شادی ہماری مرضی سے کی تھی۔
زلیخا اپنی بہن کی شادی کرنا چاہتی تھی تمہارے بابا سے،ہمارے پاس انکار کی کوئی وجہ نہی تھی۔
انہی دنوں تمہارے بابا نے بتایا تھا کہ ان کی ایک دوست ہے اور وہ اسے پسند کرتے ہیں۔
تو ہم نے اس سے کہا کہ فوراً نکاح کر لو اور اپنے نکاح کی تصویریں اور نکاح نامے کی کاپی پاکستان بھجوا دو۔
تمہارے بابا نے ایسا ہی کیا۔
زلیخا کو جو مرچیں لگیں وہ میں تمہیں بتا نہی سکتی۔
پھر تمہارے بابا تمہیں اور تمہاری ماما کو ساتھ لے کر اپنے گھر واپس آئے۔
زلیخا نے گھر میں طوفان برپا کر دیا کہ اگر یہ لوگ یہاں رہے تو وہ اس گھر میں نہی رہے گی اپنے تینوں بچوں سمیت مائیکے چلی جائے گی۔
صورتحال بہت خراب ہو چکی تھی گھر کے بگڑتے حالات اور دونوں بھائیوں کے درمیان اخلافات نہ ہو اس لیے ہمیں تمہارے اور دانیال کے نکاح کا فیصلہ کرنا پڑے۔
میرے دونوں بیٹوں کو ہمارے فیصلے پر کوئی اختلاف نہی تھا اگر کوئی مخالف تھا تو وہ تھی زلیخا۔
اسے کمرے میں قید کرنا پڑا اور کوئی حل نہی تھا۔
پھر تمہاری ماما کو اچانک ترکی واپس جانا پڑا کیونکہ تمہاری نانی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
وہ تمہیں بھی ساتھ لے گئیں مگر تمہارے بابا بزنس میں مصروفیات کی وجہ سے نا جا سکے۔
پھر تمہیں اور تمہاری ماما کو ایمرجنسی پاکستان آنا پڑا تمہارے بابا کے آخری دیدار کے لیے۔
پتہ نہی کیا ہوا اچانک میرے بیٹے کو جو وہ اس کا ہارٹ فیل ہو گیا۔
وجہ آج تک معلوم نہی ہو سکی۔
سارہ نے ہاتھ بڑھ کر دادو کے آنسو صاف کیے۔
میں ہوں ناں آپ کے پاس بابا کی بیٹی ان کی پرچھائی۔
ہاں بلکل تم اپنے بابا جیسی ہی ہو،ایسے لگتا ہے جیسے میرا بیٹا اور بہو واپس آ گئے ہو،وہ سارہ کا ماتھا چومتی ہوئی بولیں۔
دانی کال پِک نہی کر رہا۔۔۔۔کامی کو بولا ہے اسے بلانے کو۔۔۔دادا جی بھی کمرے میں آ گئے۔
سارہ میری جان آو باہف گارڈن میں چلتے ہیں،یہاں کمرے میں بیٹھ کر کیا کرو گی۔
وہ سارہ کا ہاتھ تھامے اسے گارڈن میں لے گئے جہاں حبا پہلے سے میگزین پڑھنے میں مصروف تھی۔
سارہ کو آتے دیکھ جھولے سے اتر گئی۔آئیں بھابی یہاں بیٹھیں۔
بیٹھی تو وہ اندر بھی تھی،ارے بھئی اسے کہی باہر گھمانے لے کر جاو ایسے کمرے میں بور ہونے کے لیے چھوڑ آئے تم سب۔۔۔دادا جی ناراضگی سے بولے۔
Sorry dasa jan
میں سنڈے میگزین پڑھ رہی تھی ذہن میں ہی نہی رہا۔
ہاں بھئی تمہیں تو فضول کہانیاں پڑھنے سے ہی فرصت نہی۔۔۔دادی جی نے بھی حبا کی کلاس لگائی۔

مسافر قسط نمبر_6

مسافر
قسط نمبر_6
از
خانزادی
اگلے دن وہ تیار ہو کر صبح صبح گیٹ سے باہر جانے لگی تو گیٹ کیپر نے اسے باہر جانے سے روک دیا۔
میم آپ باہر نہی جا سکتیں۔۔۔
سارہ حیرت سے گیٹ کیپر کو دیکھنے لگی۔
کیا مطلب؟
میں باہر کیوں نہی جا سکتی؟
میم سر کا آرڈر ہے کہ آپ کو اکیلے باہر نہ جانے دیا جائے،یا تو آپ ڈرائیور کے ساتھ چلی جائیں گاڑی میں یا گھر کے کسی فرد کے ساتھ مگر اکیلی نہی جا سکتی آپ۔
سوری میم۔۔۔۔میری جاب ہے۔
وہ معزرت کرتے ہوئے نظریں جھکائے کھڑا رہا۔
کیا میں پوچھ سکتی ہوں یہ آرڈر کس نے دیا ہے آپ کو؟
سارہ غصہ ظبط کرتے ہوئے بولی۔
دانیال سر کا آرڈر ہے یہ۔۔۔۔وہ نظریں جھکائے بولا۔
اوکے۔۔۔۔۔وہ گہری سانس لیتے ہوئی واپس پلٹی،جیسے ہی وہ واپس پلٹی اس کی نظر دانیال پر پڑی۔
وہ ٹیرس کی ریلنگ پر جھکا اسے دیکھ کر مسکرایا اور ہاتھ ہلایا۔
سارہ تیزی سے اندر گئی اور تیز تیز سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی اوپر پہنچی۔
اس کا سانس پھول چکا مگر غصہ تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہی لے رہا تھا۔
یہ غلط کر رہے ہو تم میرے ساتھ۔۔۔وہ سانس بحال کرتے ہوئے بولی۔
کیا غلط کیا ہے میں نے؟
دانیال نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔
سارہ کو مزید تپ چڑھی اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہونے لگا۔
مجھے باہر جانا ہے ضروری کام سے اور تم نے گارڈ کو منع کیا ہے مجھے گھر سے باہر جانے سے۔
کیا میں پوچھ سکتی ہوں کیوں؟
ہاں کیوں نہی پوچھ سکتی ہو۔
تمہارے باہر جانے پر پابندی اس لیے لگائی تا کہ تم یہاں سے بھاگ نہ سکو۔
وہ کیا ہے ناں اگر تم یہاں سے باہر نہی جا سکو گی تو خلع کے لیے کیس بھی نہی کر سکو گی۔
بس یہی وجہ تھی،وہ کندھے اچکاتے ہوئے پھر سے ریلنگ پر جھک گیا۔
مجھے سِم چاہیے اس کے لیے باہر جا رہی تھی اور جہاں تک بات خلع کی ہے اس کی فکر تم مت کرو وہ تم خود دو گے۔
ہممم بہت بڑی غلط فہمی ہے جناب کی وہ سارہ کی طرف مسکراتے ہوئے پلٹا۔
سِم کی فکر مت کرو،اپنے کمرے میں جاو مل جائے گی۔
سارہ چند پل اسے گھورتی رہی اور پھر تیزی سے نیچے چلی گئی۔
بھابھی یہ بھائی نےبھیجی ہے آپ کے لیے۔۔کچھ دیر بعد حبا دروازہ ناک کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔
اس نے سارہ کی طرف سم بڑھائی،نا چاہتے ہوئے بھی سارہ نے وہ سِم تھام لی۔
آپ کمرے میں کیوں بیٹھی ہیں،چلیں باہر سب کے ساتھ ناشتہ کریں۔
ڈیڈ بھی آ جائیں گے دوپہر تک،وہ شہر سے باہر گئے ہیں بزنس کے سلسلے میں۔
نہی میں ٹھیک ہوں یہاں۔۔۔۔سارہ نےمعزرت کی۔
بھائی کیسے لگے آپ کو؟
حبا کے سوال پر سارہ نے اسے چونک دیکھا۔
میرا مطلب آپ دونوں کی پہلی ملاقات تھی ناں بچپن کے بعد۔
تو کیسا لگا بھائی سے مل کر میرا مطلب اپنے ہسبینڈ سے مل کر،آخری بات پر حبا مسکرائی۔
سارہ نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا۔۔دل تو چاہ رہا تھا  کہ بولے تمہارا بھائی کسی ذہر سے کم نہی۔
اچھا چلیں چھوڑیں آئیں ناشتہ کرتے ہیں۔
وہ سارہ کو بازو سے کھینچتی ہوئی ڈائیننگ ٹیبل تک لے گئی۔
سارہ سلام کرتی ہوئی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
تم کہاں چلے؟
دانیال ناشتہ درمیان میں ہی چھوڑ کر وہاں سے چل دیا۔
دانیال کی ماما اس کے ساتھ ہی کرسی سے اٹھ گئیں۔
بس ماما میری طبیعت کچھ ٹھیک نہی ہے۔
سارہ نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہی کیا وہ چپ چاپ ناشتہ کرنے لگی۔
کیا ہوا ہے طبیعت کو،وہ بیٹے کا ماتھا چھو کر بولیں۔
کچھ نہی ماما میں ٹھیک ہوں۔۔۔وہ تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔
سارہ کو کچھ عجیب سا احساس ہوا،کچھ تھا جو وہ سمجھ نہی پائی۔
کیا ہوا سارہ کھاو ناں بیٹا رک کیوں گئی؟
دادو نے اسے ٹوکا تو وہ چونک سی گئی۔
کچھ نہی دادو جان۔۔۔وہ پھر سے کھانا کھانے میں مصروف ہو گئی۔
دانیال کی ماما پھر سے اپنی سیٹ پر آ گئیں اور سارہ کو گھورنے لگیں۔
اس لڑکی کی وجہ سے میرے بیٹے کو ناشتہ ادھورا چھوڑ کہ جانا پڑا۔
زرا خوش نہی ہے وہ اس کے ساتھ مگر ابا جان زبردستی رشتہ جوڑے بیٹھے ہیں۔
لگتا ہے بھائی شرما گئے ہیں بھابی سے،کامران بولا تو سب مسکرا دیے۔
شٹ اپ کامی۔۔۔۔بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو کس کے بارے میں بات کر رہے ہو۔
مسز ذیشان تپ گئیں۔
ماما میں تو مزاق کر رہا تھا۔
بس۔۔۔۔مزاق کی بھی حد ہوتی ہے،وہ غصے میں وہاں سے چلی گئیں۔
چھوڑو عادت ہے تمہاری ماں کی،دادو بولیں تو سب مسکرا دیے۔
تو بھابھی آپ کہاں جانا پسند کریں گی؟
سارہ سوچ میں پڑ گئی کامران کی بات پر۔
حبا نے اس کے سر پر چت لگائی۔
تم نہ سدھرنا کامی،پوری بات تو بولا کرو۔
بھابھی اس کے کہنے کا مطلب ہے آپ بہت عرصے بعد پاکستان آئی ہیں اور آپ اس وقت پاکستان کے سب سے خوبصورت شہر لاہور میں موجود ہیں۔
تو لاہور کے خوبصورت مقامات کی سیر پر چلیں گی ہمارے ساتھ؟
ضرور۔۔۔مگر ایک بار آپ اپنے بھائی سے بھی پوچھ لیں تو بہتر ہو گا،کیا پتہ وہ مجھے جانے کی اجازت دیں یا نہی۔
کیوں'دانی ایسا کیوں کرے گا؟
دادا جان آپ ان سے پوچھ لیں کیونکہ انہوں نے میرے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
اس کی اتنی مجال۔۔۔میں ابھی پوچھتا ہوں۔
جی ضرور۔۔۔ایکسکیوزمی۔
مجھے آنی سے بات کرنی ہے پھر واپس آتی ہوں۔
وہ ہاتھ صاف کرتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گٙی۔
سم آن کی اور اسفی کا نمبر ڈائل کیا۔
اسلام و علیکم۔۔۔اسفی میں سارہ۔
وعلیکم اسلام۔۔۔ہاں میں نے پہچان لی تمہاری آواز۔
مہوش نے بتا دیا تھا مجھے کہ تم خیریت سے اپنے گھر پہنچ چکی ہو۔
میں تمہاری کال کا ہی انتظار کر رہا تھا۔
ہاں وہ ابھی سم ملی مجھے۔
تم جانتے ہو دانیال کیسا سلوک کر رہا ہے میرے ساتھ؟
اس نے میرے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔
اور وہ تمہارے بارے میں بھی سب جانتا ہے،بہت بدگمان ہے وہ مجھ سے۔۔۔سے لگتا ہے میں تم سے شادی کرنے کے لیے اس سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔
اسفی پلیز کچھ کرو۔۔۔مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔
میں یہاں قیدی بن کر نہی رہ سکتی۔
تم پاکستان آ جاو اور دانیال کے اس وہم کو یقین میں بدل ڈالو۔
میں ایسے انسان کے ساتھ ہرگز زندگی نہی گزار سکتی جسے اپنی بیوی پر یقین تک نہ ہو۔
تم جتنی جلدی ہو سکے پاکستان آو۔
آنی کے پاس تانیہ کو چھوڑ دو وہ سب سنبھال لے گی۔
ٹھیک ہے سارہ میں سوچتا ہوں اس بارے میں،لیکن تب تک تم ہمت مت ہارنا۔
تمہیں مظبوط بننا ہو گا۔
ہاں میں کوشش کر رہی ہوں اسفی مگر۔۔۔۔مجھے رشتوں کی بے رخی سہنے کی عادت نہی ہے۔
مجھے اپنے رشتوں سے ہمیشہ پیار ہی ملا ہے،میں عادی ہی نہی ہوں نفرت سہنےکی۔
مجھے لگتا تھا شاید میں دانیال کے بارے میں غلط سوچتی ہوں اور ہو سکتا ہے اس نے مجھے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی ہو گی۔
شاید وہ مجھے سامنے دیکھ کر خوش ہو گا۔
جو بھی ہو آخر ہمارے درمیان ایک پاک رشتہ ہے مگر میں غلط تھی۔
اس نے میرے سارے وہم کلئیر کر دیے۔
اس نے مجھے ڈھونڈنے کی کوشش تو کی تھی اور مجھ تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہو گیا تھا مگر زرا سی غلط فہمی کی وجہ سے بدگمانیاں لیے واپس آ گیا۔
اسے چاہیے تھا کہ وہ مجھ سے مل کر بات کرتا۔میرے دل میں کیا ہے جاننے کی کوشش کرتا۔
مگر نہی!
اس نے کبھی پلٹ کر دیکھا ہی نہی اور آج جب میں اس کے سامنے ہوں تب بھی وہ اسی انجان راستے کا مسافر بنا ہوا ہے جس کی کوئی منزل ہی نہی ہے۔
باقی سب کا رویہ کیسا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔اسفی نے بات بدلی کیونکہ وہ سارہ کے خاموش آنسووں کی آواز سن سکتا تھا۔
ہممم باقی سب کا سلوک بہت اچھا ہے سوائے بڑی ماما اور دانیال کے۔
اور دانیال سے تو میں اب کوئی امید بھی نہی رکھنا چاہتی۔
جتنی جلدی ہو سکے تم یہاں آ جاو۔
مجھے ترکی واپس جانا ہے اپنے محبت اور خلوص بھرے رشتوں کے پاس۔
ٹھیک ہے تم۔پریشان نہ ہو میں کچھ کرتا ہوں۔
ہممم۔۔۔خدا حافظ
سارہ نے کال ڈسکنیکٹ کر دی۔
اب کیا کروں میں؟
کیا سارا دن یونہی کمرے میں بیٹھی رہوں گی۔
اچھی بھلی زندگی چل رہی تھی بہت بڑی غلطی کر دی میں نے یہاں آ کر۔
سہی کہا بہت بڑی غلطی کر دی تم نے یہاں آ کر۔۔۔اس آواز پر وہ کھڑکی سے واپس پلٹی اور ساکت رہ گئی۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔کیا خیال ہے کون آیا سارا کے کمرے میں؟

مسافر قسط نمبر_5

مسافر
قسط نمبر_5
از
خانزادی

دانی بھائی سے بات ہو گئی ہے وہ آنے والے ہیں،حبا کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئی بولی۔
میں نے ان سے بولا ہے گھر میں ایمرجنسی ہے،جلدی آ جائیں۔
سارہ بھابی کا بتاتی تو ان کے لیے ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو جاتا۔
بڑا اچھا کارنامہ سر انجام دیا ہے تم نے۔۔۔کامران نے اس کے سر میں تھپڑ مارا۔
اب وہ پریشان ہو رہے ہو گے اور پریشانی میں گھر بھاگے آئیں۔
بہت غلط بات ہے حبا۔۔دادا جان نے بھی اسے ٹوکا۔
اب کیا ہو سکتا ہے؟
حبا نے کندھے اچکائے۔
حبا جو تم نے کرنا تھا وہ تو کر لیا،جاو اب سارہ کے کمرے میں کھانا پہنچاو۔
پتہ نہی میری بچی نے کچھ کھایا بھی ہو گا یا نہی۔
دادی جان فکر مندی سے بولیں۔
جی دادو میں بھجواتی ہوں۔
سارہ کی آنکھ لگی ہی تھی کہ دروازہ ناک ہوا۔
وہ بے دلی سے آنکھیں مسلتی ہوئی اٹھی۔دروازے پر ملازمہ تھی کھانے کی ٹرے اٹھائے۔
اس نے ٹرے لا کر میز پر رکھ دی۔
میم نے کھانا بھیجا ہے آپ کے لیے۔
جی شکریہ۔۔۔سارہ مسکراتے ہوئے بولی تو وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
سارہ نے اپنا حجاب اتارا اور بیگ کھول کر دوسرا ڈریس نکال کر واش روم چلی گئی۔
فریش ہو کر واپس آئی اور کھانا کھایا۔
مغرب کی اذان ہونے لگی تو وہ وضو کر کے نماز ادا کرنے چل دی۔
نماز پڑھ کر کھڑکی کھولے باہر دیکھنے لگی،ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔
رنگ برنگے ہھول دل لبھا رہے تھے۔
کچھ دیر وہی کھڑی رہی پھر یاد آیا کہ آنی اور اسفند کو تو بتایا ہی نہی کہ میں پاکستان پہنچ گئی ہوں۔
لیپ ٹاپ آن کیا تو نیٹورک ڈسکنیکٹ تھا اور سِم بند ہو چکی تھی۔
Ohhh Shitttt.....
نئی سِم تو خریدی ہی نہی میں نے اور ڈیٹا بھی کنیکٹ نہی ہو رہا۔
کسی سے پوچھتی ہوں۔
وہ کمرے سے باہر نکلی تو ایک کمرے سے آتی آوازیں سن کر اس کے قدم وہی رک گئے۔
Sorry dad...
میں اس لڑکی کو نہی اپنا سکتا،بہتر ہے آپ اسے واپس بھیج دیں۔
اب تک وہ کہاں تھی،کس کے ساتھ تھی؟
نا تو آپ جانتے ہیں اور نا ہی میں۔۔۔۔
آپ اس سے کہہ دیں جہاں سے آئی ہے وہی واپس چلی جائے۔
نا جانے کیسے ماحول میں اس کی تربیت ہوئی ہے۔
میں اسے اپنی زندگی میں شامل نہی کر سکتا۔
بس سارہ کی برداشت یہی تک تھی،اس نے دروازے کو زور سے دھکیلا اور کمرے میں داخل ہو گئی۔
دانیال فون کان سے لگائے کھڑا تھا،دروازہ کھلنے کی آواز پر کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے سارہ کی طرف پلٹا۔
یہ کونسا طریقہ ہے کسی کے کمرے میں آنے کا؟
وہ بنا کوئی لحاظ کیے غصے سے بولا۔
آپ میری تربیت پر انگلی اٹھائیں اور مجھے بنا اجازت کمرے میں آنے کا بھی حق نہی،واہ۔
کیا کہنے آپ کے۔
میری تربیت پر انگلی اٹھانے سے بہتر ہے کہ ایک جھلک اپنے گریبان میں دیکھ لیں۔
بہت بڑی خوش فہمی ہوئی ہے آپ کو میرے آنے کی خبر سن کر۔
مگر ایک بات میں صاف صاف بتا دیتی ہوں۔
مجھے کوئی شوق نہی ہے تمہارے ساتھ گھر بسانے کا مسٹر دانیال۔۔۔۔
میں یہاں تمہارے لیے نہی آئی بلکہ اپنے لیے آئی ہوں۔
خلع چاہیے مجھے تم سے۔۔۔۔۔سارہ چلائی۔
اوہ۔۔۔۔تو تم ہو سارہ۔۔۔دانیال اسے سر تا پاوں دیکھتے ہوئے بولا۔
وہ ٹائی کھینچ کر اتارتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
اور اگر میں تمہیں طلاق نہ دوں تو؟
اس کے لہجے میں انتہائی غصہ تھا۔
تو میں کورٹ جاوں گی۔۔۔تمہیں خلع کے پیپرز بھجواوں گی۔
تو یہ کام تم ترکی سے بھی کر سکتی تھی،یہاں آنے کا مقصد؟
مقصد میں تمہیں بتا چکی ہوں۔
تم تیاری کر لو گھر والوں کو جواب دینے کی۔
ویٹ ویٹ۔۔۔۔کیا بولی تم؟
میں گھر والوں کو جواب کیوں دوں گا؟
اور یہ تمہاری غلط فہمی ہے کہ میں تمہیں طلاق دوں گا۔
تم آزادی چاہتی ہو مجھ سے اور اس اسفند کے ساتھ گھر بسانا چاہتی ہو۔
تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔وہ سارہ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔
تمہیں کیا لگا مجھے پتہ نہی چلے گا؟
سب جانتا ہوں تم اس کے ساتھ تنہا رہتی ہو۔
تمہیں کیا لگا میں تمہیں ڈھونڈ نہی سکوں گا۔
No....
گھر والوں کو کیا کہنا ہے یہ تم جانو!
اگر تم نے مجھے اس معاملے میں انوالو کیا تو میں تمہارے سارے کارنامے گھر والوں کے سامنے پیش کر دوں گا کہ تم وہاں ایک اجنبک کے ساتھ رہتی ہو۔
اور اس سے شادی کرنے کے لیے مجھ سے خلع لینا چاہتی ہو۔
چٹاخ۔۔۔۔ابھی دانیال کچھ بولنے ہی والا تھا کہ سارہ کا ہاتھ اٹھ گیا۔
تم ایک بزدل انسان ہو۔
تم جو سمجھتے ہو سمحھتے رہو۔۔۔۔میں تم سے خلع لے کر اسفند کے ساتھ گھر بساوں یا ناں بساوں تمہیں اس بات سے کوئی مطلب نہی ہونا چاہیے۔
تمہاری نظر میں بدچلن ہوں میں؟
تو دو مجھے طلاق اور آزاد کر دو اس بے نام رشتے سے۔
دانیال گال پر ہاتھ رکھے سارہ کو گھور رہا تھا۔
تمہاری یہ خواہش مرتے دم تک پوری نہی کروں گا میں۔۔۔وہ کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
سارہ آنسو بہاتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی۔
اپنےکمرے میں گئء دروازہ لاک کیا اور آنسو بہانے لگی۔
میں کبھی سوچ بھی نہی سکتی تھی تم اتنے گھٹیا انسان ہو گے۔
تو ٹھیک ہے اگر تمہیں ایسا لگتا ہے تو یہی سہی،میں تمہارا یہ وہم اب سچ کر کے دکھاوں گی۔
دروازہ ناک ہوا تو وہ آنسو پونچھتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی۔
سامنے حبا تھی۔
بھابی آپ یہاں ہیں اور بھائی نیچے بیٹھے ہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔
میری طبیعت زرا خراب ہے،میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہوں۔
سارہ نے دانیال سے ملنے کو صاف انکار کر دیا۔
مگر بھابی۔۔۔۔
پلیز مجھے بھابی مت بولو حبا،میرا نام سارہ ہے یا تو میرا نام لیا کرو یا پھر آپی بولو۔
مگر بھابی کو آپی کیسے بول سکتے ہیں،حبا منہ بناتے ہوئے بولی۔
ہم کزنز بھی تو ہیں۔۔۔سارہ نے اسے یاد دلایا۔
ٹھیک ہے جیسے آپ کو بہتر لگے۔
آپ آرام کریں پھر،میں بھائی سے کہہ دیتی ہوں وہ آپ سے یہی مل لیں۔
نہہہی۔۔۔۔۔میں ابھی کسی سے نہی مل سکتی،میری طبیعت ٹھیک نہی ہے۔
ٹھیک ہے میں آپ کے دوائی بھیجتی ہوں۔
نہی میرے پاس ہے۔۔۔۔سارہ تیزی میں بولی۔
چلیں ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔۔۔
حبا۔۔۔۔ویٹ
مجھے ڈیٹا چاہیے،ایکچولی مجھے آنی سے بات کرنی تھی کہ میں خیریت سے پہنچ گئی ہوں۔
Yes sure...
یہ لیں پاسورڈ۔۔۔۔۔حبا نے پین اٹھایا اور ڈائری پر لکھ دیا۔
Thanks....
سارہ نے اس کا شکریہ ادا کیا۔
کوئی بات نہی اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیجئیے گا۔
Ok....
وہ کمرے سے گئی تو سارہ نے دروازہ بند کیا اور لیپ ٹاپ پر پاسورڈ ایڈ کیا۔
ڈیٹا کنیکٹ ہوا تو اس نے آنی سکائپ پر کال کی اور اپنے پہنچنے کی خبر دی۔
اسفی کو کال کروں یا نہہ۔۔۔نہی بلکہ ابھی تو وہ ریسٹورنٹ ہو گا۔
کل سِم منگوا لوں پھر کروں گی اس سے بات۔

________________________________________
کیا خیال ہے آپ سب کا دانیال کے بارے میں😕
مجھے تو بہت ذہر لگا،آپ سب بتاو😜
اور کیا ہو گا سارہ کا اگلا قدم😕

مسافر قسط نمبر_4

مسافر
قسط نمبر_4
از
خانزادی
کہاں کہاں نہی ڈھونڈا تمہیں۔۔۔میں بتا نہی سکتا آج کتنا خوش ہوں میں تمہیں سامنے دیکھ کر۔
کاش میں بھی یہ کہہ سکتا دادا جان!
ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے اگر ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو۔۔۔۔۔سارہ کا لہجہ طنزیہ تھا۔
آو اندر چلو بیٹا سارے گلے شکوے یہی کرو گی کیا؟
وہ سارہ کا بازو تھامتے ہوئے اندر کی طرف بڑھے۔
میں چلتی ہوں۔۔۔خدا حافظ۔
مہوش بلند آواز میں بولتی ہوئی گیٹ پار کر گئی۔
جیسے ہی سارہ گھر میں داخل ہوئی سامنے ٹی وی لاونج کے صوفے پر اس کی دادی براجمان تھیں۔سارہ کو آتے دیکھ وہ لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئی اٹھ گئیں اور سارہ کی طرف بڑھیں اسے گلے سے لگائے آنسو بہانے لگیں۔
سارہ حیران تھی کہ اس گھر کے مکین اگر اس سے اتنی محبت کرتے تھے تو یہ تب کہاں تھے جب اس کے سر سے ماں باپ دونوں کا سہارا اٹھ گیا۔
کہاں تھے تب،جب وہ تنہا اپنا گھر چلانے کی خاطر ریسٹورنٹ میں خوار ہوتی رہی؟
اس نے اپنی دادی کا ماتھا چومتے ہوئے خود سے الگ کیا اور انہیں سہارا دیتے ہوئے صوفے تک لے آئی۔
کون ہے یہ لڑکی بابا جان؟
سارہ کے کانوں میں کرخت آواز گونجی،وہ تیزی سے واپس پلٹی۔
یہ سارہ ہے بہو۔۔۔۔اس سے پہلے کہ سارہ کوئی جواب دیتی سارہ کے دادا بول پڑے۔
سارہ۔۔۔۔شہزاد کی بیٹی؟
وہ ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولیں اور ان کی آواز میں واضح گھبراہٹ تھی۔
ایسے جیسے سارہ کے یہاں آنے پر انہیں کوئی خوشی محسوس نا ہوئی ہو۔
جی بڑی ماما میں سارہ شہزاد۔۔۔۔آپ کے اکلوتے دیور کی اکلوتی بیٹی۔
سارہ آگے بڑھی اور مسکراتے ہوئے اپنا تعارف پیش کیا۔
یہاں کیا لینے آئی ہو تم؟
تمہیں یاد نہی کئی برس پہلے تم سے اور تمہارے ماں،باپ سے رشتے توڑ چکے ہیں ہم؟
بہو۔۔۔۔سارہ کے دادا غصے سے چلائے۔
ابھی ہم زندہ ہیں یہ فیصلے کرنے کے لیے کہ کس سے رشتہ جوڑنا ہے اور کس سے توڑنا ہے۔
بہتر ہو گا اگر تم اس معاملے سے دور رہو۔
جتنا حق اس گھر کے باقی وارثوں کا اس گھر پر ہے اتنا ہی حق سارہ کا بھی ہے،شاید بھول رہی ہو تم۔
اور اگر تم بھول گئی ہو تو میں تمہیں یاد دلا دوں،یہ دانیال کے نکاح میں ہے۔
میں نہی بھولی بابا جان سب یاد ہے مجھے لیکن ایک بات آپ بھی اس لڑکی کو سمجھا دیں۔
دانیال اسے قبول نہی کرے گا۔۔۔۔
یہ اپنے مفاد میں کامیاب نہی ہو گی،یہ جتنے دن اس گھر میں رہنا چاہے رہ سکتی ہے مگر اس گھر میں بسنے کا خیال دل سے نکال دے۔
وہ پیر پٹختی ہوئیں وہاں سے چلی گئیں۔
اس کی باتوں کا برا مت ماننا سارہ اس کی عادت ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ دانیال نے تمہیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی تھی وہ تمہارے پرانے ایڈریس پر بھی گیا تھا مگر تم لوگ وہاں نہی تھے۔
تمہارے باپ کی میت دفن ہوتے ہی تمہاری ماں تمہیں یہاں سے لے گئی۔
اس نے ہم پر یقین کرنا ضروری ہی نہی سمجھا۔
ہم نے کہاں کہاں نہی ڈھونڈا تم دونوں کو مگر کچھ پتہ نہی چلا۔
دادو ماما اب اس دنیا میں نہی ہیں۔۔۔۔سارہ کے بولنے پر وہ حیران رہ گئیں اور پھر سے آنسو بہانے لگیں۔
ماما کا دو سال پہلے انتقال ہو گیا۔
تو دو سال سے تم کہاں رہ رہی تھی ایک پردیس ملک میں اکیلی؟
جب بابا کی دیتھ ہوئی تو ماما کو لگا شاید آپ لوگ مجھے ان سے چھین لیں گے تو مجبوراً وہ مجھے یہاں سے ترکی واپس لے گئیں۔
آپ لوگ ہم تک نا پہنچ سکیں اس لیے ماما نے وہ گھر بیچ دیا اور ہم نانو گھر رہنے چلے گئے جہاں بس نانو اور آنی رہتی تھیں۔
نانو کی دیتھ کے بعد ہم لوگ اکیلے پڑ گئے مگر ہمت نہی ہاری اور دن رات ایک کر کے اپنا ریسٹورنڑ چلانے لگیں۔
مگر ماما کی دیتھ کے بعد ہم دونوں بہت اکیلی پڑ گئی تھیں وہ تو شکر ہے اسفی آ گیا۔
وہ ہمارا کرایے دار ہے مگر کرایے دار سے زیادہ اس کی اہمیت گھر کے فرد کی طرح ہے۔
میں واپس نہی آنا چاہتی تھی مگر آنی چاہتی تھیں کہ میں پاکستان جاوں اور اپنے خونی رشتوں سے ملاقات کروں اور سب سے بڑھ کر وہ چاہتی ہیں کہ میں دانیال کے ساتھ خوش رہوں۔
بہت اچھا سوچا ہے اس نے تمہارے لیے بہت اچھا کیا تم نے واپس آ کر۔
تمہارے لیے روم سیٹ کروا دیا ہے جاو آرام کرو بیٹا۔
دانیال شام تک آ جائے گا اور تمہارے بڑے پاپا بھی۔
لو حبا بھی آ گئی یونیورسٹی سے۔۔۔۔وہ حبا کو آتے دیکھ بولے۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔حبا سارہ کو دیکھ کر حیرت سے بولی۔
آو حبا اپنی آپی سے ملو۔۔۔۔یہ سارہ ہے ترکی سے آئی ہے۔
سارہ؟؟؟؟
حبا سوچ میں پڑ گئی۔
سارہ بھابی۔۔۔۔وہ خوشی سے سارہ سے لپک گئی۔
ہاں بھئی یہ سارہ بھابی بھی ہے تمہاری۔۔۔دادا جان اور دادی جان دونوں کو اس طرح دیکھ بہت خوش تھے۔
میں ابھی بھائی کو کال کر کے بتاتی ہوں۔۔حبا خوشی سے اپنا فون بیگ سے نکال کر وہاں سے چل دی۔
Bhai please pick up the call.....
وہ بے چینی سے دانیال کا نمبر ڈائل کر رہی تھی مگر وہ کال اٹینڈ نہی کر رہا تھا۔
بھائی کال اٹینڈ نہی کر رہے مگر جیسے ہی انہیں پتہ چلے گا وہ فوراً گھر آ جائیں گے۔
وہ سارہ کے سامنے خوشی سے پھولے نا سما رہی تھی۔
لو آ گئے مسٹر کامران صاحب آپ کے اکلوتے دیور صاحب۔۔۔۔حبا نے دروازے کی طرف اشارہ کیا تو سب متوجہ ہوئے۔
Guess kami who is with me?
حبا خوشی سے کامران کی طرف بھاگی۔
who?
اس نے ایک نظر سارہ کو دیکھا اور لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔
سارہ بھابی۔۔۔۔۔حبا نے سارہ کی طرف اشارہ کیا۔
Ohhh my God....
وہ حیران سا سارہ کی طرف بڑھا۔
hy bhabi how are you?
میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔سارہ بہ مشکل اتنا ہی بول پائی۔
بھائی کو کال کی آپ سب نے؟
یہ نیک کام مجھے کرنا پڑے گا۔۔۔۔وہ بھی اپنا فون کان سے لگائے آگے بڑھ گیا اور حبا بھی اس کے ساتھ بھاگی۔
جاو بیٹا تم آرام کرو،یہ سب تو چلتا رہے گا۔۔/دادو کے کہنے پر سارہ بوجھل قدموں کے ساتھ ملازمہ کے ساتھ چل دی۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
یہ سب مجھے دیکھ کر اتنے خوش کیسے ہو سکتے ہیں؟
اور دانیال۔۔۔۔۔۔کیا واقعی وہ میرے آنے سے خوش ہو گا؟
کیا واقعی اس نے مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی؟
کہی ایسا تو نہی کہ یہ سب لوگ مجھے بے وقوف بنا رہے ہو اور مجھے یہاں ہمیشہ کے لیے روکنے کی پلاننگ کر رہے ہو؟
نہی ایسا نہی ہو سکتا،بس دانیال کے آنے کی دیر ہے۔
میں ڈائریکٹ اس سے خلع کی بات کروں گی،وہ دروازہ لاک کرتی ہوئی صوفے پر گر سی گئی,سفر کی تھکاوٹ سے سر درد سے پھٹ رہا تھا۔
________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔اگر آپ لوگ ناول نہی پڑھنا چاہتے تو بتا دیں،میں پوسٹ نہی کروں گی کیونکہ آپ لوگ نہ تو لائک کرتے ہیں اوع نا ہی کمنٹ😕
تو پھر میری اتنی محنے کا کیا فائدہ؟

Monday, April 13, 2020

مسافر قسط نمبر_3

مسافر
قسط نمبر_3
از
خانزادی
کب ختم ہو گا یہ سفر؟
سارہ بے دلی سے سفر طے کر رہی تھی۔
پتہ نہی کیسا رویہ ہو سب کا اور کیا پتہ وہ مجھے گھر میں رہنے کی اجازت دیں گے بھی یا نہی؟
میں بھی کیا سوچ رہی ہوں،میں کونسا وہاں رہنے کے لیے جا رہی ہوں۔
جاتے ہی اپنے آنے کا مقصد بیان کر دوں گی اور دانیال سے خلع لے کر واپس آ جاوں گی۔
وہ خود سے ہی سوال کر رہی تھی اور خود ہی اپنے سوالات کے جواب دے رہی تھی۔
عجیب سی کشمکش میں تھی وہ جیسے کوئی طالب علم امتحان سے پہلے پریشان ہو کہ نا جانے کون کون سا سوال پوچھ لیا جائے۔
اس وقت سارہ کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔
آخر کار کئی گھنٹے انتظار کے بعد فلائٹ لینڈ ہوئی۔
وہ ائیر پورٹ سے باہر آئی تو ویٹنگ ائیریا میں ایک لڑکی کو اپنے نام کا بورڈ اٹھائے دیکھا۔
وہ اس کی طرف بڑھی۔
I am sarah....
سارہ کی آواز پر وہ لڑکی اس کی طرف متوجہ ہوئی اور ببل گم کا پٹاخہ مارتے ہوئے سر تا پاوں سارہ کو دیکھا۔
Oh my my......
تو تم ہو سارہ؟
جی۔۔۔ سارہ کو اس کا رویہ کچھ عجیب سا لگا۔
وہ جینز اور شرٹ میں ملبوس تھی اور لمبے بال کندھے پر گرائے آنکھوں پر سن گلاسز لگائے کھڑی تھی۔
آ جاو یار کب سے انتظار کر رہی ہوں تمہارا۔
وہ آگے بڑھ کر سارہ کے گلے لگ گئی۔
سارہ تو حیران ہی رہ گئی۔
میں مہوش۔۔۔اسفی کی کزن۔
Nice to meet you...
سارہ نا چاہتے ہوئے بھی مسکرائی۔
Welcome To pakistan....
وہ دونوں بازو لہراتے ہوئے بولی اور پارکنگ کی طرف چل دی۔
سارہ بھی اس کے پیچھے چل دی،وہ حیران تھی مہوش کا لباس دیکھ کر۔
اس نے ایک نظر خود کو گاڑی کے مرر میں دیکھا اور اپنا حجاب درست کرنے لگی۔
لاو میں تمہارا بیگ رکھ دیتی ہوں اس نے سارہ کے ہاتھ ست بیگ کھینچ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر پھینکا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
سارہ کو اس کی یہ حرکت بلکل نا بھائی وہ سیٹ پر بیٹھ گئی مگر اس کا دھیان پچھلی سیٹ پر گرے اپنے بیگ پر ہی تھا۔
chilll yarrrrr.....
کچھ نہی ہوتا تمہارے بیگ کو۔
ویسے ہمیں جانا کہاں ہے،اس نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔
او ہاں ہاں یاد آیا اسفی نے ایڈریس سینڈ کر دیا تھا مجھے۔
Dont worry....
ایگ گھنٹے میں پہنچا دوں گی تمہیں۔۔۔۔۔
اس کے بعد اس نے گاڑی میں تیز آواز میں میوزک چلا دیا۔
سارہ کو عجیب سی وحشت ہونے لگی اس نے اپنی سائیڈ سے مرر ڈاون کیا اور باہر دیکھنے لگی۔
ہر طرف سبزہ تھا بہت پیارے پھول لگے ہوئے تھے،یہ منظر سارہ کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔
کیسا لگا تمہیں ہمارا پاکستان؟
سارہ کو باہر متوجہ دیکھ کر مہوش نے میوزک بند کر دیا اور اس سے سوال کیا۔
ابھی اتنی جلدی میں کوئی رائے نہی دے سکتی۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔اچھا جواب ہے۔۔۔مہوش مسکراتے ہوئے بولی۔
ویسے میں نے سنا ہے ترکی میں لڑکے بہت ہینڈسم ہوتے ہیں؟
پتہ نہی میری کبھی کسی لڑکے سے ملاقات نہی ہوئی،سارہ کو مہوش کا یہ سوال بھی عجیب لگا۔
کیوں اسفی کو تو جانتی ہو تم'اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
اسفی پاکستانی ہے ترکش نہی۔۔۔۔
اور ہم بس اچھے دوست ہیں اس سے زیادہ کچھ نہی۔
And for your kind information....I am married.
اور یہاں میں اپنے ہسبینڈ اور فیملی کے پاس آئی ہوں۔
کیوں آپ کے ہسبینڈ کیوں نہی آئے وہاں؟
میرا مطلب ہے کہ انہیں آنا چاہیے تھا ترکی یا پھر آپ کو ترکی کی بجائے پاکستان رہنا چاہیے تھا۔
کیونکہ شوہر کو اگر اکیلا چھوڑ دیا جائے تو وہ بیوی کو بھول کر فرار ہو جاتا ہے۔
میں ترکی اپنی ماما کی وجہ سے تھی،ان کء طبیعت ٹھیک نہی رہتی۔
اوہ اچھا اچھا۔ ۔ اب کیسی ہیں وہ؟
She is no more....
اوہ۔۔۔بہت افسوس ہوا۔
i am really sorry...
Its ok....
اس کے بعد مہوش نے کوئی سوال نہی کیا۔
لیں جی آ گئی آپ کی منزل۔۔۔۔
گاڑی ایک عالیشان بنگلے کے باہر رکی۔
سارہ گاڑی سے اتری اور اپنا بیگ اٹھا کر اندر سے ایک پیپر نکالا۔
ایڈریس دیکھا اور گیٹ کی طرف بڑھی۔
مہوش نے ڈگی ست بیگ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
سارہ نے بیل بجائی تو اندر سے ایک گن مین باہر آیا۔
جی کس سے ملنا ہے؟
سارہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
اب کس کا نام لوں میں؟
وہ سوش میں پڑ گئی۔
دددانیال۔۔۔۔۔دانیال سے ملنا ہے۔
She is mrs: Daniyal....
مہوش آگے بڑھ کر تیزی سے بولی۔
یہ ترکی سے آئی ہیں۔۔۔۔آپ کے صاحب دانیال کی بیوی ہیں۔
آپ ویٹ کریں میں کال کر کے کنفرم کر لوں۔
کتنا عجیب گیٹ کیپر ہت،زرا تمیز نہی ہے اسے مہوش تپ گئی۔
ایکچولی یہ مجھے جانتے نہی ہیں ناں اس لیے۔۔سارہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولی۔
سر یہاں ایک میم ہیں وہ کہہ رہی ہیں ان کا نام اارہ ہے اور وہ ترکی سے آئی ہیں۔
جی سر۔۔۔۔اوکے۔
وہ رسیور رکھتے ہوئے سارہ کی طرف آیا۔
آئیں میم آپ اندر جا سکتی ہیں۔
Sorry...
یہ میری ڈیوٹی ہے۔
its ok...
سارہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھی۔
اتنی دیع میں سامنے سے اندرونء دروازہ کھلا اور ایک ملازمہ دوڑتی ہوئی آئی اور سارہ کے ہاتھ سے بیگ لے کر گھسیٹنے لگی۔
لائیں میم مجھے دیں۔
نہی میں مینیج کر لوں گی۔سارہ شرمندہ سی بولی۔
اتنی دیر میں اندرونی دروازت سے ایک بزرگ باہر آتے دکھائی دیے۔
سارہ ان کو پہچان سکتی تھی،اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی مگر اگلت ہی پل وہ مسکراہڑ اڑن چھو ہو گئی۔
سارہ یہاں سے نہی جائے گی تم اپنی بیوی کو لے کر چلے جاو یہاں سے۔۔۔یہ ہمارا خون ہے۔
تمہیں کوئی حق نہی اسے ہم سے چھیننے کا!
نہی باباجانی پلیز۔۔۔۔میری بیٹی کو مت چھینیں مجھ سے۔
سارہ میری اکلوتی اولاد ہے میں اس کے بغیر نہی رہ سکتی۔
تو پھر ٹھیک ہے بہو ہم سے ایک وعدہ کرنا ہو گا تمہیں۔۔۔سارہ کا نکاح دانیال سے ہو گا وہ بھی ابھی اور تم وعدہ کرو ہم سے سارہ کی پڑھائی مکمل ہونے پر اسے پاکستان واپس بھیج دو گی ہمیشہ کے لیے۔
وہ ماضی کی تلخیوں میں کھو چکی تھی ہوش تب آیا جب انہوں نے سارہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔

مسافر قسط نمبر_2

مسافر
قسط نمبر_2
از
خانزادی

تو پھر کیا سوچا تم نے؟
وہ دونوں ریسٹورنٹ سے گھر کی طرف جا رہے تھے کہ اسفند نے پھر سے اسے یاد دلایا۔
کس بارے میں؟
سارہ لاپرواہی سے بولی۔
پاکستان جانے کے بارے میں،اسفند ناراضگی سے رکا،جیسے اس کی بات کی کوئی ویلیو نا ہو سارہ کی نظر میں۔
سارہ رک کر اس کی طرف واپس پلٹی۔
تمہیں اتنی جلدی کیوں ہے؟
یہ میرا مسئلہ ہے تمہیں زیادہ سیریس لینے کی ضرورت نہی ہے،وہ پھر سے چلنے لگی۔
اسفند بھی اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
یہ صرف تمہارا مسئلہ نہی ہے سارہ!
میں تمہیں پریشان نہی دیکھ سکتا،جتنی جلدی ہو سکے تم اس بے نام رشتے کے بوجھ سے خود کو آزاد کر لو۔
تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں پریشان ہوں؟
کوئی پریشانی نہی ہے مجھے اور ہاں جہاں تک بات اس رشتے کی ہے تو وہ واقعی بوجھ ہے مجھ پر،میں خود اس بوجھ سے آزاد کرنا چاہتی ہوں خود کو مگر ابھی نہی۔
ابھی میرا پاکستان جانے کا کوئی ارادہ نہی ہے۔
آنی کو دیکھو،ان کی طبیعت ٹھیک نہی رہتی میں ان کو اکیلے چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہوں؟
اور اگر دانیال خود آ گیا یہاں تمہیں اپنے ساتھ لیجانے وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تو؟
کیا کر لو گی تم؟
پھر تو ہر حال میں تمہیں اس کے ساتھ جانا ہی پڑے گا۔
ایسے کیسے آجائے گا وہ یہاں؟
اگر اسے آنا ہوتا تو کب کا آ چکا ہوتا۔۔۔۔
لیکن فرض کرو سارہ اگر وہ آ جائے؟
آجائے تو۔۔۔۔۔دھکے مار کر نکالوں گی اسے ترکی سے،اسے کوئی حق نہی مجھے یہاں سے لیجانے کا۔
Really?
واقعی اسے کوئی حق نہی؟؟؟
اسے پورا حق ہے یار،تم اس کے نکاح میں ہو۔
یہی تو میں تمہیں سمجھا رہا ہوں کہ اس سے پہلے کہ وہ یہاں آئے بہتر ہے تم وہاں چلی جاو اور اس سے یہ حق واپس لے لو کیونکہ وہ اس قابل ہے ہی نہی۔
You deserves better.....
کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو،سارہ سوچ میں پڑ گئی۔
بلکل ٹھیک کہہ رہا ہوں میں،آنی کی فکر مت کرو تم میں ہوں یہاں ان کے ساتھ۔
اپنی آنے والی زندگی کا سوچو۔۔۔۔
تو بتاو مجھے ٹکٹ کنفرم کروا دوں؟
مگر اتنی جلدی!
مجھے سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے،سارہ کنفیوز سی تھی۔
لو کر لو گل۔۔۔۔سوچی پئیاں تے بندا گیا۔
اسفند کی بات پر سارہ مسکرا دی۔
ایک تو تم اور دوسری تمہاری یہ لینگویج لگتا ہے مجھے پکی پنجابن بنا کر ہی دم لو گے۔
چلو ٹھیک ہے تم ٹکٹس کنفرم کرواو۔
ٹکٹس نہی سارہ بس ٹکٹ۔۔۔۔
کیوں؟
سارہ کو جیسے شاکڈ لگا۔
تم نہی جاو گے اور آنی؟
میں ان کو یہاں کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہوں؟
تم دونوں بھی میرے ساتھ جاو گے۔
اگر میں تمہارے ساتھ گیا تو ریسٹورنٹ کون سنبھالے گا اور آنی کا تو سوچو ان کی کنڈیشن ایسی نہی ہے کہ وہ پلین کا سفر کر سکیں۔
بہتر یہی ہے کہ تم خود جاو بس۔
اگر کوئی پرابلم ہو تو مجھ سے شئیر کر لینا میں فوراً آجاوں گا۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔سارہ بے دلی سے بولی۔
وہ گھر پہنچ چکے تھے،اسفند نے چابی گھما کر لاک کھولا اور سلام کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوا۔
اتنی دیر کر دی تم دونوں نے؟
میں کب سے کھانا گرم کیے بیٹھی ہوں۔
آنی کھانا رہنے دیں خوشخبری سنیں،سارہ پاکستان جانے کے لیے راضی ہو گئی ہے۔
کیا واقعی؟
وہ خوشی سے سارہ کی طرف بڑھیں۔
بہت اچھا فیصلہ کیا تم نے،یہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔
میری دعا ہے کہ تم دانیال کے ساتھ ہمیشہ خوش رہو۔
آپ غلط سمجھ رہی ہیں آنی!
میں دانیال کے ساتھ گھر بسانے نہی جا رہی بلکہ اس سے خلع لینے جا رہی ہوں،وہ غصے میں اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔
Dont worry Anny.....
اسفند نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
اللہ ہدایت دے اس لڑکی کو،اس کی زندگی ہے میں کیا کہہ سکتی ہوں۔
تم کھانا کھاو گے؟
جی آنی میں چینج کر لوں پھر آتا ہوں،اسفند مسکراتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف چل دیا۔
دو دن بعد۔۔۔۔۔
خیریت سے جاو،پہنچ کر اطلاع ضرور دے دینا۔
اب میں مزید کوئی زبردستی نہی کروں گی تمہارے ساتھ،تمہاری زندگی ہے جو بہتر لگتا ہے وہی کرو اپنے لیے۔
سارہ ائیرپورٹ جانے کے لیے تیار تھی اور اسفند گاڑی میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا جبکہ آنی اسے الوداع کرتے ہوئے آنسو بہا رہی تھیں۔
سارہ کے پاس کوئی جواب نہی تھا۔۔۔وہ بے بس سی ان کے کندھے پے سر ٹکائے آنسو بہا رہی تھی۔
اسفند کے بار بار ہارن دینے پر آخر کار وہ خدا حافظ بول کر باہر چل دی۔
جانتا ہوں یہ مشکل وقت ہے تمہارے لیے مگر یہ ضروری ہے۔
آج نہی تو کل تمہیں اپنی زندگی میں آگے بڑھنا ہے۔
امید ہے تمہارا سفر اچھا گزرے،پاکستان پہنچتے ہی مجھے کال کر دینا۔
میری کزن کرن تمہیں ائیرپورٹ سے پِک کر لے گی اور تمہارے مطلوبہ ایڈریس پر پہنچا دے گی۔
یہ اس کا نمبر ہے اپنے بیگ میں سنبھال کر رکھ لینا۔سارہ نے مسکراتے ہوئے وہ پیپر بیگ میں رکھ لءا اور چیک ان کے لیے آگے بڑھ گئی۔
کچھ دیر بعد وہ پلین میں بیٹھ گئی اور فلائٹ اڑنے کا انتظاع کرنے لگی۔
جب اس کی فلائٹ کا اعلان ہوا تو اسفند نے سکھ کا سانس لیا اور ریسٹورنٹ واپس آ گیا۔

________________________________________

باقی اگلی قسط میں۔۔۔

#خانزادی

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط)

مسافر قسط نمبر_24(آخری قسط) از خانزادی بھابی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟ حبا کی آواز پر سارہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرا دی۔ نہی ایسا ک...